کراچی کی شاہراہ فیصل پر واقع کنونشن سینٹر کے شادی ہال میں مجھے دیکھ کر شکیل عادل زادہ کے چہرے پر پھیلی حیرانی جو فوراً مسکراہٹ میں بدل گئی‘ سے اندازہ ہوا کہ بازی گر کے مصنف نے اپنی بیٹی آشتی کی شادی پر مجھے کارڈ واٹس ایپ کیا تھا تو انہیں امید کم ہی تھی کہ کوئی اسلام آباد سے فنکشن میں شریک ہوگا۔
کراچی میں میرا ڈیرہ سابق بیوروکریٹ اور شاندار ادیب محمد اقبال دیوان کے گھر ہی ہوتا ہے۔ ان سے تعلق تو پرانا تھا ‘لیکن زیادہ گہرا ڈاکٹر ظفر الطاف کی وفات کے بعد ہوا ۔ ان کے گھر ایک عجیب سا سکون ہے‘کچھ تنہائی ہے۔ بچے باہر ہیں اور دیوان جی ان کی یادوں کو گلے سے لگائے کراچی میں اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ بیگم صاحبہ نیویارک میں اپنے بچوں اور کراچی میں میاں کے درمیان بٹی ہوئی ہیں۔ بچے بڑے ہوگئے تو نواسوں سے دل لگالیا۔گوروں نے زندگیاں آسان کر دی ہیں‘ کہاں ایک دور تھا کہ دنوں انتظار کرنا پڑتا تھا ٹرنک کال لگ جائے تو پیاروں کی آواز سن لیں۔ کہاں خطوط کا انتظار کیا جاتا تھا اور کہاں واٹس ایپ ویڈیو کال پر گھنٹوں پیاروں سے باتیں کریں۔
جب برسوں پہلے اردو اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ ایسا فون ایجاد ہوگیا ہے جس پر ویڈیو نظر آتی ہے تو میں نے کہا: ہمارے ہاں تو انٹینے سے ٹی وی پر تصویر صاف نہیں آتی اور یہ فرماتے ہیں اب فون پر بھی ویڈیو کال ہوسکے گی۔ میں اسے اخبار کی سنسنی پھیلانے اور خبر بیچنے کی ایک بیکار کوشش قرار دے کر ماننے سے انکاری تھا۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہورہا تھا کہ میں جدید سائنس کی ایجاد پر یقین کرنے سے انکاری تھا‘ جب 1996ء میں لاہور میں بے روزگاری کے دنوں میں اخبار کی نوکری ڈھونڈنے کی ناکام کوششوں میں لگا ہوا تھا تو میرے لیہ کے مہربان رفیق اختر‘ جو صوبائی محکمہ زراعت ایکسٹینشن میں اس وقت اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے اور اکثر مجھے اپنے گھر کھانا کھلانے لے جاتے تھے‘ بتانے لگے کہ وہ کچھ عرصہ پہلے سکالرشپ پر جرمنی پڑھنے گئے تھے‘ وہاں پلاسٹک منی کا تصور ابھر رہا تھا‘ آپ کو بٹوے میں نقدی رکھنے کی ضرورت نہیں تھی‘ بینک آپ کو پلاسٹک کارڈ دیتا ہے جہاں دل کرے آپ پیسے نکلوا لیں۔ میں یہ بات ماننے سے انکاری ہوگیا ۔ میں نے ایسی بحث کی کہ رفیق اختر کو کہنا پڑا کہ یار مذاق کررہا تھا۔ برسوں بعد جب ایک بینک میں اکاؤنٹ کھلوایا اور مجھے پلاسٹک کارڈ کا آپشن دیا گیا تو مجھے رفیق اختر یاد آئے اور سخت شرمندہ ہوا۔
مجھے نو بجے شادی ہال پہنچنا تھا۔ دیوان اقبال میری بے تابی دیکھ کر بولے: دھیرج مہاراج‘اتنی جلدی کاہے کو رے پگلے‘ یہاں کراچی میں بارات اور کھانا دس گیارہ بجے شروع ہوتا ہے۔ وہی ہوا‘ جب دس بجے کے قریب شادی ہال پہنچے تو ہال تقریباً خالی تھا۔ شکیل عادل زادہ نے بھی کہا‘ یہاں مہمان ذرا لیٹ ہی آتے ہیں۔میں نے نظریں دوڑائیں‘ کہیں ہمارے دوست شاہد صدیقی نظر آئیں۔ شکیل عادل زادہ سے میں نے خود ان کے بارے میں نہ پوچھا کہ چلیں اگر وہ انہیں بھولے ہوئے ہیں تو پوچھ کر یاد کیوں کرائوں۔وہیں اعلیٰ پائے کی لکھاری اور ڈرامہ نگار نورالہدیٰ شاہ سے ملاقات ہوئی تو ان کا 1980ء کی دہائی میں شہرہ آفاق ڈرامہ ''جنگل‘‘ یاد آیا‘ جس کی وجہ سے گلیاں‘ سڑکیں سنسان ہوجاتی تھیں۔ سوچا انہیں کیسے بتائوں کہ دوردراز گائوں میں ایک دفعہ اماں سے مار کھائی کہ سردیوں کی رات اماں کے منع کرنے کے باوجود چپکے سے ماموں کے گھر ٹی وی پر'' جنگل‘‘ کی قسط دیکھنے نکل گیا تھا۔ جرنلزم کے بڑے نام عمران اسلم سے بڑے احترام سے ملا۔ شکیل بھائی نے ایک صاحب سے ملایا اور پوچھا انہیں جانتے ہیں ؟ میں نے کہا :معذرت قبول کریں۔ شکیل عادل زادہ بولے: ارے آپ انہیں نہیں جانتے؟ یہ انورشعور ہیں۔ اچانک فلیش ہوئی‘ سب رنگ یاد آیا۔ وہی تو شکیل عادل زادہ کے ساتھ کرتا دھرتا تھے۔ عزت سے جھک کر انہیں ملا تو موقع ہاتھ لگتے ہی شکیل بھائی سے پوچھ لیا :بازی گر کے بارے آخری خبر یہ تھی کہ آخری قسط لکھی جارہی ہے اور اب تک ستر صفحات لکھے جا چکے ہیں؟ کب تک مکمل ہورہی ہے؟ بولے :میاں ستر میں بیس کا اضافہ کرلو۔ نوے صفحات لکھ لیے ہیں۔ میں نے پوچھا: کتنا لکھنے کا پلان ہے؟ بولے: کوئی ذہن میں تو نہیں کہ کتنے صفحات پر آخری قسط محیط ہوگی‘ لیکن شاید ایک سو ستر صفحات میں مکمل کر لیں گے۔ شکیل عادل زادہ کہنے لگے: لاہور کا ایک پروڈیوسر بازی گر پر ڈرامہ یا فلم بنانا چاہتا ہے۔ اس کیلئے آخری قسط لکھ رہا ہوں۔ میں نے ان سے پوچھا تو نہیں‘ لیکن ذہن میں ایک شک سا ابھرا کہ آخری قسط اس فلم یا ڈرامے کیلئے لکھی جارہی ہے‘ پتہ نہیں وہ ڈرامہ کب مکمل ہو اور اس آخری قسط کو کتابی شکل میں کب شائع کیا جائے؟بیٹی کی شادی کا موقع تھا لہٰذا زیادہ کریدنے کی کوشش نہیں کی۔
شکیل عادل زادہ کے داماد اور بینکر زبیر مرزا اپنی طبیعت کے کمال انسان ہیں۔ ان سے بزنس مین شکیل الرحمن کے گھر پچھلی دفعہ ملاقات ہوئی تھی جو جلد دوستی میں بدل گئی۔ زبیر مرزا میں عجیب کشش ہے‘ گفتگو کریں تو بس آپ سنتے رہیں۔ بریانی کا سنتے تھے‘ لیکن زبیر مرزا نے جو بریانی شادی میں مہمانوں کو کھلائی ہر ایک اَش اَش کر اُٹھا۔ وہیں کراچی چیمبر کے سینئر عہدے دار شکیل الرحمن سے ملاقات ہوگئی۔ مجھ سے ناراض تھے اور وہ بھی سخت۔ ان کی ناراضی بنتی بھی تھی‘ اس لیے فوراً معذرت کی۔ کراچی میں مشہور ہے کہ نہاری تو ہر جگہ بنتی ہوگی‘ لیکن شکیل الرحمن کے گھر جو تیار ہوتی ہے وہ اپنی جگہ ایک ٹریٹ ہے۔ کہنے لگے: میاں کراچی آنے سے ایک ہفتہ پہلے بتانا ہوگا اگر نہاری کا شوق ہے۔ پچھلی دفعہ انکے گھر محفل جمی تھی۔ شکیل الرحمن کی ملکی سیاست اور معیشت پر گہری نظر ہے۔ ان کی باتیں سن کر ڈپریشن بڑھا۔ ان کی گفتگو کسی اور وقت کیلئے اُٹھا رکھتے ہیں۔ عقیل عباس جعفری سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اردو لغت بورڈ کے سربراہ کے طور پر بہت بڑا کام کیا ہے۔ وہ جب بھی ملتے ہیں میں ان سے بھی معذرت کرتا ہوں کہ میری وجہ سے ایک دفعہ ان کا دل دکھا تھا۔
سابق چیئر مین واپڈا ظفر محمود سے عرصے بعد ملاقات ہورہی تھی۔ وہ بھی کمال کی نثر لکھتے ہیں۔ ان سے بڑا اچھا تعلق رہا ہے‘ لیکن کسی وجہ سے تعلقات میں وہ گرم جوشی نہ رہی۔ کہنے لگے :اب آپ میرے ''ناکردہ ‘‘گناہوں کو معاف کر دیں۔میں نے ہنس کر کہا: سر جی جب تک آپ گناہ تسلیم نہیں کریں گے ‘اُس وقت تک معافی نہیں ہوگی۔ انہوں نے ''ناکردہ‘‘ کو ''کردہ‘‘ میں بدلا اور پھر گپ شپ لگی۔ایڈیٹر خالد فرشوری سے بھی پہلی ملاقات ہوئی‘ وہیں نوجوان لکھاری اور سرکاری افسر عرفان جاوید سے بھی ملاقات ہوئی‘ جنہوں نے خاکوں کی ایک اعلیٰ کتاب لکھ کر پورے پاکستان سے داد پائی ہے۔ بندہ کراچی آئے تو نواب یوسف تالپور سے ملے بغیر کیسے جاسکتا ہے۔ نواب صاحب کو فون کیا تو وہ سینیٹر سسی پلیجو کے بھائی کی شادی میں شریک تھے‘ کہا: آپ فوراً گھر پہنچیں۔ نواب صاحب‘ اقبال دیوان اور میرے درمیان سب سے بڑا مشترکہ لنک ڈاکٹر ظفر الطاف ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکومت(1993-96ء)میں وزیرِزراعت رہے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف ان کے ساتھ سیکرٹری تھے۔ تین دفعہ بینظیر بھٹو نے ڈاکٹر ظفر الطاف کو ہٹانے کے آرڈر کیے اور تینوں دفعہ یوسف تالپور نے بینظیر بھٹو سے واپس کرائے۔ کتنی ہی دیر یوسف تالپور ڈاکٹر ظفر الطاف کی باتیں کرتے رہے۔ ہم تینوں کی زندگیوں پر اس ایک شخص نے گہرے اثرات چھوڑے تھے۔
رات گئے ایک کیفے پر اقبال دیوان کے ساتھ اپنی پسندیدہ کافی اور دن میں دانیال پبلشرز سے خریدی گئی خوبصورت کتابوں پر گفتگو کے درمیان میں نے اچانک اقبال دیوان سے پوچھا: دنیا میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوتے ہیں جو عمر کوٹ سندھ کے ایک خاندانی نواب ‘ کراچی کے میمن اور لیہ کے ایک دوردراز گائوں کے ایک صحافی پر اتنے اثرات چھوڑ جائیں کہ پانچ سال بعد بھی ان کی یادیں ہم تینوں کو بے چین کیے رکھتی ہیں؟ ہم تینوں جب بھی اکٹھے ہوتے ہیں‘ ہمارے درمیان ڈاکٹر ظفر الطاف کے علاوہ اور کوئی گفتگو نہیں ہوتی۔
کافی کی سحرانگیز خوشبو اورشاعرہ ادا جعفری کی خودنوشت ''جو رہی سو بے خبری رہی ‘‘کے اوراق میں کھوئے ہم دونوں اس سوال پر جتنا سوچتے رہے‘ کراچی کے اس کیفے سے باہر تھکی ہاری بوڑھی مسافر رات بھی ہمارے ساتھ افسردہ ہوتی رہی۔