قومی اسمبلی میںپیرکے روز پریس گیلری سے نیچے ہال میں جاری کارروائی دیکھ کر خیال آیا کہ اس اسمبلی کا اگر کوئی سنہری دور تھا‘ جو میں نے اٹھارہ برس پارلیمنٹ کی رپورٹنگ میں دیکھا تو وہ 2002ء سے 2007 ء تک تھا‘ جب جنرل مشرف ملک چلا رہے تھے۔
ان پانچ سالوں میں تین وزیراعظم آئے گئے‘ لیکن اگر دیکھا جائے تو زرداری کے دور میں بھی تو گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اور نواز شریف دور میں شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے۔ اب آپ کہیں کہ یہ کیا بات ہوئی ‘ جب ملک پر پرویز مشرف کی حکومت تھی تو مجھے پارلیمنٹ بہتر لگتی تھی اور جب جمہوریت ہے تو وہ بہتر نہیں لگ رہی۔ اب مڑ کر پیچھے دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ جو رومانس ہمارا اس وقت اپوزیشن کے جن ایم این ایز کے ساتھ شروع ہوا تھا وہ دھیرے دھیرے ختم ہونا شروع ہوا اور رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی اور اس کے بعد نواز شریف دور میں وہ سیاسی ہیروز دھڑام سے نیچے آن گرے۔
شاید ہمارے جیسے نئے نئے رپورٹر اس وقت جنرل مشرف کا اقتدار دیکھ رہے تھے‘ لہٰذا ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ یہ بڑے بہادر اور ایماندار لوگ ہیں جو ایک آمر کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ اُس وقت جن سیاستدانوں کی تقریروں سے ہم متاثر ہوتے تھے ان میں سرفہرست محمود خان اچکزئی‘ خواجہ آصف‘ سعد رفیق‘ اعتزاز احسن‘ چوہدری نثار‘ لیاقت بلوچ‘ حافظ حسین احمد اور فرید پراچہ تھے‘ جنہوں نے پارلیمنٹ میں بہت اچھی تقریریں کیں۔ خواجہ آصف کا میں اُس وقت فین بنا جب انہوں نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر اپنے والد خواجہ صفدر کا نام لے کر کہا کہ انہوں نے جنرل ضیا کا ساتھ دیا تھا اور وہ ان کی اس سیاسی غلطی پر قوم سے معافی مانگتے ہیں۔ میں اس دن ہاؤس میں موجود تھا‘ جس دن انہوںنے وہ خوبصورت تقریر کی تھی۔
پارلیمنٹ کیفے میں پیپلز پارٹی اور نواز شریف پارٹی کے لیڈروں کی انقلابی باتیں سننے والی ہوتی تھیں۔ سب سے زیادہ زور اس بات پر ہوتا تھا کہ انہوںنے ماضی میں بہت غلطیاں کیں۔ انہیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا گیا اور اب وہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے۔ وہی پارٹیاں جو ایک دوسرے کے گلے کاٹتی تھیں اب پرویز مشرف کے خلاف متحد تھیں اور ہمیں کمال کی تقریریں سننے کو ملتی تھیں۔ انہیں سن سن کر ہم بھی شاید کچھ انقلابی ہوچلے تھے اور یہ اُمید لگا بیٹھے تھے کہ اب پاکستان میں اصلی اور نسلی جمہوریت آئے گی‘ جب یہ سب اقتدار میں آئیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سیاستدانوں نے وہاں اچھی تقریریں کیں اور پرویز مشرف اور چوہدریوں کے حامیوں سے تقریری مقابلے جیتے لیے۔ یہ اور بات کہ آنے والے برسوں میں ہمیں اندازہ ہوا کہ اپوزیشن میں جو سب سے اچھا کام کوئی ایم این اے کرسکتا ہے وہ تقریر ہی ہے۔ جو دل میں آئے وہ کہہ دے۔ یہی خواجہ آصف گھنٹوں ہمیں سمجھاتے تھے کہ ماضی میں ان کی پارٹی سے کیا کیا غلطیاں ہوئیں۔ جن سے خفیہ ملاقاتیں کرتے تھے ‘وہ نہیں کریں گے‘ یہ اور بات کہ کچھ عرصے بعد شہباز شریف‘ چوہدری نثار کے ساتھ جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتیں کرنے جاتے تھے۔ شہباز شریف سب کو لندن میں بتاتے تھے کہ ان کے دوسرے اقتدار کی تباہی میں سیف الرحمن کا بڑا ہاتھ تھا‘اور اب اگر اقتدار ملا تو ہم نئی شروعات کریں گے۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بنے تو ارشد شریف نے ایک سکینڈل بریک کیا کہ ایک چینی کمپنی کو این ایچ اے ڈھائی ارب ڈالرز کا جو ٹھیکہ دے رہی تھی اس پر دستخط سیف الرحمن نے قطر میں بیٹھ کر کیے تھے۔ مطلب یہ تھا کہ چینی کمپنی کا نام استعمال کیا گیااور پراکسی کے طور پر شریف خاندان اپنے دوستوں اور اپنے خاندان کو ٹھیکے دے رہے تھے۔ یہ وہی سیف الرحمن تھے جن کے بارے میں شہباز شریف فرماتے تھے کہ انہوں نے نواز شریف کی حکومت گرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ یہ تھا وہ سبق جو ان سب نے ماضی سے سیکھا ۔اقتدار ملتے ہی وہیں سے شروع کیا جہاں یہ چھوڑ کر گئے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ خواجہ آصف کی گھن گھرج اور گونجتی ہوئی آواز میں تقریر کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ بڑے بڑے خواجہ آصف کے سامنے نہ ٹھہر پاتے۔ ان کی تقریر کے دوران اگر کسی کی شامت آئی ہوتی تو وہ ان پر جملہ کستا اور پھر ایسا جواب ملتا کہ وہ اگلے کئی ماہ آپ کو ایوان میں خاموش بیٹھا ملتا۔ خواجہ صاحب کو لفظوں کے ساتھ کھیلنے کا طریقہ آتا ہے اور ان جیسا شاید ہاؤس میں اور کوئی نہ ہو۔ وہ جب چاہیں کسی کی ہاؤس میں بولتی بند کر دیں۔ اب تک ہم دیکھتے آئے تھے کہ خواجہ آصف کے سامنے کوئی نہ ٹھہر سکا۔ لیکن لگتا ہے کہ اب خواجہ آصف اس طرح ہاؤس پر حکمرانی نہیں کر سکیں گے۔ اب ان کا مقابلہ نوجوان مراد سعید سے ہے۔خواجہ آصف جب تقریر کر کے بیٹھے اور مراد سعیدنے تقریر شروع کی تو یہ ہوتا گیا کہ خواجہ صاحب میں اب وہ جان نہیں رہی ۔ وقت کے ساتھ خواجہ آصف اپنے ساتھ کچھ ایساکر بیٹھے ہیں جو میرے جیسے اِن کے مداح کے لیے دوربیٹھ کر سمجھنا مشکل نہیں تھا۔ لگتا ہے کہ خواجہ آصف بھی آخرکار چمک کا شکار ہو گئے۔ جب پچھلی دفعہ وہ وزیر بنے تو ان کا نیا سکینڈل سامنے آیا کہ وزیر ہوتے ہوئے بھی دبئی میں ایک پرائیویٹ کمپنی کے ملازم لگ کر ہر ماہ پندرہ لاکھ روپے تنخواہ لیتے رہے۔ وہ یہ بات نہ سمجھ سکے کہ ان کی سب سے بڑی طاقت ان کی ہائی مورال گرائونڈ ہے۔ وہ اب تک ہر پارٹی اور حکومت کو سینگوں پر اس لیے اٹھاتے آئے تھے کہ ان کے مخالفین بھی ان پر کرپشن یا غلط کاموں کا الزام نہیں لگا سکتے تھے۔ اس لیے جب وہ تقریر کرتے تھے تو ان کی تقریر کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا تھا‘ کیونکہ ان کے کردار پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ اس لیے 2002 ء کے بعد گزشتہ پیر کے روز میں نے پہلی دفعہ انہیں ہاؤس کے اندر بے بس دیکھا۔ ان کا جو حشر مراد سعید کررہے تھے وہ کم از کم میرے جیسے ان کے سابق مداح کے لیے دلخراش تھا۔ میں پریس گیلری میںبیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ ہم کیوں اپنی ہائی مورال گرائونڈ لُوز کر جاتے ہیں؟ ہمیں کیوں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ لوگ آپ کے فین اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ آپ کو خود سے بہتر سمجھتے ہیں۔ آپ کو احساس ہونا چاہیے کہ آپ اس وقت دوسروں سے زیادہ عزت کما رہے ہوتے ہیں کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ ان سے بہتر انسان اور کردار کے مالک ہیں۔ لیکن خواجہ آصف یہ باریک فلاسفی نہ سمجھ سکے کہ وہ اس وقت تک ہاؤس پر چھائے رہیں گے جب تک ان کی ساکھ لوگوں کی نظروں میں اچھی رہے گی۔ جو ہائوس پہلے خواجہ آصف کی گھن گرج سے گونجتا تھا‘ آج مراد سعید کی دھواںدھار تقریر سے گونج رہا تھا۔ وہ ایک کے بعد دوسرا الزام دُہرا رہے تھے ‘ جن کا خواجہ صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کہ وہ ملک کے وزیرخارجہ‘ وزیردفاع اوروزیر واپڈا ہوتے ہوئے بھلا کیسے دبئی میں ایک پرائیویٹ کمپنی کی ملازمت کرسکتے تھے؟ ان کے لیے ملک کی وزارت اہم نہیں تھی بلکہ دبئی میں ایک کمپنی کی ملازمت‘ جہاں سے انہیں پیسے مل رہے تھے ‘اہم تھی۔ کیا ان جیسے بڑے سیاستدان کو یہ کام کرنا چاہیے تھا ؟ انہوں نے جہاں اپنے ساتھ زیادتی کی وہاں اپنے کچھ سابق مداحوں کے ساتھ بھی کی ہے۔ پاکستان میں شاید کوئی ایک بھی سیاستدان ایسا نہیں رہ گیا جو ہائی مورال گرائونڈ پر کھڑا ہو اوراس نے کوئی ایسا کام نہ کیا ہو جس پر اس کی ساکھ پر تنقید نہ ہوسکتی ہو۔
جب مراد سعید خواجہ آصف کے کارناموں کی تفصیل بتا رہے تھے تو خواجہ آصف کچھ دیر تک تو سب کچھ چپ چاپ بیٹھے سنتے رہے ۔ جب مراد سعید کے حملوں میں جارحیت بڑھ گئی تو وہ چپکے سے اُٹھے اور سر جھکائے ہاؤس سے نکل گئے۔ میں نے اٹھارہ سال برس پہلے خواجہ آصف کا عروج دیکھا تھا اور پیر کے روز انہی خواجہ آصف کو غروب ہوتے ہوئے بھی دیکھا!