"SG" (space) message & send to 7575

سیلاب کی صورتحال اور گورننس کا بحران

ملک عزیز میں رواں برس ہونے والی شدید بارشوں اور سیلاب نے بڑی تباہی مچائی ہے۔ ان تباہ کاریوں کے نتیجے میں سیلاب زدہ علاقوں کا انتظامی اور معاشی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور عوام کسمپرسی کا شکار ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق حالیہ سیلاب سے 45 سے 50 لاکھ افراد اور تقریباً پانچ ہزار دیہات براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ رواں برس 26 جون سے اب تک ایک ہزار سے زائد افراد بارشوں اور سیلاب کے باعث ہونیوالے حادثات میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ 2022ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد مستقبل میں سیلابوں سے نمٹنے کیلئے حکومتی سطح پر بہت سے اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا‘ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ سیلاب سے نمٹنے کیلئے جو ضروری اقدامات کرنے اور منصوبے بنانے تھے‘ ان میں ہم ناکام رہے ہیں۔ یہ گورننس کے نظام کی ناکامی ہے کہ ہم سیلاب سے پہلے اور بعد کے غیرمعمولی حالات میں اپنی سیاسی اور انتظامی صلاحیتوں کی بنیاد پر وہ کام نہیں کر سکے جو کرنے چاہئیں تھے۔ اگرچہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کچھ اقدامات کیے بھی گئے اور سیلاب متاثرین کی ہر سطح پر مدد بھی کی جا رہی لیکن اسکے باوجود انکی تکالیف دور ہوتی نظر نہیں آتیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اور صوبائی کابینہ کے ارکان سیلاب متاثرین کی مدد کرنے کیلئے سیلاب زدہ علاقوں میں موجود ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے۔ سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال غیرمعمولی ہے اور ہمیں اس سے نمٹنے کیلئے بہت سے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ متاثرین کی بروقت مدد کی جا سکے۔
این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے بھی اپنی سطح پر اقدامات کررہے ہیں‘ہمیں لیکن یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ملک کے مجموعی گورننس کے نظام میں اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔ بالخصوص بیوروکریسی یا انتظامیہ اور ضلعی ڈھانچوں میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات لائے بغیر سیلاب سمیت دیگر قدرتی آفات سے نمٹنا ممکن نہیں ہو گا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو علاقے سیلاب سے متاثر ہوئے وہاں مقامی انتظامیہ بروقت وہ اقدامات نہیں کر سکی جن کی ضرورت تھی۔ بیوروکریسی‘ بالخصوص ضلعی انتظامیہ میں سیلاب یا کسی بھی قدرتی آفت سے نمٹنے کی جو صلاحیت ہونی چاہیے تھی اس کا فقدان نظر آتا ہے۔ خدشہ ہے کہ سیلاب کی وجہ سے آنے والے دنوں میں ملک میں خوراک کا بحران‘ ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کا ایک نیا طوفان دیکھنے کو ملے گا۔ زرعی شعبے کو حالیہ سیلاب سے جو نقصان پہنچا ہے‘ اس کا فوری ازالہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ملک کے مجموعی انتظامی ڈھانچوں میں تبدیلیاں لانا ہوں گی اور یہ سمجھنا ہو گا کہ ہم سیلاب سے نمٹنے میں ناکام کیوں ہوئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ہمیں ایک قدرتی آفت کا سامنا ہے‘ دنیا کے بیشتر ملکوں کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ لیکن ان حالات سے نمٹنے کیلئے حکومتی سطح پر جو بروقت اقدامات درکار ہوتے ہیں ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر آج بلدیاتی اداروں کا ایک مضبوط نظام موجود ہوتا تو ہم زیادہ بہتر انداز میں اس آفت سے نمٹ سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے سیاسی ماہرین ملک میں گورننس کے نظام کی بہتری کیلئے نئے صوبوں سمیت بلدیاتی اداروں کی مضبوطی پر زور دیتے ہیں۔ ان کے مطابق گورننس کے موجودہ نظام میں نئے صوبے اور بلدیاتی اداروں کے نظام کو مضبوط بنائے بغیر قدرتی آفات سے نمٹنا بہت مشکل ہے۔ اس کیلئے ہمیں طویل مدتی منصوبوں کی طرف توجہ دینا ہو گی۔ یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب وفاقی اور صوبائی حکومتیں غیرضروری ترقیاتی اخراجات کے بجائے قومی نوعیت کے مسائل پر توجہ دیں۔ حکومت تنہا ملک کو لاحق موسمیاتی خطرات سے نہیں نمٹ سکتی‘ اس کیلئے غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پرضلعی سطح پر قائم ڈی ڈی ایم اے کو مضبوط بنانا ہو گا تاکہ زیادہ بہتر انداز میں سیلاب جیسی آفات سے نمٹا جا سکے۔ یہ کوشش بھی ہونی چاہیے کہ سیلاب متاثرین کی مدد اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کیلئے جو عالمی امداد آتی ہے‘ اسے شفاف طریقے سے استعمال کیا جائے اور ایسے منصوبے بنائے جا سکیں جن سے مستقبل میں قدرتی آفات سے نمٹنے میں آسانی ہو۔ اسی طرح دریاؤں کے کنارے بننے والے گھروں یا ہاؤسنگ سکیموں کے بارے میں بھی ایک نئی پالیسی بنانا ہو گی تاکہ مستقبل میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا جا سکے۔
حالیہ سیلاب کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب اور صوبائی وزرا کی انتھک محنت سے یقینی طور پر ریسکیو اور ریلیف کے اقدامات میں بہتری آئی ہو گی‘ لیکن حکومتی نمائندوں کیلئے ہر جگہ پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ حکومت کے پاس ایک مضبوط انتظامی ڈھانچہ ہونا چاہیے جو آگے بڑھ کر سیلاب متاثرین کی مدد کر سکے۔ اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ جن علاقوں میں وزیراعلیٰ یا وزرا جاتے ہیں وہاں وقتی طور پر تو انتظامی مشینری اور افسران متحرک ہو جاتے ہیں لیکن جیسے ہی حکومتی اراکین وہاں سے رخصت ہوتے ہیں تو انتظامیہ پھر سے غیرسنجیدہ طرزِ عمل کا مظاہرہ کرنے لگتی ہے۔ جب تک حکومتی سطح پر انتظامی افسران کی مؤثر جوابدہی کا نظام نہیں ہو گا‘ ان کی کارکردگی بہتر نہیں ہو سکتی۔ حکومت کو ان معاملات پر خصوصی توجہ دینا ہو گی اور اس تاثر کی نفی کرنا ہو گی کہ حکومتی کمزوری کی وجہ سے بیوروکریسی اور انتظامیہ اپنی من مانی کرتے ہیں۔ بیوروکریسی کے اس رویے کی وجہ سے عوام کے مسائل روز بروز بڑھتے جا رہے اور وہ مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں۔گورننس کے نظام کی بہتری کیلئے حکومت سیاسی اور انتظامی اصلاحات کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائے‘ کیونکہ جب تک اداروں میں اصلاحات یقینی نہیں بنائی جائیں گی تب تک اداروں کی مؤثر کارکردگی سامنے نہیں آ سکے گی۔ صوبائی حکومتیں اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرکے مقامی انتظامی ڈھانچوں کو مضبوط بنا سکتی ہیں۔ ماضی کے سیلاب ہوں یا حالیہ سیلاب‘ اس دوران جو انتظامی کمزوریاں سامنے آئی ہیں ان کا تجزیہ ہونا چاہیے اور انہی بنیادوں پر مستقبل کی منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔ ملک عزیز میں سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ حالات کے پیش نظر ہمیں اپنے انتظامی ڈھانچے کو یکسر تبدیل کرنا ہو گا اور یہ صرف جامع اصلاحات سے ممکن ہے۔ اگر ہم ماضی کے طور طریقوں پر ہی آگے بڑھنا ہے تو پھر کوئی بہتری ممکن نہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ گورننس کے مسائل بڑھنے سے عام آدمی متاثر ہو رہاہے۔ ملک میں جو چھوٹے یونٹس یا نئے صوبوں اور بلدیاتی اداروں کی بات چل رہی ہے‘ اسکی وجہ یہی ہے کہ عوام کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور انکو لگتا ہے کہ ان مسائل کا حل موجودہ نظام میں ممکن نہیں۔
انتظامی ڈھانچے کی کمزوریوں کی وجہ سے حکومت کو بھی مسائل کا سامنا ہے۔ اس لیے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور ایک ایسے نظام کی طرف بڑھنا چاہیے جس پر لوگوں کا اعتماد ہو اور ان کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہو سکیں۔ اصل میں حالیہ سیلابوں نے ہمارے انتظامی ڈھانچے کو بے نقاب کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ انتظامی سطح پر تبدیلیوں پر زور دے رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مستقبل کیلئے ایسی پالیسیاں یا منصوبے بنائیں جن سے لوگوں کے مسائل کم ہوں اور اگر ان کو کسی قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑے تو انہیں یہ یقین ہو کہ حکومت عملاً ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ لیکن اگر حکومتی جماعتوں نے اپنا طرزِ عمل نہ بدلا اور عوامی معاملات میں کوتاہی جاری رہی تو اس سے سیاسی نظام کی اہمیت اور وقعت مزید کم ہو جائے گی۔ جب لوگ نظام کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو بیشتر سیاستدان‘ بالخصوص اقتدار میں شامل جماعتیں ناراض ہو جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ نظام تو ٹھیک چل رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کا نظام ٹھیک سے نہیں چل رہا کیونکہ ان کے مسائل میں مسلسل اضافہ جاری ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم باہمی مشاورت سے ایک ایسے نظام کی طرف قدم بڑھائیں جو ملک اور عوامی مفادات کی درست طور پر ترجمانی کر سکے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں