عجیب سی بات لگتی ہے کہ جن مشہور لوگوں سے آپ عمر بھر نہیں ملے ہوتے‘ نہ آپ کا ذاتی تعلق ہوتا ہے آپ پھر بھی انہیں اپنے اتنا قریب سمجھتے ہیں کہ ان کی چھوٹی موٹی خوشیاں یا غم آپ کو متاثر کرتے ہیں۔ان کی موت کی خبر آپ کو برے طریقے سے متاثر کرتی ہے ‘حالانکہ آپ کا ان کے ساتھ خونی رشتہ نہیں ہوتا‘ پھر بھی ایک عجیب سا دکھ آپ کے اندر بھر جاتا ہے۔ایسا کیوں ہوتا ہے؟اس سوال کا جواب انسان صدیوں سے تلاش کررہا ہے کہ ہم اجنبی لیکن مشہور اور بڑے لوگوں کی زندگی اور موت سے اتنے متاثر کیوں ہوتے ہیں؟وہ خاص لوگوں کون ہوتے ہیں جن پر پڑنے والی مصیبتیں ہمیں متاثر کرتی ہیں۔
قدیم یونان میں بھی یہ سوال سب کو درپیش تھا۔ بڑی تحقیق کے بعد فلاسفر اس نتیجے پر پہنچے کہ عام انسان اپنے جیسے انسانوں کے دکھوں کا وہ اثر نہیں لیتا جو وہ بڑے اور مشہور بندے کے دکھوں پر لیتا ہے۔ عام بندے کے نزدیک ایک عام انسان کی ٹریجڈی کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔ روز ہی لوگ مرتے رہتے ہیں‘ سب نے ہی ایک دن مرنا ہے‘ لہٰذا عام بندے کی موت چند لوگوں پر اثر کرتی ہے‘ جیسے اس کے اپنا خاندان‘ یار دوست یا رشتہ دار‘لیکن پتہ چلا کہ جب ریاست کا بادشاہ‘شہزادہ‘ وزیر یا کوئی اور مشہور بندہ اس مصیبت کا شکار ہوتا ہے تو اس کا اثر پوری ریاست پر پڑتا ہے۔ عام آدمی اس دکھ کو اسی طرح محسوس کرتا ہے جیسے اس کا اپنا ہو۔
یونانی فلاسفرز کا خیال تھا کہ بڑے لوگوں کی ٹریجڈی عام آدمی پر دو تین اثرات ڈالتی ہے۔ عام بندے کا سب سے پہلا ردِ عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ ڈر جاتا ہے۔ ایک عام بندے نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا کہ بادشاہ‘ شہزادہ یا وزیر بھی ایسی ٹریجڈی کا شکار ہوسکتے ہیں جس کا سامنا عام لوگ ہر روز کرتے ہیں۔ان کے نزدیک یہ ٹریجڈیز عام انسانوں کے لیے ہیں‘ بڑے لوگ ان مصیبتوں سے بالاتر ہیں۔ ان کا لائف سٹائل‘ ان کی امارت اور شان و شوکت دیکھ کر یہ سوچتے ہیں کہ ان خاص لوگوں پر قدرت کا خاص کرم ہے اس لیے تو وہ بہت اوپر چلے گئے ہیں۔ یوں جب وہ کسی بادشاہ‘ وزیر یا حاکم کو اپنے جیسی بیماریوں یا مصیبتوں کا شکار ہوتا دیکھتے ہیں تو وہ بہت ڈر جاتے ہیں‘ انہیں قدرت سے اور زیادہ ڈر لگنے لگتا ہے۔اس طرح جب وہ کسی بڑے بندے کو اوپر سے نیچے گرتے یا صدموں کا شکار ہوتا دیکھتے ہیں تو ان کے اندر جہاں غیریقینی اور خوف کی لہر پیدا ہوتی ہے وہیں ان اس بڑے اور مشہور بندے کے لیے ہمدردی کے بے پناہ جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں اور یہ جذبات اکثر آنسوئوں کی شکل میں بہہ نکلتے ہیں۔ آپ کا ایک بت ٹوٹتا ہے‘ آپ کا ایک یقین بے یقینی میں بدل جاتا ہے۔ آپ کو لگتا ہے اگر اتنے بڑے بندے کے ساتھ یہ سب ہوسکتا ہے تو پھر ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔
جب قدیم یونان میں سالانہ میلے لگتے تھے تو وہاں بڑے بڑے ڈرامہ نگاروں کے ڈرامے پیش کئے جاتے تھے۔ اگر آپ بھی چونتیس کے قریب وہ قدیم یونانی ڈرامے جو جدید دنیا تک پہنچے ہیں‘ پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ڈراموں کے مرکزی کردار سب بڑے لوگ ہیں۔ یہ ڈرامہ نگار باقاعدہ ٹریجک ڈرامے لکھتے تھے جن میں بادشاہوں کے عروج و زوال اور ٹریجڈی کی کہانیاں ہوتیں۔ اکثر یوں ہوتا کہ ٹریجک ڈرامے کا ہیرو اختتام پر یا زوال کا شکار ہوجاتا‘ مر جاتا‘ خودکشی کر لیتا یا آنکھیں پھوڑ لیتا۔ اسے ان تکلیفوں سے گزرتے دیکھ کر وہاں بیٹھے لوگ رونے لگ جاتے۔ہر سال یونان میں اس میلے کا انتظار کیا جاتا تھا کہ اب کی بار لکھاری کس بڑے بادشاہ یا بڑے بندے کی ٹریجڈی ہمیں سٹیج پر دکھائیں گے۔ باقاعدہ یہ ایک بڑا ایونٹ ہوتا اور جس ڈرامہ نگار کا پلے لوگوں کو زیادہ رلاتا اسے انعام ملتا تھا۔جب یونانی لوگ سٹیج پر کنگ ایڈی پس کی ٹریجک کہانی دیکھتے تو زارو قطار رونے لگ جاتے۔ ایک بادشاہ اچانک ایک ٹریجڈی کی وجہ سے خود کو سزا دینے پر تُل جاتا ہے۔ اپنی آنکھیں پھوڑ دیتا ہے اور ریاست سے بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر نکل جاتا ہے۔ وہی بادشاہ جس نے تھیبز ریاست کے لوگوں کو ایک بلا سے نجات دلائی تھی‘ اس کے ماضی کے ایک ٹریجک کام کی وجہ سے اسی ریاست پر اس سے بھی بڑا عذاب آیا ہوا تھا اور دیوتائوں نے اس ریاست کو بچانے کا ایک ہی حل بتایا تھا کہ وہ ریاست چھوڑ کر چلا جائے کیونکہ ماضی میں اس نے جس بندے کو جنگل میں قتل کیا تھا وہ اسی ریاست کا بادشاہ تھا اور اس سے بڑا انکشاف یہ کہ وہ بادشاہ اس کا باپ تھا۔ وہ اپنے باپ کو انجانے میں قتل کر کے بادشاہ بن گیا تھا۔یا کنگ لئیر کی ٹریجڈی دیکھیں‘ کیسے وہ ایک دن بادشاہ ہے اور اگلے روز اپنے ایک غلط فیصلے کی وجہ سے جنگلوں کی خاک چھان رہا ہے۔یہی اگر کسی عام آدمی کا ڈرامہ ہوتا تو لوگ وہ جذباتی رد عمل نہ دیتے جو وہ کسی بادشاہ کی موت یا ٹریجڈی پر دیتے تھے۔ ڈرامہ نگار یہ نفسیات سمجھتے تھے کہ اگر ان عام لوگوں کو افسردہ کرنا ہے اور انہیں رلانا ہے تو پھر بڑے لوگوں کی ٹریجڈی سنانا ہوگی۔ وجہ یہی ہے کہ عام لوگ مشہور اور بڑے لوگوں کو کوئی مافوق الفطرت مخلوق سمجھتے ہیں ‘جن کو عام انسانوں جیسے مسائل نہیں ہوتے۔ سڑک ہو یا جہاز‘حادثات میں روز ہزاروں لوگ مرجاتے ہیں‘لیکن جس طرح لیڈی ڈیانا کے حادثے نے دنیا کو متاثر کیا وہ آپ کے سامنے ہے اور پھر یہی مشہور لوگ ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں۔یہی دیکھ لیں کہ ہزاروں لوگ پھانسی چڑھ گئے ‘ ہمیں کسی کا نام تک معلوم نہیں ہوگا‘ لیکن بھٹو کا پھانسی چڑھنا ایسا عمل ہے کہ جو عام آدمی کے ذہن اور دل سے نہیں نکلتا۔ وجہ یہ تھی کہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ بادشاہ کو پھانسی چڑھایا جا سکتا ہے۔
ابھی عرفان خان اور رشی کپور بھارت میں فوت ہوئے ہیں۔ ان کی موت پر جس طرح کا دکھ اور افسوس پاکستان اوربھارت میں کیا جارہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ فلموں میں ان لوگوں کو ہیروز کے رول ادا کرتے کرتے ہم سمجھ بیٹھتے ہیں کہ انہیں کبھی کچھ نہیں ہوگا کیونکہ یہ عام لوگ نہیں‘ خدا نے انہیں سپیشل پیدا کیا ہے۔ انہیں کوئی بیماری نہیں لگے گی‘ انہیں کینسر نہیں ہو گا اور نہ ہی یہ فوت ہوں گے‘ لہٰذا جب پتہ چلتا ہے کہ انہیں کینسر بھی ہے اور وہ اچانک چل بسے ہیں تو اس کا اثر شدید ہوتا ہے۔ اچانک خوف اور پھر صدمے کی حالت آپ پر طاری ہوتی ہے۔ آپ بھی ڈر جاتے ہیں کہ اگر اتنی خطرناک بیماری نے اسے گھیر لیا ہے تو آپ بھی اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اگر لیڈی ڈیانا کی موت کارحادثے میں ہوسکتی ہے تو پھر کوئی بھی سڑک پر مارا جاسکتا ہے۔اگر عرفان خان کینسر کا شکار ہو کر موت کی وادی میں جا سکتا ہے تو پھر کون بچتا ہے۔ اگر رشی کپور جیسا خوبصورت ہیرو بھی مرسکتا ہے تو پھر زندہ کون رہے گا؟
آپ کو زندگی اچانک بور اور افسردہ لگنے لگتی ہے۔ شاید یہ بادشاہ‘ وزیر اور ہیروز بھی خود کو یقین دلا دیتے ہیں کہ وہ کبھی نہ بوڑھے ہوں گے‘ نہ انہیں زوال آئے گا اور نہ انہیں موت آئے گی۔ عوام بھی ان کے بارے یہی یقین کیے بیٹھے ہوتے ہیں‘ لہٰذا جس دن وہ بادشاہ اور وزیر یا ہیروز کو بھی عام انسانوں کی طرح زوال یا موت کی وادی میں اترتے دیکھتے ہیں تو جہاں افسردگی چھا جاتی ہے وہیں اندر دور کہیں ایک خوف کی لہر بھی جنم لیتی ہے۔جب راجیش کھنہ کی ڈیتھ ہوئی تھی تو ان کے ایک دوست نے کہا تھا کہ کھنہ اپنے عروج پر سمجھتے تھے نہ انہیں کبھی زوال آئے گا اور نہ وہ کبھی بوڑھے ہوں گے‘موت کا خیال تو دور دور تک نہیں تھا۔
ہیروز کی کئی شکلیں ہوتی ہیں‘ چاہے وہ فلمی ہوں یا اصلی زندگی کے۔انسان صدیوں سے اپنے ذہنوں اور دلوں میں موجود ان ہیروز کی ٹریجڈی کا ماتم کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔