اسلام آباد کے ایچ الیون قبرستان میں ہلکی بارش اور فضا میں بڑھتی ہوئی سردی کے درمیان میں نے دور دور تک پھیلی سفید ماربل میں لپٹی قبروں کو دیکھا اور اپنے اندر1 دور تک تنہائی اور اداسی کو محسوس کیا۔ اگرچہ دوپہر تھی لیکن بادلوں اور بارش کی وجہ سے لگ رہا تھا جیسے شام اترنے والی ہو۔ بادل اور بارش کے موسم نے قبرستان میں چار سو پھیلی افسردگی میں اضافہ کر دیا تھا۔ کچھ ماہ پہلے اپنے دوست شاہد محمود کے والد ظفر محمود کے جنازے میں شریک ہونے آئے تھے تو یہ جگہ خالی تھی۔ پانچ مہینوں میں ہر طرف قبریں ہی قبریں۔ اتنی تیزی سے انسان کا پیٹ نہیں بھرتا جتنی تیزی سے قبرستان بھر گیا تھا۔
میں نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ اس قبرستان میں کتنی دفعہ آ چکا ہوں۔ ہر دفعہ کسی دوست کا باپ‘ ماں یا بھائی قبر میں جا لیٹا۔ مجھے یاد آیا اکیس بائیس برس قبل جب ملتان سے اسلام آباد آیا تھا تو شہر میں کوئی واقف نہ تھا۔ انجم کاظمی کا اللہ بھلا کرے‘ ان کے انکل یہاں افسر تھے۔ انہوں نے چند دن اپنے پاس رکھا‘ پھر ایک دوست محمد افضل کے ہاں ہوسٹل میں رہا اور پھر تعلق بننے شروع ہوئے۔ سوشل لائف شروع ہوئی۔ لوگوں کے مرنے جینے میں شریک ہونا بھی شروع کیا۔ ذہن میں کئی نام ابھرے جن کے ساتھ ایک ہی دفتر میں کام کیا۔ برکی صاحب‘ احمد حسن علوی‘ محمد یسین اور محمد الیاس‘ سب ایک ایک کرکے چل دیے۔ رہی سہی کسر ڈاکٹر ظفر الطاف پوری کر گئے۔ چار برس گزر گئے لیکن ان کے بعد کسی چیز میں دل نہ لگا۔ دوپہریں ویران ہوگئیں۔
سردی کے موسم اور برستی بارش میں‘ میں اپنی جیکٹ میں دونوں بازو دیے دور دور تک پھیلی انسانی قبروں کو دیکھتا رہا۔ اپنے پیاروں کو زمین کے حوالے کرنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے۔ اب کی دفعہ ہم سب اپنے دوست شاہد محمود کی والدہ کو دفن کرنے آئے تھے۔ شاہد محمود کو اوپر نیچے بڑے صدمات سے گزرنا پڑا ہے۔ پہلے والد صاحب‘ جن کی عمر اسی برس سے زیادہ تھی‘ فوت ہوئے تو اب والدہ۔ وہ بھی اسی برس سے زیادہ تھیں۔ ماں کو دفن کرنے کے بعد شاہد محمود کی آنکھوں سے آنسو بے ساختہ بہہ نکلے تھے۔ ارشد شریف‘ عدیل راجہ‘ علی‘ ضمیر حیدر اور میں شاہد بھائی کے گرد سر جھکائے چپ کھڑے تھے۔
مجھے یاد آیا‘ اس قبرستان میں پہلی دفعہ آٹھ برس قبل اس دن آنا ہوا تھا جب عدیل راجہ نے مجھے میسج کیا تھا کہ ارشد شریف کے والد فوت ہوگئے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھل ہی رہے تھے کہ پتہ چلا ارشد شریف کے نوجوان بھائی ڈاکٹر اشرف شریف بھی فوت ہوگئے ہیں۔ ایک جوان اور خوبصورت ڈاکٹر جو ابھی سیاچن پر ڈیوٹی دے کر لوٹا تھا۔ ایک ہی وقت میں گھر سے باپ اور جوان بیٹے کے جنازے اٹھے۔ اس دن بھی یہی قبرستان تھا۔ ارشد شریف ایک خاموش اور افسردہ چٹان کی طرح باپ اور بھائی کو قبروں میں اتار رہا تھا۔ ہمارا دوست اور صحافی دلشاد عظیم یہیں دفن ہوا۔ ایک خوبصورت روح کا مالک اور شاندار رپورٹر۔ وہ جلدی رخصت ہوا۔ اسے بھی یہیں دفنانے آئے تھے۔ محمود سلیم سابق فیڈرل سیکرٹری‘ ایک اور شاندار انسان اور افسر جلدی رخصت ہوا۔
چند ماہ پہلے جب شاہد محمود کے والد کا انتقال ہوا تھا تو میں نے سب بھائیوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے۔ اگر اسی پچاسی سال کے والد کی موت پر بھی بیٹوں کی آنکھوں میں آنسو ہوں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کتنا اچھا باپ تھا۔ مجھے اس دن اندازہ ہوا کہ باپ کتنا ہی بوڑھا کیوں نہ ہو‘ اگر اس نے اپنے بچوں کو محبت دی‘ تو تسلی رکھیں بچے اسے دفن کرتے وقت آنسو بہائیں گے۔
کل رات جب شاہد بھائی کے گھر ہم سب دوست ان کی والدہ کی وفات کا سن کر بیٹھے تھے تو شاہد بھائی کہنے لگے: اب کچھ نہیں بچا‘ پہلے باپ اور اب اماں گئیں۔ کہنے لگے: اماں کو تنہائی سے ڈر لگتا تھا۔ وہ مجھے کہیں نہیںجانے دیتی تھیں۔ کہتی تھیں: بس تم میرے ساتھ بیٹھا کرو‘ مجھ سے باتیں کرو۔ شاہد بھائی نے بتایا کہ اسی لیے وہ صبح دس بجے دفتر جا کر ساڑھے تین بجے گھر آ جاتے تھے کہ اماں کو تنہائی مارنے آ جاتی تھی۔ میں چپ سنتا رہا۔ آخری عمر میں انسان کو کیسے تنہائی مارنے آجاتی ہے۔ کہیں پڑھا ہوا جملہ یاد آیا: انسان کو موت نہیں مارتی وہ اداسی سے مرجاتے ہیں۔ شاید گارشیا نے اسی لیے اپنے ناول کا نام ''تنہائی کے سوسال‘‘ رکھا تھا‘ جسے نعیم بھائی نے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ گارشیا کے ایک اور ناول کا بھی اسی طرح کا نام تھا ''کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا‘‘۔
شاہد بھائی کی اپنی ماں سے جڑی باتیں سن کر مجھے یاد آیا‘ چند دن پہلے صبح صبح میرے بڑے بیٹے نے مجھے واٹس ایپ کال کی اور نیند سے جگایا کہ آپ سے باتیں کرنی ہیں۔ مجھے لگا وہ میرے لیے اداس ہے۔ اپنے چھوٹے بھائی کے بارے میں بولا: بابا جب اگلے سال وہ بھی پڑھنے چلا جائے گا تو آپ کیا کریں گے۔ آپ تو تنہا ہوجائیں گے؟ میرے دل پر ایک گھونسہ سا لگا۔ میں چپ رہا۔ وہ بولا: آپ کو زیادہ بچے پیدا کرنے چاہیے تھے تاکہ ہم دو بھائیوں کے پڑھنے کے لیے جانے بعد آپ اکیلے نہ ہوتے۔
مجھے سنبھلنے میں کچھ وقت لگا۔ میں نے زبردستی ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائی اور بولا: یار اس سے کیا فرق پڑ جانا تھا۔ ایک دن سب نے گھر چھوڑ دینا ہوتا ہے۔ پرندوں نے گھونسلے سے ایک دن اڑ ہی جانا ہوتا ہے۔ ہمیں دیکھ لو۔ ہم چھ بھائی بہن تھے۔ ایک ایک کرکے سب گھر چھوڑ گئے اور آج گائوں میں اس گھر کو تالا پڑا ہوا ہے جہاں ہم کبھی پیدا ہوئے اور بڑے ہوئے۔
اب شاہد بھائی بتا رہے تھے کہ ان کی اماں بڑھاپے میں تنہائی سے کتنا خوفزدہ ہوگئی تھیں اور کہیں نہیں جانے دیتی تھیں۔ شاہد بھائی کی باتیں سن کر مجھے یاد آیا‘ نشتر ہسپتال میں تیس سال قبل جب اماں داخل تھیں تو انہیں ایک رات محسوس ہوا شاید وہ فوت ہونے والی ہیں۔ میں ان کے ساتھ اکیلا تھا۔ انہی لگا کہیں ان کا چھوٹا بیٹا ماں کی موت پر ڈر نہ جائے۔ وہ دیر تک مجھے اپنی موت کے لیے تیار کرتی رہیں کہ اگر مجھے ابھی کچھ ہوجائے تو تم نے رونا یا گھبرانا نہیں۔ اپنی موت بھول کر انہیں میری فکر تھی۔ شاہد بھائی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر یاد آیا‘ چند ماہ پہلے میں پرانی دستاویزات دیکھ رہا تھا تو ان میں سے اچانک اماں کی پرانی بلیک اینڈ وائٹ تصویر نظر آئی۔ ہاتھ بڑھا کر اٹھایا اور دیر تک دیکھتا رہا۔ مجھے محسوس ہوا میرے گال گیلے ہورہے ہیں۔ تیس برس بعد بھی ماں کی ایک جھلک اتنی بے چین کر گئی تھی اور یہاں شاہد بھائی کی ماں کو فوت ہوئے ابھی چند گھنٹے ہی ہوئے تھے۔
میں نے کہا: شاہد بھائی میں اپنے والد کے بہت قریب تھا لیکن آج مجھے آپشن دی جائے ماں اور باپ میں سے کون زندہ رہے تو میں فوراً ماں کا انتخاب کروں گا کیونکہ والد کے بعد ماں بچوں کو سنبھال سکتی ہے‘ باپ نہیں۔ آج سوچتا ہوں اگر ہماری ماں پہلے فوت ہوجاتی تو شاید ہم سب بکھر جاتے۔ اماں نے اپنے بچوں کو اپنی آغوش میں سنبھال لیا تھا۔
قبر پر مٹی ڈالی جارہی تھی۔ سب نے ہاتھ دعا کے لیے کھڑے کر لیے تھے۔ سفید ماربل کی قبروں کی قطار کے درمیان بادلوں میں گھرے آسمان سے برستی بارش کے دوران میری نظر اچانک ایک قبر پر نظر پڑی جس پر لکھاتھا: ہمارے پیارے ابا۔ میرے ساتھ قبرستان میں وجدان حسن بھی تھا جو میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہے۔ میں نے کہا: وجدان‘ دیکھو کس نے کتنے پیار سے لکھا ہے ہمارے پیارے ابا۔ کچھ فاصلے پر ایک اور سفید قبر نظر آئی۔ ہماری پیاری اماں۔ دیر تک ان دونوں قبروں کو دیکھتا رہا۔ بچوں نے کیسے اپنا سارا پیار اور دکھ ان تین لفظوں میں سمو دیا تھا۔ کتنے خوش نصیب تھے یہ ماں باپ۔
مجھ سے وہاں مزید نہیں رکا جا رہا تھا۔ کالی جیکٹ کی خالی جیبوں میں دونوں ہاتھ ڈالے دور مارگلہ کی پہاڑیوں پر برستے بادلوں کو دیکھا۔ شام گہری ہورہی تھی جس نے ماحول کی افسردگی کو گہرا کر دیا تھا۔ سفید ماربل سے بنی خوبصورت قبروں کے درمیان کتبوں پر نام پڑھتے ہوئے ہالی ووڈ کے اداکار کانیو ریو کا انٹرویو یاد آیا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ جب مر جاتے ہیں تو ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ تو اس نے افسردگی بھرا گہرا سانس لے کر کہا تھا: مجھے نہیں پتہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے لیکن ایک بات کا پتہ ہے‘ ہمارے مرنے کے بعد جو ہم سے محبت کرتے ہیں وہ ہمیں بہت مس کریں گے۔