یاد پڑتا ہے پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے۔ مظفر گڑھ سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے قیوم جتوئی وزیر تھے۔ پیپلز پارٹی کو پروا نہیں تھی کتنی کرپشن ہو رہی ہے۔ جب پوری حکومت صدر زرداری کے چھ ارب روپے کی منی لانڈرنگ بچانے میں مصروف تھی تو پھر بھلا کس نے کسی وزیر کو روکنا تھا۔ فری فار آل تھا۔ جب بادشاہ کسی باغ کا مفت میں سیب کھائے گا تو فوج پورا باغ اجاڑ دے گی۔ وہی ان دنوں ہو رہا تھا۔
جب پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دو تین ماہ بچ گئے تھے تو یوں لگتا تھا جیسے اسلام آباد غیر ملکی فوج کے نرغے میں آ گیا ہے۔ جس کے ہاتھ جو لگا وہ سمیٹ رہا تھا۔ ای سی سی اجلاس دو دن تک مسلسل ہوئے۔ ان اجلاسوں میں تیس نکات والے ایجنڈے پر بات ہوئی اور زیادہ تر ایجنڈا زرداری کے قریبی ڈاکٹر عاصم حسین کی سمریاں تھیں۔ ان اجلاسوں میں کس نے کیا کمایا وہ الگ کہانی ہے۔ اور تو اور اس وقت کی سپیکر قومی اسمبلی نے‘ جو پہلے ہی چوراسی کروڑ روپے بینک قرضہ معاف اور چالیس لاکھ روپے اپنے کینسر کے علاج پر امریکہ میں عوام کی جیب سے خرچ کرا چکی تھیں‘ سوچا ہو گا‘ اب آخر میں اور کیا ہو سکتا ہے؟ اسمبلی ختم ہونے سے آٹھ دن پہلے خود ہی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کا اجلاس بلایا اور اپنے لئے تا عمر مراعات منظور کرکے نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ جب ہر طرف یہ کلچر تھا تو قیوم جتوئی سے یہ سوال ہوا کہ جناب پیپلز پارٹی ہر طرف مال بنا رہی ہے‘ ہر کوئی جیبیں بھر رہا ہے‘ یہ کیا ہو رہا ہے؟ قیوم جتوئی نے پوری سادگی اور پوری ایمانداری کے ساتھ جواب دیا: جناب کیا ہمارا کرپشن پر کوئی حق نہیں ہے؟ جب سب اس ملک میں کرپشن کرتے آئے ہیں تو اب ہمارے کرپشن کرنے پر آپ لوگوں کو کیا تکلیف ہے؟ ان کا کہنا تھا: اب کرپشن کی ان کی باری ہے۔ ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز چلنا شروع ہو گئیں۔ اس وقت قیوم جتوئی کوئٹہ میں تھے۔ انہیں گیلانی صاحب نے اسلام آباد بلایا اور کہا استعفیٰ دے دیں۔ گیلانی صاحب نے بھولے سرائیکی کو سمجھایا ہو گا‘ پگلے سب جانتے ہیں ہم کیا کرتے ہیں‘ تم بھی کرتے رہتے‘ یہ تمہیں کس نے کہا کہ کیمرے پر یہ باتیں شروع کر دو‘ تمہیں سزا کرپشن کرنے کی نہیں مل رہی بلکہ کرپشن پر سرعام حق جتانے کی وجہ سے دی جا رہی ہے۔
آپ پوچھیں گے آج برسوں پرانی باتیں کیوں یاد آ گئیں؟ وجہ وزیر مملکت داخلہ شہزاد اکبر کی پریس کانفرنس بنی جو ہر ماہ پریس کانفرنس کرنے آجاتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ شریف خاندان کتنا کرپٹ ہے اور کس طرح وہ لوٹتے رہے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ شہزاد اکبر ان دنوں کہاں تھے جب صدر اسحاق خان نے 1993 میں نواز شریف کی اسمبلی توڑی تھی تو فیصل آباد سے ایم این اے زاہد سرفراز کو نگران وزیر داخلہ بنایا تھا۔ مجھے یاد ہے انہوں نے پی ٹی وی پر خاصی دیر تک پریس کانفرنس کی اور قوم کو بتایا تھا شریفوں نے کیسے اس ملک کو لوٹا ہے۔
چند ماہ بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آگئی تو اس وقت رحمن ملک ایف آئی اے کے ڈائریکٹر تھے اور ان کے بارے مشہور تھاکہ 'ناں‘ نہیں کرتے‘ اوپر بیٹھا بندہ بس حکم دے‘ وہ حاضر۔ ان کی یہ خوبی انہیں بہت اوپر لے گئی ہے۔ خیر انہوں نے شریفوں پر کام وہیں سے شروع کیا جہاں چھوڑ گئے تھے۔ لندن فلیٹس پر پوری انکوائری کرائی اور رپورٹ بھی چھاپی کہ شریفوں نے کیسے یہ فلیٹس منی لانڈرنگ سے خریدے تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟
تین سال بعد وہی نواز شریف اور شہباز شریف دوبارہ حکمران تھے۔ اس کے دو سال بعد دونوں بھائی جنرل مشرف کے ہاتھ لگ گئے تو پھر وہی پریس کانفرنس کہ شریفوں نے کتنا لوٹا تھا۔ نیب کے ساتھ ڈیل کی۔ حمزہ شہباز نے نواز شریف کے نام پر چالیس کروڑ روپے کی ادائیگی کی۔ یہ اور بات کہ اقتدار واپس ملتے ہی وہ چالیس کروڑ واپس لے لیے۔ خیر اب بات اگلی نسل تک پہنچ چکی ہے۔ اب حمزہ اور سلمان شہباز کی کرپشن کی داستانیں سن رہے ہیں اور کسی بات پر حیرانی نہیں ہوتی۔ ہاں حیرانی ہوتی اگر شریفوں کی یہ نئی نسل اپنے بزرگوں کی روایات سے بغاوت کرتی۔ جو طریقے سلمان شہباز نے پیسہ بنانے کے ایجاد کیے بندہ حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ نوجوان اپنی ذہانت اس ملک اور معاشرے کی بہتری کیلئے استعمال کرتا تو ہم کہاں کھڑے ہوتے۔ مونس الٰہی ہو یا سلمان شہباز ان سب کی ذہانت اپنی دولت میں اندھا دھند اضافہ کرنے تک محدود ہوکر رہ گئی۔ ان سیاستدانوں کی نئی نسل فراڈ اور کرپشن میں اپنے بزرگوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئی۔
بہرحال جب سے شہزاد اکبر صاحب کی پریس کانفرنس سنی ہے میں سوچ رہا ہوں‘ یہ ڈرامہ کب تک چلے گا؟ ایک طرف شریفوں کی کرپشن کی کہانیاں سنائی جا رہی ہیں‘ ساتھ ہی نیب کے قوانین بدلنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایک مشیر اگر شریفوں کی کرپشن پر لگا ہوا ہے تو ایک وزیر نیب کے نئے قوانین پر کام کررہا ہے تاکہ کرپٹ اشرافیہ کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ وہ آرام سے اس ملک کو لوٹ سکیں۔
ہمیں وزیر روزانہ بتا رہے ہوتے ہیں فلاں بندہ اٹھایا جائے گا‘ فلاں کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ادارے کو خود ان وزیروں کی بڑھکوں سے پتہ چلتا ہے کہ کس کو پکڑنا اور کس کو رہا کرنا ہے۔ چند لوگوں کا خیال ہے کہ نیب کو بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ حکومت کے اپنے وزیروں کو کلین چٹ مل گئی ہیں‘ لیکن کچھ وزیروں کو اب بھی ڈر ہے کہ وہ کابینہ اور ای سی سی میں بیٹھ کر بہت سے ایسے مشکوک کام کر چکے ہیں جو کل کو ان کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں اور ان پر بھی مقدمات بن سکتے ہیں‘ جیسے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ والوں کے خلاف بنے ہوئے ہیں۔ ابھی تک حکومت کے جو چار سکینڈلز سامنے آئے ہیں‘ ان میں خود وزیراعظم کے دوست اور مشیران ملوث ہیں۔ باقی چھوڑیں‘ ایک سو ارب روپے کے شوگر سکینڈل کو ہی دیکھ لیں‘ جس میں بہت سے لوگ پھنس رہے ہیں۔ اگر آج یہ معاملہ دبا بھی دیا گیا تو اگلی حکومت اس کیس کو دوبارہ نکالے گی اور سب پر مقدمے بنیں گے لہٰذا ابھی سے پکا کام کیا جا رہا ہے کہ جب تحریک انصاف کی حکومت نہ رہے تو انہیں کوئی خطرہ بھی نہ رہے۔ نیب کے قوانین میں ایسی تبدیلی کی جا رہی ہے کہ کل کو 'گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزے یار پھرن‘۔ خود کو بچانے کیلئے وہ اب پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے لیڈروں کی کرپشن بھی معاف کرنے کو تیار ہیں لہٰذا تازہ تازہ نیب کی جیل کاٹ کر آئی ایک کاروباری شخصیت کے لاہور میں واقع گھر پر پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے اہم لیڈروں کا خفیہ اجلاس ہوا‘ جس میں انہوں نے نیب کے پر کاٹنے کے حوالے سے تجویزیں دیں تاکہ حکومت کو بھجوائی جا سکیں۔ اندازہ کریں ایک طرف جناب شہزاد اکبر ہمیں شریفوں کی کرپشن کی کہانیاں سنا رہے ہیں اور دوسری طرف ایک اور حکومتی وزیر ان شریفوں اور زرداریوں سے خفیہ مذاکرات کررہا ہے کہ مل کر نیب کو فارغ کرتے ہیں۔ بھائی اگر آپ لوگوں نے نیب کو بیکار کرنا ہے تو پھر یہ کرپشن کی کہانیاںکس کو سنا رہے ہیں؟ اب اپنی باری لگنے لگی ہے اور عمران خان کے قریبی دوستوں، وزیروں اور مشیروں کے چار سکینڈلز اس حکومت کو ہانٹ کر رہے ہیں فوراً پلان بن گیا کہ کیسے نیب کے پر کاٹنے ہیں۔
ایک طرف سرعام پریس کانفرنس اور دوسری طرف خفیہ ملاقاتیں۔ اب ادویات ، شوگر، بجلی گھروں اور گندم سکینڈل میں ملوث قریبی دوستوں، وزیروں اور مشیروں کی کرپشن کا بوجھ محاورتاً اونٹ کی کمر پر پڑا ہے تو وہ بلبلا اٹھا ہے۔
پوری قوم اور میڈیا قیوم جتوئی سے ناراض ہوگئے تھے کہ کیوں کہا: کرپشن پر سب پارٹیوں کا حق ہے۔ ویسے آج کل جو یکے بعد دیگرے سکینڈلز سامنے آئے ہیں‘ عوام کی کھال کھینچ لی گئی ہے اور کسی وزیر‘ مشیر کا بال بھی بیکا نہیں ہوا، تو آپ کو نہیں لگتا قیوم جتوئی نے غلط بات نہیں کی تھی کہ کرپشن پر سب کا حق ہے۔
سادہ لوح جتوئی کو پتہ نہیں تھا ایسی باتیں ٹی وی کیمروں سامنے نہیں کی جاتیں۔ سزا تو بنتی تھی جو جتوئی کو مل کر رہی‘ ورنہ لوٹ مار میں حصہ پچھلے حکمرانوں نے بھی خوب لیا اور رعایت موجودہ بھی نہیں کر رہے!