ہمارے اردگرد بہت کچھ ہو رہا ہے اور ہونے والا ہے۔ چوراسی سالہ اسٹرالوجر پروفیسر غنی جاوید کی پریشانی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ ہمارے دوست طارق پیرزادہ کا فون تھا کہ آئیں کسی کیفے میں بیٹھ کر کافی پیتے ہیں اور پروفیسر غنی جاوید کو بھی بلا لیتے ہیں۔ میں نے کہا: کیوں مزید 'تراہ‘ نکلوانا ہے۔ دو سال پہلے انہوں نے مجھے طارق پیرزادہ‘ طارق چوہدری‘ میاں خالد اور مشاق بھائی کی موجودگی میں کہا تھا: تم کالم لکھو کہ اس خطے میں تباہی بربادی آ رہی ہے‘ جنگ آرہی ہے‘ ہمیں اس سے بچنا ہوگا۔ میں نے کہا: پروفیسر صاحب کیوں ہمیں ڈراتے ہیں‘ لوگ میرا مذاق اُڑائیں گے کہ دیکھو اچھا خاصا بندہ کس کام پر لگ گیا ہے۔ وہ بولے: تم لکھو‘ چاہے تمہارا مذاق بھی کیوں نہ اڑایا جائے۔ دو سال پہلے میں نے کالم لکھا‘ پروفیسر صاحب پریشان ہیں کہ اس خطے میں جنگ آئے گی اور اپنے ساتھ بربادی اور تباہی لائے گی۔ کچھ دنوں بعد ملے اور بولے: پھر لکھو‘ کچھ سمجھائو‘ لوگوں کو بتائو کہ ہمیں احتیاط اور سمجھ سے چلنا ہوگا‘حالات ہمارے خلاف جا رہے ہیں۔ مجھے بھی پڑھنے کی حد تک اسٹرالوجی میں دلچسپی ہے‘ پھر ان کی کئی باتیں سچی ثابت ہو چکی ہیں‘ کم از کم میری حد تک‘ لہٰذا فطری طور پر ان کی باتیں توجہ سے سنتا ہوں۔ ان کی پیش گوئیاں اتنی خطرناک ہیں کہ لکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ وہ کہنے لگے: اب کی دفعہ وہی صورتحال بن رہی ہے جو تقسیم کے وقت تھی یا پھر انیس سو اکہتر میں ہوا تھا۔ خون خرابہ اور جنگ و جدل نظر آرہی ہے۔ میرے کچھ دوست حج اور عمرے پر جارہے تھے‘ تو ان سب کو کہتا ہوں کہ پاکستان کی سلامتی اور امن کیلئے دعا مانگا کریں۔
خیر میں اس وقت حیران ہوتا تھا‘ ایسی کون سی صورتحال بنے گی کہ اچانک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑ جائے گی اور تباہی ہوسکتی ہے؟ پروفیسر غنی کے کہنے پر کالم لکھا‘ اپنا مذاق بنوایا‘ لیکن وہ یہی بات کہتے رہے کہ تم لکھتے رہا کرو۔ میں نے کہا: سر جی کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ‘ نقارخانے میں اس طوطی کی آواز بھلا کس نے سننی ہے؟ سنجیدہ ہوکر بولے: یاد ہے جب نمرود آگ کا الائو بھڑکا رہا تھا اور ایک چڑیا اپنی چونچ میں پانی بھر کر آگ پر پھینک رہی تھی‘ تو کسی نے مذاق اڑایا تھا؟ اس چڑیا نے کہا تھا: مجھے علم ہے کہ میری چونچ سے یہ آگ نہیں بجھے گی لیکن کم از کم میں مطمئن ہوں گی کہ جو میرے بس میں تھا‘ میں نے کرنے کی پوری کوشش کی۔ وہ بولے: تم بھی یہ سمجھا کرو‘ جو تمہاری اوقات میں ہے وہی کیا کرو اور تم وہی کر سکتے ہو۔ ایک دفعہ عامر متین نے بڑی اچھی بات کی۔ کسی دوست کے مسئلے پر میں پریشان تھا۔ مدد کرکے دیکھ لی‘ اس کا بھلا نہ ہوا۔ مجھے افسردہ دیکھ کر بولے: اپنی طرف سے پوری کوشش کر لیا کریں لیکن کہیں محسوس کرو کہ اس کے باوجود کچھ نہیں بن پڑا تو پھر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا کرو۔
پھر جب امسال اچانک پلوامہ میں حملہ ہوا اور پاک بھارت جنگی طیاروں نے ایک دوسرے پر حملے کیے تو مجھے اچانک یاد آیا کہ پروفیسر غنی جاوید نے کیا کہا تھا۔ اللہ کا شکر کہ بات جہازوں تک محدود رہی اور جنگ ٹل گئی۔ میرا خیال ہے‘ شاید یہی وہ پیشگوئی تھی جو بغیر بڑا نقصان کیے ٹل گئی‘ لیکن پروفیسر غنی مطمئن نہ تھے‘ کہنے لگے: نہیں‘ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات بگڑتے جائیں گے اور خوفناک کشیدگی کی شکل میں اچانک کوئی ایسی چیز ہو سکتی ہے کہ معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ اور پھر وہی ہوا جب مودی نے اچانک مقبوضہ کشمیر میں ستر‘ اسی لاکھ لوگوں کو گھروں میں گن پوائنٹ پر قید کر دیا اور کشمیر کا خصوصی سٹیٹس ختم کر دیا۔ اس پر جو ردعمل سامنے آیا اس نے پھر غنی جاوید کی یاد دلا دی۔ میرا خیال تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اس دفعہ بڑے خلوص کے ساتھ بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔ اس دفعہ فوجی قیادت بھی عمران خان کے ساتھ کھڑی تھی کہ بھارت کے ساتھ تعلقات درست کیے جائیں‘ بلکہ مجھے یاد ہے جب عمران خان وزیر اعظم بننے کے بعد ٹی وی اینکرز سے ملے تھے تو میں نے ان سے یہ سوال کیا تھا کہ پاکستان میں ہر سیاسی وزیراعظم کو اقتدار ملتے ہی چند ماہ بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ جب تک بھارت کے ساتھ معاملات نارمل نہیں ہوں گے سیاسی اور ترقیاتی ایجنڈے پر عمل کرنا مشکل ہوگا؛ چنانچہ وہ بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے لوگوں سے جو وعدے کیے ہوتے ہیں وہ اسی وقت پورے ہوں گے جب ملک میں امن ہوگا اور سرحدوں پر بندوقیں خاموش ہوں گی۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے بھی دل سے یہ کوششیں کیں‘ لیکن انہیں سکیورٹی رسک قرار دے دیا گیا۔ تو کیا جب وہ بھی بھارت کے ساتھ تعلقات درست کرنے کی بات کرتے ہیں تو فوجی قیادت ان کے ساتھ ایک پیج پر ہے یا وہ بھی بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی طرح ایک دن سکیورٹی رسک قرار دیے جائیں گے؟ وزیراعظم نے تحمل سے میرا سوال سنا اور جواب دیا کہ کچھ دن پہلے ہی جی ایچ کیو میں مجھے اہم معاملات پر بریفنگ دی گئی‘ بھارت پر بھی بات ہوئی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ اور دیگر فوجی قیادت نے اپنے پورے تعاون کا یقین دلایا کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے جو بھی کوششیں کریں گے فوج پورا ساتھ دے گی۔ عمران خان نے کہا کہ وہ بھارت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ وہ معاملات کو سیٹل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان اس وقت جس صورتحال میں ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم خود کو ایک نارمل اور جدید ریاست کے طور پر سامنے لائیں‘ جہاں سرمایہ کاری ہو اور خطے میں امن ہو‘ ہمیں ماضی کے بوجھ سے نکلنا ہو گا۔
میں نے اپنے ٹی وی پروگرامز میں بھی یہی بات بار بار دُہرائی کہ اس وقت پاکستان میں پہلی دفعہ سیاسی اور فوجی قیادت بھارت کے ساتھ دل سے بہتر تعلقات چاہتی ہے۔ میں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس دفعہ بھارت نے پاکستانی سیاسی قیادت کی پیشکش کا جواب نہ دیا تو وہی غلطی کرے گا جو پاکستان نے 1999 میں کی تھی جب واجپائی لاہور آئے تھے اور ہم نے کارگل کر دیا تھا یا پھر جب جنرل مشرف آگرہ گئے اور مذاکرات کا فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔ وہ ہماری غلطیاں تھیں‘ لیکن اس دفعہ بھارت غلطی کرے گا‘ کیونکہ پہلی دفعہ پاکستانی فوج اور سیاستدان دل سے چاہتے ہیں کہ ماضی کے بوجھ گرا کر آگے بڑھیں اور خود کو معاشی طور پر مضبوط کریں۔ ایسا بھارت کے ساتھ معاملات درست ہونے تک نہیں ہو سکے گا۔
لیکن کیا کریں‘ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کئی چیزیں مشترک ہیں۔ جیسے ہم نے دو اہم مواقع پر غلطیاں کیں اور نقصان اٹھایا‘ اب وہی غلطیاں بھارت کررہا ہے۔ بھارت ہماری غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے انہیں دہرانے پر تل گیا ہے۔ بہت سے بھارتی بھی مانتے ہیں کہ مودی نے بیٹھے بٹھائے پورے خطے کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اگر ستر سالوں سے کشمیر پر 'سٹیٹس کو‘ چل رہا تھا تو چلنے دیتے اور کبھی کوئی موقع ملتا تو دنوں مل بیٹھتے اور حل نکال لیتے۔ اچانک ایک ایسا قدم اٹھایا گیا جس کی ہرگز ضرورت نہ تھی‘ جس نے کشمیریوں کو بھی شدید تکلیف سے دوچار کیا ہے اور خطے میں جنگ کے بادل بھی منڈلانے لگے ہیں۔ بلاشبہ وزیراعظم عمران خان نے بہت اعلیٰ تقریر کی اور کشمیر کا مسئلہ پہلی دفعہ دنیا کے سامنے اس طرح پیش کیا ہے کہ مخالفین بھی داد دینے پر مجبور ہوگئے ہیں‘ لیکن لگتا ہے معاملات سدھرنے کی بجائے بگڑ سکتے ہیں۔ وزیراعظم مودی میں وہ صلاحیت اور وہ وژن نہیں ہے جو وزیراعظم واجپائی میں تھا۔
عمران خان درست کہہ رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی پاکستان اور ہندوستان کو جنگ میں دھکیل سکتا ہے کیونکہ ایک ایسا ہی واقعہ جنگ عظیم اوّل کی بنیاد بنا تھا‘ جب ویانا کے ایک ڈیوک کو اس کی بیگم کے ساتھ سربیا میں کسی نے گولی ماردی تھی۔ ایک سیاسی قتل کی وجہ سے جنگ عظیم اول شروع ہوئی جس میں لاکھوں مارے گئے‘ لاکھوں دربدر ہوئے اور اسی قتل پر بس نہ ہوئی بلکہ جنگ عظیم دوم ہوئی‘ جس میں پھر تباہی ہوئی اور اب یورپ میں ستر سال سے آرام ہے۔ تو کیا ہندوستان پاکستان کی آج کی اداس نسلوں‘ جو ایک دوسرے کو معاف کرنے پر تیار نہیں‘ کو اس خطے میں مستقل امن کے لیے ایک بڑی جنگ چاہیے تاکہ ہم رہیں نہ رہیں لیکن شاید ہماری آنے والی نسلیں یورپی قوموں کی طرح سکون سے رہ سکیں۔