پُرانی کتابوں سے ایک کتاب ہاتھ لگی ہے جو محترمہ فاطمہ جناح کی جنرل ایوب کے خلاف صدارتی الیکشن کے وقت کی گئی تقریروں پر مشتمل ہے۔ سوچا فوراً پڑھی جائے‘ کہ معلوم ہو اُس دور میں حکمران‘ بیوروکریسی کیسی تھی‘اپوزیشن کیا رول ادا کررہی تھی اور دیگر ایشوز کیا تھے۔
ملتان میں دسمبر 1964ء میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح نے کہا :میں سولہ سال سے گوشہ نشین تھی۔ مجھے عوام کی بھلائی کی توقع تھی‘ لیکن جنرل ایوب کے چھ سالوں میں گھناؤنے کھیل کھیلے گئے۔ سیاسی جماعتوں کو توڑا اور ختم کر دیا گیا ۔ سیاسی پارٹیوں کے لوگ میرے پاس آئے اور کہا، قوم چاہتی ہے میں عملی میدان میں آئوں۔ میں خود کو تکلیف میں ڈال کر بھی مسلسل سفر کررہی ہوں۔ اگر ایوب خان اصول پسند ہوتے تو وہ مستعفی ہوجاتے۔ ہم نے پاکستان فردِ واحد یا ایک خاص ٹولے کے لیے حاصل نہیں کیا تھا۔ یہ ملک عوام کے لیے حاصل کیا تھا۔ ایوب خان نے قائداعظم کی مسلم لیگ توڑ کر دو حصوں میں بانٹ کر اپنی پارٹی کا نام کنونشن مسلم لیگ رکھ لیا اور خود اس کے صدر بن بیٹھے اور صدرمملکت بھی۔ اب وہ میرے بارے کہتے ہیں کہ مجھے اپوزیشن نے آلہ کار بنایا ہے۔ میں کوئی بچہ نہیں ہوں۔ میں نے زمانہ دیکھا ہے۔ میں دنیا کی سیاست جانتی ہوں۔ کون ہے جو مجھے آلہ کار بنا سکے۔ مجھے خریدا یا بہکایا نہیں جاسکتا۔ میں کسی لالچ کے لیے میدان میں نہیں آئی۔ قائداعظم کو بھارت میں کیا کچھ نہیں مل سکتا تھا‘ لیکن انہوں نے اصولوں کی خاطر اور قوم کے مفاد کے پیش نظر تمام پیش کشوں کو حقارت سے ٹھکرا دیا۔ میں نے بھی قائداعظم کے زیرسایہ تربیت پائی ہے۔ میرا بھائی اصولوں کا پکا تھا۔ اس کے دل میں قوم کا درد تھا۔ میرے بھی اصول وہی ہیں جو قائداعظم کے تھے۔ ایوب خان کہتے ہیں ان کی حکومت نہ رہی تو پاکستان کا استحکام خطرے میں پڑ جائے گا۔ اگر اس ملک کا استحکام ایک شخص پر ہے تو یہ صورت حال ملک کے لیے بہت خطرہ ہے۔ کوئی آدمی قیامت تک زندہ نہیں رہتا۔ اگر خدانخواستہ ایوب خان نہ رہے تو پھر بقول ان کے ملک تباہ ہوجائے گا؟ کسے پتہ ہے وہ کب تک زندہ رہے۔ زندگی کا بھروسہ نہیں‘ تو کیوں نہ ہم اس نظام کو بدل دیں جس میں ملک کے استحکام کا انحصار ایک فرد پر ہو۔ کسی شخص کے ہونے نہ ہونے سے قوم کو فرق نہیںپڑتا۔
وہ شخص اس ملک کو کیا استحکام دے گا جس کا اپنا ذہن صاف نہ ہو۔ جس کے ارادے متزلزل ہوں۔ جو آئے دن اپنے فیصلے بدلتا رہتا ہے۔ جو حکمران متوازن ذہن نہ رکھتے ہوں وہ استحکام کا موجب نہیں ہو سکتے... جنرل ایوب نے مجھ پر یہ الزام لگایا تھا کہ میں اقتدار کی بھوکی ہوں۔ میں کہتی ہوں وہ خود اقتدار کے بھوکے ہیں‘ وہ اس ملک پر آمریت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اخبارات نے میری تقریریں غلط شائع کی ہیں اور میرے انٹرویوز کو گمراہ کن عنوان لگا کر پیش کیا... یہ ان کے خریدے ہوئے اخبار ہیں۔ یہ سب ٹرسٹ کے اخبار ہیں۔ یہ سب حکمران طبقہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ تمام سرکاری اخبارات گمراہ کن پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ اگر آپ نے یہ سب کچھ معلوم ہونے پر بھی ایوب خان کو دوبارہ صدر منتخب کیا تو اس سے نہ صرف ملک اور قوم بلکہ آپ اور آپ کے بال بچوں کو اس غلط انتخاب کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ چھ سالوں میں جو مظالم ڈھائے گئے ہیں ہر شخص ان سے واقف ہے۔ سول سروس اور سرکاری ملازمین کو ذاتی کاموں کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ سرکاری ملازمین کو سیاست میں گھسیٹ لیا گیا ہے‘ حالانکہ سیاست میں عمل دخل سرکاری ملازمین کاکام نہیں ہے۔ ان کاکام ملک کا انتظام سنبھالنا ہے۔ یہ سرکاری افسران عوام کی دادوفریاد پر توجہ نہیں دیتے اور سیاست میں دخل اندازی کرتے ہیں‘جس کے باعث نظم و نسق میں تعطل پیدا ہوگیا ہے۔ دفتروں میں فائلوں کے ڈھیرلگے پڑے ہیں۔ عوام کی اقتصادی حالت بد سے بدتر ہوچکی ہے۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ اشیا عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہیں۔ اقربا پروی عام ہے۔ جنرل ایوب نے جو آئین بنایا ہے اس کے تحت وزیر نامزد ہوتے ہیں‘ جنہیں کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہی حال اسمبلیوں کا ہے۔ کوئی نہیں جانتا وہ کس کے نمائندے ہیں۔ بجٹ کا ایک تہائی حصہ اسمبلیوں میں پیش کیا جاتا ہے‘باقی بجٹ جانے کہاںجاتا ہے۔ ٹیکس گزار عوام کوکچھ پتہ نہیں۔ ملک میں ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ‘لیکن میں نے تو ملک گیر دوروں میں کہیں ترقی نہیں دیکھی۔ صرف اخباروں میں ضرور پڑھا ہے۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ملک میں ترقی پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے ہیں‘ لیکن مجھے علم نہیں اتنی بڑی رقم کہائی سے آئی اور کہاں چلی گئی۔ بلوچستان میں لوگوں پر ظلم زیادتی کی جارہی ہے۔ بلوچستان کے عوام بھی دیگر حصوں کی طرح پاکستان کے وفادار شہری ہیں۔ بلوچستان میں بدانتظامی اور بدعنوانی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ یہ اتنی تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے کہ میں نہیں کہہ سکتی اگر موجودہ حکومت قائم رہی تو ملک کا کیا حشر ہوگا۔ اگر وہاں کچھ لوگ منافی سرگرمیوں میں مصروف ہیں تو ان کے خلاف عدالتی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ بے کس اور مظلوم عوام کو جبر و تشدد سے دبایا نہیں جاسکتا۔ دوسری طرف سندھ میں ہاریوں کو زمین نہیں دی جارہی ‘جو اس کے حقیقی مستحق ہیں۔ بیراج کے علاقوں میں متعدد ایسے قطعات ہیں جہاں شکار گاہیں بنائی گئی ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں کے عوام کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا‘ تن ڈھانپنے کو کپڑا میسر نہ آتا ہو‘ سر چھپانے کو ٹھکانہ نہ ہو‘ اس قسم کی عیاشیوں کا وہ کیسے متحمل ہوسکتا ہے؟ یہ حرکات عوام سے بے انصافی ہے۔ ایوب خان کہتے ہیں کہ عوام نے ان کے سیاسی فلسفہ کی تائید نہ کی تو ملک تباہ ہوجائے گا۔ وہ بتائیں ان کے سیاسی فلاسفی سے ملک کو پہلے کون سا فائدہ پہنچا ہے؟
شہری آزادیاں ختم ہوگئی ہیں‘ رشوت‘ نااہلی اوربدانتظامی بڑھ گئی ہے۔ اخبارات کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ انہیں خرید لیا گیا ہے۔ ان خریدے اخبارات میں ایسے بیانات شائع کرائے جاتے ہیں کہ ایوب خان کو فلاں علاقے سے اتنے ووٹ ملیں گے۔ پچھلے دنوں میرے نام سے غلط بیان منسوب کر کے چلایا گیا۔ میں نے کبھی امریکہ کو اپنا دوست نہیں کہا۔ میں نے یہ بات کہی تھی کہ ایوب خان آج کل ہر جگہ رو رو کر یہ شکایت کررہے ہیں کہ امریکہ پاکستان کی نسبت بھارت کو تین گنا فوجی امداد دے رہا ہے۔ میں نے دریافت کیا تھا کہ تم تو امریکہ کو اپنا دوست اور سیٹو اورسینٹو کا بہترین اتحادی قرار دیتے تھے‘ پھر اسے اپنے ہاتھ سے کیوںجانے دیا؟ اس کا مطلب ہوا تم کسی دوست کو بھی اپنے ہاتھ میں رکھنے کے قابل نہیں۔ میں نے امریکہ کو کبھی دوست نہیں کہا ۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بھی مجھ پرسخت تنقید کی ہے تو انہیں پتہ ہونا چاہیے میں ان سے دس گنا زیادہ سیاست جانتی ہوں۔ مجھے علم ہے ملک کا مفاد کس میں ہے۔ عوام نے پاکستان کیلئے اس لیے بھاری قربانیاں نہیں دی تھیں کہ چند افراد اس سے فائدہ اٹھائیں بلکہ ملک اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ سب کو یکساں سہولتیں ہوں گی۔ ایوب خان نے میرے بھائی کے مزار کی دیواروں پر اپنے نام کا کتبہ نصب کرالیا ۔ ایوب خان نے مزار کا سنگِ بنیاد رکھا ۔ مجھے دعوت دی گئی‘ لیکن میں شریک نہیں ہوئی‘ میرے لیے یہ تقریب خوشی کا باعث نہ تھی۔ مجھے قائداعظم میموریل فنڈ کمیٹی کا چیئر مین بننے کو کہا گیا تھا‘ لیکن میں نے پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ میں لوگوںکے پاس یہ اپیل لے کر نہیں جاسکتی تھی کہ وہ چندہ دیں تاکہ میرے بھائی کیلئے شایان شان مقبرہ تعمیر کیا جاسکے۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں میرے بھائی کے مقبرے کے نام پر کتنا چندہ اکٹھا کیا گیا اورکتنا باقی ہے۔
یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد آپ کو لگتا ہے کہ یہ آج سے چھپن برس پہلے کی گئی تقریروں سے چند اقتباسات ہیں؟ بتائیں کچھ بدلا ہے؟ وہی ہر حکمران کے حواری ‘ بیوروکریٹس کا حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ہاتھوں سیاسی استعمال ‘ عیاشی کیلئے شکار گاہیں ‘ حکمرانوں کی عوام کے ساتھ زیادیتاں‘ کرپشن کی کہانیاں ‘ قائداعظم کے مزار کے نام پر چندے ‘ ہر حکمران کا خود کو ناگزیر سمجھنا اور حواریوں سے خود کو پاکستان کیلئے ''آخری اُمید‘‘ کا مسلسل پروپیگنڈا کرانے کے بعد یہ تاثر دینا کہ اگر وہ نہ رہے تو خدانخواستہ ملک بھی نہیں رہے گا ۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ کی یہ تقریریں پڑھتے ہوئے چھپن برس بعد بھی یہ سب کچھ جانا پہچانا اور سنا سنایا لگ رہا ہے۔ سب کچھ وہی تو ہے۔ایک فرانسیسی ادیب کا جملہ یاد آگیا:The more things change, the more they stay the same.