"RKC" (space) message & send to 7575

کرپشن کنٹریکٹ!

اب سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی گرفتار ہوگئے ہیں ۔ ایک دفعہ پھر ہمیں بتایا جارہا ہے اس سے جمہوریت کمزور ہوگی ۔ 
یاد آیا کہ جب 1993ء میں الیکشن ہورہے تھے تو ان دنوں پی ٹی وی پر مختلف سیاستدانوں کے انٹرویوز ہورہے تھے اور انہیں وقت دیا جارہا تھا کہ وہ قوم کے سامنے تقریر بھی کریں ۔ بینظیر بھٹو نے ایک نعرہ دیا تھا کہ نیا سوشل کنٹریکٹ ہونا چاہیے۔ مطلب یہ تھا کہ نئے سرے سے سب شروعات ہونی چاہیے۔ معاشرے کے مختلف طبقات کو بیٹھ کر کچھ مشترکہ اصول طے کرنے چاہئیں تاکہ پاکستان اور سیاست آگے بڑھے۔ ہمارے جیسے سب رومان پرستوں نے حمایت کی کہ جنرل ضیا کے بعد ملکی سیاست اور معاشرے کا جو حشر ہوا اس کے بعد نئی شروعات کی ضرورت ہے ۔ سیاستدانوں کو جس طرح کرپشن کی طرف 1985ء کی اسمبلی میں لگایا گیا تھا اس کے بعد ضروری تھا کہ سیاست اور سیاسی کلچر کو پھر سے زندہ کیا جائے۔ بینظیر بھٹو پر ان دنوں پہلی حکومت ختم ہونے کے بعد کرپشن کے الزامات لگ رہے تھے۔ زرداری جیل میں تھے‘ لہٰذا وہ چاہتی تھیں کچھ نئی شروعات ہوں ۔ تاہم نواز شریف کو سمجھا دیا گیا تھا کہ آپ نے اس طرح کے کسی چکر میں نہیں آنا ۔ افسوس یہ ہوتا ہے کہ جب بینظیر بھٹو سوشل کنٹریکٹ کا نعرہ لگا کر پاور میں آئیں اس کے بعد کرپشن کا لیول بڑھ گیا ۔ زرداری کا ساٹھ ملین ڈالرز منی لانڈرنگ کا سکینڈل بھی ان کے دوسرے دور ِحکومت میں آیا‘ جب وہ سوشل کنٹریکٹ مانگ رہی تھیں ۔ بی بی کے نیکلس کی خریداری بھی انہی دنوں ہورہی تھی ۔ سرے محل بھی انہی دنوں خریدا جارہا تھا‘ جب ہمیں نئے سوشل کنٹریکٹ کی بتی کے پیچھے لگایا جارہا تھا ۔
نواز شریف اقتدار سے نکلے تو لندن میں انہیں خیال آیا کہ اب تک سب کچھ غلط ہوتا رہا ہے ۔اس لیے اب نئے سیاسی کنٹریکٹ کی ضرورت ہے‘ جس کا نام انہوں نے چارٹر آف ڈیموکریسی رکھا ۔ لندن میں ہونے والے اس کنٹریکٹ میں بھی ہمیں کئی کہانیاں سنائی گئیں اور لمبے لمبے دعوے کیے گئے۔ اس دوران بینظیر بھٹو نے جنوبی افریقہ کی طرز پر Truth and reconciliation commissionبنانے کی تجویز دی۔ مطلب وہی تھا کہ جو کچھ ہم سیاستدان کھا پی چکے ہیں وہ بھول جائیں۔ آئندہ وہ سوچیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ پھر کیا ہوا ؟ وہی بینظیر بھٹو جنرل مشرف سے خفیہ ملاقاتیں کررہی تھیں جبکہ شریف خاندان وطن واپسی پر جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتیں کررہا تھا ۔ یہ حال ہوا چارٹر آف ڈیموکریسی کا ۔ اب پھر بلاول کہتے ہیں کہ دوبارہ چارٹر آف ڈیموکریسی کی ضرورت ہے۔ جونہی کوئی سیاستدان کرپشن میں دھر لیا جاتا ہے اسے فورا ًکوئی نہ کوئی نئی بات یاد آجاتی ہے‘ مزے کی بات ہے کہ جب اقتدار مل جاتا ہے تو پھر سب وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ کبھی ان سیاستدانوں کی بات پر یقین کرنے کو دل کرتا تھا لیکن ان کی چرب زبانیاں ‘دھوکے اور قلابازیاں دیکھ کر یقین تو دور کی بات‘ انہیں اب سننے کو بھی دل نہیں کرتا۔ ایسے ایسے جھوٹ ان لوگوں نے بولے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے۔ 
ابھی شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری پر ہونے والا واویلا سن رہا ہوں۔ اب ایک نیا ٹرینڈ آگیا ہے کہ جو بھی کرپشن میں پکڑا جاتا ہے اس کی سب سے زیادہ صفائیاں صحافی دینے لگ گئے ہیں۔ ان صحافیوں میں سے اکثر کو اب سیاسی پارٹیاں جوائن کرلینی چاہئیں ۔ کسی دور میں یہ فیصلہ کیا گیا ہو گا کہ ایسے لوگوں کو میڈیا میں ڈالا جائے جو کل کو ان کے حق میں پروپپگنڈا کریں گے۔ ان صحافیوں اور دانشوروں کے نزدیک کرپشن اور کرپٹ اس جمہوریت کے لیے بہت ضروری ہیں۔ یہ وہ گروہ ہے جو ان بدعنوانوں کے اقتدار میں آتے ہی عہدے بانٹنے لگ جاتا ہے۔ اب صحافی بھی اقتدار میں باقاعدہ حصہ لیتے ہیں ۔ بعض کو تو سنا ہے ٹی وی چینلز پر تنخواہ بھی ان پارٹیوں کے اشتہارات سے مل رہی ہوتی ہے۔ جو جتنا پڑھ لکھ گیا ہے وہ اتنا ہی کرپٹ کا حامی بن گیا ہے۔ کرپٹ اب سیاستدان بن گئے ہیں‘ چند صحافی ساتھ ملائو اور پھر کھل کر مال بنائو اور اگر آپ پر ہاتھ ڈالا جانے لگے تو شور مچا دو کہ صحافت خطرے میں ہے۔ اس وقت جتنے بھی صحافت کو خطرے میں پا کر شور مچا رہے ہیں یہ کبھی اپنے پروگرامز میں ان کرپٹ لوگوں سے ان کی دولت اور کرپشن پر کوئی سوال نہیں کریں گے ۔
دراصل آگاہی بھی ایک عذاب ہے۔ انہی شاہد خاقان عباسی کے دور میں جس طرح کی ڈیلیں کی گئیں ان کی تفصیل پڑھیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں‘ لیکن چونکہ صحافیوں یا تبصرہ نگاروں کی اس کلاس نے کبھی نہ کوئی خبر بریک کی‘ نہ ہی دستاویزات پڑھنے کی تکلیف کی‘ لہٰذا ان کے نزدیک سب کچھ انتقامی کارروائی ہے۔ ان سب کو کھلی چھٹی ہونی چاہیے۔ میں شرطیہ کہتا ہوں کہ ان سیاستدانوں کے دانشور حامیوں نے شریف خاندان پر بننے والی جے آئی ٹی کی مرتب کردہ رپورٹ کا ایک صفحہ بھی شاید نہ پڑھا ہو‘ پورے دس والیمز پڑھنا تو دور کی بات ہے۔ اسی طرح ان میں سے کتنے ہوں گے جنہوںنے زرداری کے جعلی اکائونٹس پر بننے والی جے آئی ٹی کے چوبیس والیمز کو پڑھا ہوگا۔ اگر پڑھا ہوتا تو یقین کریں آج ان دانشوروں میں سے کوئی بھی ان دونوں خاندانوں کے حق میں ایک بات بھی نہ کرتا‘ بلکہ شاید ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے ہوتے۔ مجھے نہیں پتہ کہ ان دانشوروں نے جان بوجھ کر وہ دستاویزات نہیں پڑھیں یا وہ پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اتنے ثبوتوں کی موجودگی میں کوئی سمجھدار بندہ یہ کہے کہ ان لوگوں کو کچھ نہ کہا جائے ورنہ جمہوریت کمزور ہوجائے گی۔
شاہد خاقان عباسی کی چند مہربانیاں ہی دیکھ لیں:2004 ء میں یہ فیصلہ ہوا کہ قطر سے جو گیس آئے گی اس کے لیے پورٹ قاسم پر ایک فلوٹنگ ٹرمینل کی ضرورت ہے۔ ای سی سی کو جو دستاویزات بھیجی گئیں ان کے مطابق شروع میں اس کی لاگت تین ارب روپے لگائی گئی۔ پھر راتوں رات اس کی لاگت کو تیرہ ارب روپے کر دیا گیا۔ دس ارب روپیہ اس میں کمایا گیا ۔ ساتھ ہی جس پارٹی کو وہ ٹھیکہ دیا گیا وہ پاکستان کے خلاف تھی ۔ اس کے مطابق اینگرو کراچی کو اگلے پندرہ سال تک روزانہ دو لاکھ بہتّر ہزار ڈالرز ملیں گے ‘چاہے ٹرمینل استعمال ہو یا نہ ہو۔ یوں تیرہ ارب روپے کی سرمایہ کاری کے بدلے میں اگلے پندرہ سال تک دو سو ارب روپے اس پارٹی کو دینے ہوں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت خود ہی تین ارب روپے کا ٹرمینل لگاتی تاکہ پیسہ بچتا‘ لیکن ایک پرائیویٹ پارٹی کو دو سو ارب روپے کی ڈیل دی گئی۔ اب اس پارٹی کو2014 ء سے روزانہ تین کروڑ روپے مل رہے ہیں ۔ یوں پہلے سال میں ہی اس پارٹی نے تیرہ ارب روپے کی سرمایہ کاری پوری کر لی ہے اور اگلے چودہ سال تک یہ ڈیڑھ سے دو سو ارب روپے منافع کمائے گی۔ دنیا میں کہاں ہوتا ہے کہ تیرہ ارب روپے کے بدلے آپ کو پندرہ سالوں میں دو سو ارب روپے کے قریب منافع ملے۔ مزے کی بات ہے کہ سب کام پاکستان میں ہورہا تھا‘پارٹی بھی پاکستانی تھی‘ لیکن ادائیگی کا معاہدہ ڈالروں میں ہوا ۔ یوں جوں جوں ڈالر کا ریٹ بڑھ رہا ہے اس پارٹی کو گھر بیٹھے روزانہ فائدہ ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں گیس اور پٹرول فیلڈ کا منافع اٹھارہ سے بیس فیصد ہوتا ہے جبکہ مذکورہ کمپنی کو چوالیس فیصد تک کا منافع دیا گیا ۔ اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ اسی کمپنی کے ایک ملازم عمران الحق کو پاکستان سٹیٹ آئل کا ایم ڈی لگادیا گیا اور ماہنامہ تنخواہ اسی لاکھ روپے تک رکھی گئی۔ اس پر سپریم کورٹ نے بھی سوئو موٹو لیا تھا‘ جس پر انہیں ہٹایا گیا۔ 
یہ صرف ایک ڈیل کی کہانی ہے‘ جو شاہد خاقان عباسی نے کی تھی۔ پاکستان کا پیسہ ہو تو روزانہ دو لاکھ بہتر ہزار ڈالر ایک پارٹی کو دے دیا جاتا ہے ‘پندرہ برس تک ‘چاہے ان کا ٹرمینل استعمال ہو یا نہ ہو‘ لیکن اگر گھر پر برتھ پارٹی ہو اور جیب سے بل دینا ہو تو یہ سادہ وزیراعظم صرف ڈیڑھ سو روپے کا کیک منگواکر کاٹتا ہے اور ان کے حامی طبلچی انہیں ٹویٹ کر کے فخر سے کریڈٹ لیتے ہیں کہ دیکھیں ہمارا سادہ وزیراعظم ۔ 
یہ ہے ذاتی اور پاکستانی لوگوں کے روپوں کا فرق ۔ یہ ہے وہ کرپشن کنٹریکٹ جس کا دفاع ہمارے چند صحافی اور دانشور کرتے رہے ہیں اور ان کی کرپٹ جمہوریت روزانہ خطرے میں پڑتی ہے۔
جمہوریت کرپشن سے کمزور ہوتی ہے نہ کہ کرپٹ کوسزا دینے سے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں