وی پی مینن کے کہے ہوئے وہ الفاظ کہ اصل ڈرائونا خواب تو اب شروع ہو رہا ہے‘ اس کی بیٹی کو سنائی نہ دیئے۔ سنائی دے جاتے تو بھی چھوٹی بچی شاید ان کا مطلب نہ سمجھ سکتی کہ اس کا باپ‘ جس نے تین جون کو لارڈ مائونٹ بیٹن کا ہندوستان کی تقسیم کا پلان ڈرافٹ لکھا تھا‘ مستقبل کے کن خوابوں، خیالوں اور اندیشوں میں کھویا ہوا ہے۔
دوسری طرف سری نگر میں کشمیر کا مہاراجہ ہری سنگھ وی پی مینن کے ان خدشات سے دور اپنے محل کے رنگے اور سجے دربار ہال میں موجود تھا۔ یہ موقع ہندوئوں کے اس سالانہ تہوار کا تھا جو اکتوبر کے چاند کے ساتھ ہی ان کی دیوی درگا کی نو دن کی جدوجہد کی یاد میں منایا جاتا تھا۔ درگا دیوی ہندوئوں کے لارڈ شیوا کی بیوی تھیں۔ ہری سنگھ کے آبائواجداد کی بھی یہ روایت تھی کہ وہ چوبیس اکتوبر کی شام ریاست کے تمام شرفا سے وفاداری کا حلف لیتے تھے۔ ایک ایک کرکے سب شرفا مہاراجہ کے تخت کی طرف بڑھتے اور شاہی ہاتھ میں ایک رومال میں بند سونے کا ٹکڑا رکھ دیتے تھے۔
مہاراجہ بہت خوش قسمت تھا کہ ہندوستان کی تین میں سے ایک ریاست اس کے پاس تھی جن کی بہت اہمیت تھی۔ باقی دو حیدرآباد اور جوناگڑھ کی ریاستیں تھیں۔ کشمیر بہت بڑی ریاست تھی اور اس کا رقبہ بہت وسیع تھا۔ جونا گڑھ ریاست اگرچہ ہندوستان کے وسط میں واقع تھی اور اس کی اکثریتی آبادی بھی ہندو تھی لیکن راجہ ہر قیمت پر پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتا تھا اور ہندوستان کی نئی حکومت کسی قیمت پر راجہ جوناگڑھ کو یہ کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہ تھی۔
دوسری طرف اپنے پرانے دوست لارڈ مائونٹ بیٹن کے سری نگر میں دیے گئے مشورے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر مہاراجہ ہری سنگھ اب یہ پلان بنائے بیٹھا تھا کہ جو ریاست اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے ایک کروڑ روپے (پچھتر لاکھ نقد اور پچیس لاکھ کے کچھ دفاعی لحاظ سے اہم کشمیری علاقے) ادا کرکے خریدی تھی، اسے اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے ساتھ الحاق نہیں کرے گا۔
جب راجہ اپنی ریاست کے اہم شرفا سے وفاداری کا حلف لینے میں مصروف تھا، اسی وقت سری نگر سے پچاس کلومیٹر مشرق میں ایک مسلح گروہ دریائے جہلم کے کنارے پر واقع ایک دفتر کے اندر گھس رہا تھا جو مشینوں سے بھرا ہوا تھا۔ ان میں سے ایک مسلح آدمی نے ایک کمرے کے اندر ڈائنامائٹ فٹ کیا اور اسے کچھ فاصلے سے آگ کی تیلی دکھا کر باہر بھاگ گیا اور چیخ کر دوسروں کو بھی خبردار کیا کہ وہ بھی دور بھاگ جائیں۔ چند سکینڈز کے بعد مہورا پاور سٹیشن کی عمارت زوردار دھماکے سے اڑ گئی۔ اس عمارت کے اڑنے کے ساتھ ہی پاکستانی سرحد سے لے کر لداخ اور چین کے پہاڑی علاقوں تک بجلی مکمل طور پر غائب ہوگئی۔ ہری سنگھ کے دربار ہال میں لگے سینکڑوں بلب بھی بجھ گئے۔ ہری سنگھ کا محل اندھیرے میں ڈوب گیا تھا۔ پورے سری نگر میں بجلی غائب ہوگئی۔ اس اچانک بجلی چلے جانے کا سب نے اثر لیا اور سب سے زیادہ وہاں موجود گورے سپاہیوں اور ریٹائرڈ افسران نے محسوس کیا جو ہندوستان چھوڑنے سے پہلے گرمیوں کے موسم میں چھٹیاں منانے کے لیے وہاں پہاڑی علاقوں میں موجود تھے۔ بجلی کے بلب بجھنا ان گوروں کے لیے ایک طرح کا شگون تھا کہ اب ان کے ہندوستان سے جانے کا وقت آ گیا ہے۔
چوبیس اکتوبر 1947 کی رات سینکڑوں قبائلی پٹھان ہری سنگھ کی ریاست میں داخل ہو رہے تھے تاکہ اس کے اس خواب کا توڑ کر سکیں کہ وہ مسلمانوں کی اکثریتی آبادی والی ریاست کو ایک آزاد ملک بنا کر اس کا حکمران بن کر رہے گا۔ مہاراجہ کی اپنی آرمی پہلے ہی اسے چھوڑ کر جا چکی تھی۔ بہت سارے فوجی آرمی سے بھاگ کر پہاڑیوں میں پناہ لیے بیٹھے تھے جبکہ مسلمان فوجی اہلکاروں نے ان پٹھانوں کو جوائن کر لیا تھا جو سری نگر کی طرف جارہے تھے۔ سوال یہ تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں پٹھان قبائلی علاقوں سے مسلح ہو کر کشمیر کیسے پہنچ گئے تھے‘ جس کا پتا مہاراجہ تک کو نہیں چلا تھا اور پھر انہیں وہاں بھیجنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی تھی؟
اس سارے قصے کے تانے بانے دو ماہ پہلے ہونے والے ایک واقعے سے ملتے تھے جب قائد اعظم نے چوبیس اگست کو اپنے گورے ملٹری سیکرٹری کرنل ولیم کو بلا کر کہا کہ وہ کچھ دن آرام کرنے کشمیر جانا چاہتے ہیں۔ ایک طرف بگڑتی صحت‘ دوسری طرف ہندوستان کی تقسیم اور اوپر سے دن رات مذاکرات کے دبائو نے انہیں مزید کمزور کر دیا تھا۔ قائد اعظم اب کچھ آرام کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے کشمیر کو پسند کیا تھا۔ قائد اعظم نے اپنے ملٹری سیکرٹری کو کہا کہ وہ ستمبر کے دوسرے ہفتے میں ان کی کشمیر میں رہائش کا بندوبست کرے۔ قائداعظم کا کشمیر میں دو ہفتے آرام کرنے کا فیصلہ بالکل فطری تھا۔ قائد کے علاوہ پاکستان کی تمام آبادی بھی یہ نہیں سوچ سکتی تھی کہ ریاست کشمیر‘ جس کی اکثریتی آبادی مسلمان تھی‘ پاکستان کے علاوہ کوئی اور آپشن بھی لے سکتی تھی لہٰذا سب یہی سمجھے بیٹھے تھے کشمیر تو پاکستان کا ہے۔ اس لیے قائد اعظم نے اس سوچ کے ساتھ اپنے ملٹری سیکرٹری کو کشمیر بھیجا تھا کہ وہ جا کر ان کے لیے دو ہفتے کا بندوبست کرکے آئے۔
پانچ دن بعد قائد اعظم کا گورا ملٹری سیکرٹری واپس لوٹا اور اس نے جو بات بتائی اسے سن کر قائداعظم کو شدید جھٹکا لگا۔ سیکرٹری نے بتایا کہ ان کے قیام کے انتظامات تو ایک طرف، مہاراجہ ہری سنگھ تو انہیں وہاں ایک سیاح کے طور پر بھی قدم رکھنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں تھا۔
قائد اعظم کو پہلی دفعہ احساس ہوا کہ حالات تو بالکل کسی اور سمت جا رہے ہیں۔ ان کے کشمیر کے بارے میں تمام خیالات اور اندازے غلط نکلے تھے۔ یہ توکہانی ہی کچھ اور نکلی تھی۔ اب سوال یہ تھا کہ کیا کیا جائے؟ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا جائے یا پھر کچھ اور پلان کیا جائے۔ قائداعظم کو یوں لگا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوگیا ہے۔
اگلے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر حکومت پاکستان نے ایک خفیہ ایجنٹ کشمیر بھیجا تاکہ وہ ساری صورتحال کی رپورٹ حاصل کرکے واپس آئے اور اس کی روشنی میں مستقبل کی حکمت عملی بنائی جا سکے۔ جو بندہ اس کام کے لیے سری نگر بھیجا گیا تھا جب وہ رپورٹ واپس لے کر آیا تو سب کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ ہری سنگھ کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا دور دور تک ارادہ نہیں تھا۔ یہ خفیہ اطلاع قائداعظم کے لیے ایک بم شیل سے کم نہ تھی کہ کشمیر ان کے ہاتھ سے نکل رہا تھا۔
یوں ستمبر کے وسط میں لیاقت علی خان نے ایک خفیہ اجلاس لاہور میں بلایا جس میں صرف چند اہم لوگ شریک تھے۔ اس خفیہ اجلاس میں طے کیا جانا تھا کہ مہاراجہ کو اس کے آزاد ریاست کے فیصلے سے کیسے روکا جائے کیونکہ کشمیر پر پاکستان کا حق بنتا تھا۔ پہلی تجویز یہ دی گئی کہ پاکستانی فوج کشمیر پر حملہ کر دے اور اس پر اپنا قبضہ جما لے؛ تاہم اس تجویز کو رد کر دیا گیا کہ موجودہ حالات میں یہ ممکن نہیں تھا۔ اس کے بعد دو اور تجاویز پیش کی گئیں۔ ایک تجویز کرنل اکبر خان نے دی۔ وہ Sandhurst کالج کے گریجویٹ تھے۔ کرنل صاحب کا خیال تھا کہ بہتر ہے ہم کشمیر میں مسلمان آبادی کو پیسہ، اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کریں اور مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف بغاوت کو جنم دیا جائے۔ کرنل کا کہنا تھا کہ اس پورے معاملے کو چند ماہ لگیں گے لیکن اس کے نتائج پاکستان کے حق میں ہی نکلیں گے۔ سری نگر میں جب ہزاروں مسلح کشمیری اتریں گے تو راجہ کو وہاں سے بھاگنا ہی پڑے گا یا پھر وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرے گا۔ لیکن اس آپشن کو بھی اجلاس کے شرکا نے مسترد کر دیا کہ اس میں بہت وقت درکار تھا اور خطرات بھی بہت تھے۔ پاکستان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔
اس پر ایک عہدے دار نے کہا: حکومت پاکستان بھی اپنی فوج نہیں بھیج سکتی، ہم کشمیریوں کو بھی پیسہ، اسلحہ اور گولہ بارود دے کر سری نگر پر لانچ نہیں کرسکتے تو پھر ایک ہی آپشن رہ جاتاہے۔ سب شرکا کی آنکھیں اس کی طرف اٹھ گئیں ۔ جب وہ پلان اس خفیہ اجلاس میں شیئر کیا گیا تو اسے سن کر وزیراعظم لیاقت علی خان سمیت سب شرکا اچھل پڑے۔ جو منصوبہ بنایا گیا تھا اس پر ایک ہی بندہ عمل کرا سکتا تھا۔ اس کا نام خورشید خان تھا۔
لیکن یہ گمنام انسان خورشید خان تھا کون جو پاکستان کے لیے اچانک بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا؟ (جاری)