ہر گزرتے دن کے ساتھ نہرو کا کشمیر پر رویہ سخت ہوتا جارہا تھا ۔ جب بھارت کے ساتھ کشمیر کا الحاق کر لیا گیا تو نہرو یہ سوچ چکا تھا کہ اب کشمیر ہندوستان سے نہیں جائے گا؛چنانچہ نہرو کی کشمیر میں استصواب رائے میں دلچسپی کم ہوتی جارہی تھی۔ لیڈی ماؤنٹ بیٹن کے دوست رچرڈ سائمنڈ اور الیگزینڈر‘جو ریلیف ورکرز تھے‘ نے کشمیر کا دورہ کیا اور واپسی پر رپورٹ وزیراعظم نہرو کو بھیجی۔سائمنڈ نے لکھا کہ پونچھ کے لوگوں نے مہاراجہ کی فوج کے خلاف بغاوت کر دی تھی اور بظاہر یہ بغاوت پاکستان سے قبائلی لشکر جانے سے پہلے ہوئی تھی۔ نہرو یہ رپورٹ پڑھ کر غصے میں آگیا کہ اگر ریکارڈ پر یہ بات آگئی کہ پونچھ کے علاقوں میں مقامی آبادی نے مہاراجہ کے خلاف بغاوت کی تھی تو اس سے پاکستان کا موقف مضبوط ہوگا کہ قبائلی لشکر کے ارکان نے اپنے کشمیری مسلمان بھائیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف مدد کی اپیل کے جواب میں وہاں چڑھائی کی تھی۔ سائمنڈ نے اپنی رپورٹ میں وہ تجاویز بھی پیش کی تھیں جو انہیں وزیراعظم لیاقت علی خان نے دی تھیں کہ تمام نان کشمیری فوجی دستے واپس بلا کر وقتی طور پر اقوام متحدہ کے فوجی دستے تعینات کر دیے جائیں‘ جب تک کہ وہاں استصواب رائے نہیں ہوجاتا۔ یہ تجویز پڑھ کر نہرو کا پارہ پھر چڑھ گیا اور اس نے اپنے سامنے پڑی میز پر مکا مار کر کہا :ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
نہرو کے اس رویے پر اب تنقید ہونا شروع ہو چکی تھی۔ برطانوی ہائی کمشنر جو کراچی میں تعینات تھے‘ کی طرف سے رپورٹ آئی‘ اس نے لکھا کہ ہم دو انتہائوں کے درمیان پھنس گئے ہیں۔ ایک طرف انصاف کی بات ہے تو دوسری طرف ایک ایسے بندے کو مطمئن اور خوش کرنا مقصود ہے جو خود کشمیری پنڈت ہے‘ لیکن وہ حقائق سے آنکھیں چرائے بیٹھا ہے۔ ماؤنٹ بیٹن کوشش کررہا تھا کہ کسی طرح نہرو اور لیاقت علی خان کے درمیان ملاقات کرائی جائے‘ کیونکہ اس میٹنگ سے پہلے لیاقت علی خان نے ایک ٹیلی گرام نہرو کو بھیجا‘ جسے پڑھ کر پھر نہرو کا پارہ چڑھ گیا تھا۔ اس ٹیلی گرام میں لیاقت علی خان نے شیخ عبداللہ کو غدار قرار دیا تھا۔ لیاقت علی خان نے کہا: بھارتی حکومت ریاست کی ساری مسلم آبادی کی نسل کشی کررہی ہے۔ ماؤنٹ بیٹن نے اس ماحول میں‘ جب نہرو اور لیاقت کے درمیان سخت باتوں اور ٹیلی گرام کا تبادلہ ہورہا تھا‘ ملاقات کا بندوبست کیا تاکہ وہ آمنے سامنے بیٹھ کر بات کریں۔ یہ نہرو اور لیاقت کی کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے بعد پہلی ملاقات تھی۔ دونوں وزیراعظم خاصی دیر تک اپنے اپنے نقطہ نظر سے بات کرتے رہے۔ پہلے نہرو تو بعد میں لیاقت علی خان نے پاکستان کی پوزیشن سے آگاہ کیا ۔ لیاقت علی خان اگرچہ تھکے ہوئے تھے‘ پھر بھی انہوں نے اچھے نکات اٹھائے اور ایسی تجاویز پیش کیں جن پر نہرو نے وعدہ کیا کہ وہ ان پر غور کرے گا۔ اس اجلاس میں لیاقت علی خان کی مدد کے لیے چودھری محمد علی اور ہندوستان کی طرف سے وی پی مینن اور Ismay موجود تھے۔ ان تینوں نے ان تجاویز کو ایک ڈرافٹ کی شکل دی اور یہ طے ہوا کہ اگلے دو روز میں پھر انہی نکات کی بنیاد پر بات چیت آگے بڑھے گی۔ تجاویز کے مطابق: پاکستان اس قبائلی لشکر پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا کہ وہ لڑائی بند کریں اور کشمیر سے لوٹ جائیں۔ہندوستان بھی اپنی تمام فوجیں واپس بلا لے اور صرف اتنی تعداد میں فوجی وہاں رہنے چاہئیں جو لا اینڈ آرڈر کے لیے ضروری ہوں۔ دوسری تجویز یہ تھی کہ اقوام متحدہ کو کہا جائے کہ وہ کمیشن کشمیر بھیجے جو کشمیر میں استصواب رائے کرائے۔ اس ملاقات کے بعد ماؤنٹ بیٹن کو پھر ڈیفنس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرنا پڑی۔ سردار پٹیل اور بلدیو سنگھ کشمیر کے فرنٹ سے لوٹے تھے اور وہ خبریں لائے تھے جو نہرو کو پہلے بھی ذرائع سے مل رہی تھیں‘ جس سے کابینہ ارکان کے موقف میں مزید سختی پیدا ہوگئی۔ اجلاس میں استصوابِ رائے کے خلاف رائے بننا شروع ہوگئی تھی۔ کابینہ کے ارکان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے بھی خلاف ہوگئے۔ سردار پٹیل نے تین باتیں بتائیں: پہلی، پاکستان نے بڑی تعداد میں قبائلی لشکر بھیجا ہوا تھا۔ دوسر‘ا لیاقت علی خان نے دہلی سے واپس پاکستان جا کر مزید قبائلی لشکر بھیج دیے تھے اور تیسری بات یہ تھی کہ وادی میں لشکر کے جنگجو غیر مسلم کشمیریوں پر ظلم اور کشمیری لڑکیوں کو فروخت کررہے تھے۔ ماؤنٹ بیٹن اجلاس سے نکلا تو اس نے خفیہ پیغام لیاقت علی خان کو بھیجا کہ وہ فوری طور پر نہرو کو ٹیلی گرام کریں ‘کیونکہ صورتحال بگڑ رہی ہے۔ لیاقت علی خان نے فوراً نہرو کو ٹیلی گرام بھیجا کہ دونوں حکومتوں کو چاہیے کہ جنگ بند کریں اور مذاکرات جاری رکھیں۔ نہرو نے فوراً جواب دیا اور ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ وہ لاہور چلا گیا تاکہ ڈیفنس کونسل کے اجلاس میں شرکت کرسکے۔
کشمیر پر گفتگو اتنی طویل ہوگئی تھی کہ ماسوائے ڈنر بریک کے یہ اجلاس دوپہر سے لے کر رات گئے تک جاری رہا۔ سات گھنٹے تک یہ اجلاس چلا۔ اگرچہ یہ ملاقات دوستانہ ماحول میں جاری رہی لیکن اس ملاقات سے ماؤنٹ بیٹن قائل ہو گیا کہ یہ دونوں ملک کبھی بھی خود بیٹھ کر اس مسئلے کو حل نہیں کرسکیں گے۔ماؤنٹ بیٹن کو جناح صاحب سے لاہور میں ساڑھے تین گھنٹے طویل ملاقات یاد آئی جس سے ماؤنٹ بیٹن مطمئن ہوکر دہلی لوٹا تھا ۔ دونوں نے لیاقت علی خان اور نہرو کی عدم موجودگی میں زیادہ کھل کر بات کی۔ جناح صاحب نے ماؤنٹ بیٹن کو شکایت کی تھی کہ ہندوستان نے بغیر بتائے کشمیر میں فوجیں اتار دی ہیں۔ ماؤنٹ بیٹن نے جواب دیا: نہرو نے جس اجلاس میں فوجیں بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا اس سے نکل کر لیاقت علی خان کو ٹیلی گرام کر دیا تھا۔ اس پر جناح صاحب نے ماؤنٹ بیٹن کو بھی یاد دلایا کہ ہندوستان کے ساتھ کشمیر کا الحاق قانونی اور اخلاقی طور پرجائر نہیں کیونکہ اس کی بنیاد خون خرابے اور فراڈ پر رکھی گئی تھی۔ ماؤنٹ بیٹن کا کہنا تھا کہ زبردستی الحاق ہوا ہے تو اس کے ذمہ دار قبائلی ہیں‘ جنہوں نے وہاں تشدد شروع کر دیا تھا‘ جس کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ قائد نے جواب دیا: غلط بات ۔ تشدد اور خون خرابے کی شروعات تو ہندوستان نے اپنی فوجیں وہاں بھیج کر کی تھی ‘لیکن ماؤنٹ بیٹن پھر اپنی بات پر زور دیتا رہا کہ اصل فساد قبائلیوں کے وہاں جانے سے شروع ہوا۔ اس پر جناح صاحب کو ماؤنٹ بیٹن پر غصہ آیا اور وہ بولے ''یہ تمہاری ناسمجھی اور بے عقلی ہے اور کچھ نہیں‘‘۔
ماؤنٹ بیٹن نے جناح صاحب کو بتایا کہ اب کشمیر میں ہندوستانی افواج اپنا کنٹرول جما چکی ہیں۔ قبائلی لشکر اب سری نگر فتح نہیں کرسکے گا ‘ اس پر جناح صاحب نے کہا: بہتر ہے دونوں ملک ایک ساتھ فوجیں واپس بلا لیں۔ ماؤنٹ بیٹن نے استصواب رائے کا معاملہ جناح کے ساتھ اٹھایا تو جناح صاحب کی شرط تھی کہ یہ اس وقت ممکن ہوسکتا ہے جب کشمیر میں ہندوستانی فوجیں اور شیخ عبداللہ نہ ہوں‘ ورنہ عام کشمیری پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالتے وقت ڈرے گا۔ ماؤنٹ بیٹن نے اقوام متحدہ کے زیر اثر استصواب رائے کرانے کی تجویز دی تو قائد نے جواب دیا :یہ کام تو دونوں ملکوں کے گورنر جنرل خود کرسکتے ہیں‘ جس پر ماؤنٹ بیٹن نے کہا: ہوسکتا ہے پاکستان کا گورنر جنرل اتنا طاقتور ہو‘ لیکن وہ خود قانونی اور آئینی طور پر ہندوستان کی حکومت کے مشورے کا پابند ہے ‘لہٰذا یہ ممکن نہیں ہوگا۔ جناح صاحب ماؤنٹ بیٹن کو بتاتے رہے کہ بھارت کا مقصد تھا کہ پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے؛ تاہم ماؤنٹ بیٹن نے اس کی نفی کی۔
ماؤنٹ بیٹن کا اصرار تھا کہ اس کے پاس اب وائسرائے ہند کی پاورز نہیں ہیں‘ وہ محض ایک آئینی گورنر جنرل تھا جبکہ جناح صاحب کا یہ شک یقین میں بدل رہا تھا کہ اس نے مہاراجہ سے الحاق کی دستاویزات لکھوانے اور فوجیں کشمیر بھجوانے میں کردار ادا کیا تھا ‘اور اسی نے پاکستان کے مفادات کا نقصان کیا تھا ۔ اگرچہ ماؤنٹ بیٹن ان تمام باتوں سے انکاری تھا کیونکہ اس کے خیال میں تین جون کو ہندوستان کو تقسیم کرنے کے پلان کے اعلان کے بعد وہ دونوں ریاستوں میں اچھے تعلقات کے لیے اپنی کوششیں کررہا تھا ۔ماؤنٹ بیٹن کے سٹاف کا خیال تھا کہ جناح یہ بات نہیں سمجھ پارہے تھے کہ اگر ماؤنٹ بیٹن اس معاملے پر پوری طرح ناکام ہوجاتا تو اس کے کیرئیر پر داغ لگ جاتا۔مائونٹ بیٹن کی قائداعظم سے ملاقات اور نہرو لیاقت اجلاس کے باوجود مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل رہا تھا ۔ مائونٹ بیٹن سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ وہ اب کیا کرے ۔ وہ کیسے اس سنگین مسئلے سے نکلے‘ جس نے ہندوستان اور پاکستان کو جنگ میں دھکیل دیا تھا ۔ (جاری)