"SUC" (space) message & send to 7575

کتنی آساں ہے صبر کی تلقین

ورجینیا وولف کا مشہور جملہ ہے:
Let the dust of emotions settle down.
اور شاعر نے کہا: ع
یہ گرد بیٹھ جائے تو رستہ دکھائی دے 
عمران خان کی حکومت کو سوا سال کے قریب ہوچلا‘ لیکن نہ رستہ دکھائی دے رہا ہے‘ نہ گرد بیٹھ رہی ہے۔اتنا ضرور ہے کہ عمران کے پکے حامیوں کے جوش و خروش میں دھیما پن آنے لگا ہے۔ظاہر ہے کہ زمینی حقائق صرف جذبات سے چھپ نہیں سکتے‘لیکن یہ حامی ابھی عمران خان سے امیدیں جوڑے ہوئے ہیں ۔وہ حمایت سے دستبردار نہیں ہوئے اور جنرل اسمبلی میں عمران خان کی پرجوش ‘پر اثر اور ولولہ انگیز تقریر نے ان کی وابستگی میں ایک نئی جان بھی ڈال دی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ اس کا اثر کتنا دیرپا ہوتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن اسلام آباد پہنچنے کا اعلان کرچکے ہیں اور ان کی تحریک کا مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی بھی اپنے اپنے طریقِ کار‘ اپنے تحفظات کے ساتھ‘ لیکن اپنے اپنے فائدے کے لیے حمایت کا اعلان کرچکی ہیں‘لیکن یہ حمایت ایسی چلمن کی طرح ہے ‘جس میں صاف چھپتے بھی نہیں‘ سامنے آتے بھی نہیں‘کے جملہ اوصاف موجود ہیں۔یہ نیم اتحاد کیا مقاصد حاصل کرسکے گا‘ اس پر بہت بات ہوسکتی ہے‘ لیکن وہ کسی اور کالم میںسہی۔آج تو عمران خان کی تیرہ ماہی حکومت کے مثبت یا منفی پہلوؤں پر ایک نظر ڈال لیں۔
میرے خیال میں جس چیز نے اس حکومت کو اب تک سب سے زیادہ مضبوطی سے سنبھال رکھا ہے‘ وہ عمران خان کی نیک نیتی پر عام لوگوں کا اعتماد ہے۔میں عام لوگوں میں ان کے کٹر مخالف اور سیاسی جماعتیں شمار نہیں کر رہا۔ایک عام آدمی وہ ہے ‘جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہ ہونے اور ہر ایک سے باری باری مایوس ہونے کے باوجود ملکی حالات میں بہتری کا خواہش مند ہے‘ خواہ یہ بہتری کسی بھی شخص کے ذریعے آئے۔اس عام آدمی کو عمران خان میں ایک نیک نیت رہنما نظر آتا تھا اور بے شمار توقعات ٹوٹنے کے باوجود اب تک نظر آتا ہے۔یہی عمران خان کی مضبوطی کا سب سے بڑا ستون ہے۔ اقوام متحدہ میں خان صاحب کی بہت موثر اور بے باک تقریر نے اس اعتماد میں اور اضافہ کیا؛ حالانکہ اس کا براہ راست تعلق ملکی مسائل سے نہیں تھا۔یہ بات بھی طے ہے کہ تحریک انصاف سے عمران خان کو منفی کردیا جائے تو مرکزی سطح پر شاہ محمود قریشی‘ اسد عمر جیسے رہنماؤں کے ہوتے ہوئے پارٹی کا کوئی اثر عوام میں نظر نہیں آتا۔ ساری پارٹی ایک شخص اور ایک محور سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔کسی بھی پارٹی کی یہ ناکامی شمار ہونی چاہیے کہ وہ سربراہ کے علاوہ کوئی متبادل قیادت نہیں رکھتی ۔(ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی شخصیات اس حوالے سے بہتر ہیں۔
نیک نیتی پر جس اعتماد کا اوپر میں نے ذکر کیا اگر وہ نہ ہوتا تو جس طرح مہنگائی‘ ٹیکسز ‘کاروباری جمود اور بے روزگاری سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں‘ لوگ چند ماہ بعد ہی سڑکوں پر آگئے ہوتے۔سچ یہ ہے کہ ہر آدمی یہی کہتا نظر آتا ہے کہ ایسے برُے حالات پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ کاروباری طبقہ خوفناک حالات کا شکار ہے ۔شاید اس سے زیادہ کساد بازاری کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔روزمرہ استعمال کی اشیا کی مہنگائی تین طرح سے بڑھی ہے‘ڈالر کی قیمت ‘اضافی ٹیکسز اور ناقص گورننس۔جو ادارے مثلا یوٹیلٹی سٹورز اس بنیاد پر وجود میں آئے تھے کہ وہ عوام کو کچھ ریلیف دے سکیں‘ وہ اس بنیاد پر ختم یا غیر فعال کردئیے گئے ہیں کہ وہ خسارے میں ہیں‘ اس لیے ملکی خزانے پر بوجھ ہیں؛چنانچہ اب ایک عام آدمی یا تو حکومت کو برا بھلا کہہ رہا ہے یا رو رہا ہے۔جو اِن دونوں مراحل سے آگے گزر چکے ہیں‘ ان کے پاس کرنے کو کچھ اور نہیں ہے کہ جن لوگوں نے روز کنواں کھود کر پانی پینا ہوتا ہے ‘اب ان میں یہ کنواں کھودنے کی سکت ہی نہیں رہی ہے۔
عمران خان کی ٹیم کی طرف دیکھیں تو مایوسی اور بڑھ جاتی ہے۔وزیر اعظم کی خصوصی مشیر برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان ہیں۔اگر زبان خلق کو نقارہ ٔخدا سمجھا جائے تو ان کے متعلق ایک بھی مثبت رائے خوردبین سے بھی سوشل میڈیا پر نہیں ڈھونڈی جاسکتی۔ریلوے کے وزیر شیخ رشید ہیں‘لیکن ریلوے کا حال وہ ہے کہ الامان الحفیظ۔ لاہور‘ کراچی سفر کے ایک تجربے میںلاہور پلیٹ فارم پر صفائی کی ناقص صورت حال‘ ویٹنگ روم کے ناگفتہ بہ حالات اور ٹرین کی گھنٹوں تاخیر نے سب حال کھول کر رکھ دیا۔سعد رفیق صاحب بہتری لائے تھے۔سب کو نظر آرہا تھا کہ یہ کام شیخ رشید صاحب کے بس کی بات نہیں۔فواد چودھری صاحب اپنی طبیعت اور چرب زبانی کے باوجود کسی وزارت میں کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکے۔کچھ عرصہ قبل ایک صحافی کو ایک تقریب میں سر عام تھپڑ مار کر اپنی قوتِ برداشت کا حال بھی طشت از بام کردیا۔ حاجیوں کی زبانی جو شکایات سننے میں آرہی ہیں ‘وہ وزارت حج پر بھی کئی سوالیہ نشان لگاتی ہیں۔حفیظ شیخ ‘عبد الرزاق داؤد ‘شبر رضا زیدی ‘حماد رضا‘ عشرت حسین۔ان سب سے اعداد و شمار کے گنجلوں کے علاوہ کبھی امید افزا بات سننے کو نہیں ملی اور اپنے اپنے شعبوں کے یہ ماہرین اب صرف نام ہیں۔جس میرٹ کے دعوے کیے جاتے تھے‘اسے سوچ کر وہ مصرعہ یاد آتا ہے کہ ع
کہاں ہے کس طرف کو ہے کدھر ہے
حال یہ ہے کہ (ن) لیگ کے دورِ اقربا پروری میں تعینات شدہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ کو اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین کی اضافی ذمے داری بھی سونپ دی گئی ہے ‘گویا پورے ملک میں ایک بھی فرد اس قابل نہیں ہے کہ وہ اس عہدے پر فائز ہوسکے۔سچ یہ ہے کہ میرٹ کی بات کی جائے ‘تو وزارتیں آدھی رہ جائیں۔
عثمان بزدار صاحب کی کارکردگی خود پی ٹی آئی کے حامیوں کے نزدیک بھی صفر ہے۔وہ نئے منصوبے تو کیا شروع کرتے‘ پچھلے دور کا 95 فیصد مکمل شدہ اورنج ٹرین تک کا منصوبہ چالو نہیں کرسکے۔وزیر صحت کی ایک تحریر اخبارات میں چھپی ہے ‘جس میں پنجاب کے محکمہ صحت کی کارکردگی اور صحت کارڈ کے منصوبے کی تفصیل بیان کی گئی ہے‘ لیکن ایک تو عوام کو تحریروں سے نہیںزمینی حقائق سے ریلیف ملتا ہے‘دوسرے سوشل میڈیا کی مبالغہ آمیز یا فرضی خبروں کو ایک طرف رکھ دیا جائے ‘تب بھی یہ بات نظر آتی ہے کہ محکمے نے سرکاری ہسپتالوں میں غریب آدمی کے لیے خرچ اور مشکلات دونوں میں اضافہ کردیا ہے ۔وزیر صحت سے اچھی توقعات تھیں ‘لیکن ......۔
ایسے میں ایک رجائیت پسند آدمی روز وہ خبریں اوروہ نکات تلاش کرتا پھرتا ہے ‘جو اُمید افزا ہوں اور کسی کسی دن ایسا کوئی ٹانک دستیاب ہی نہیں ہوتا۔جو باتیں حکومت کے حق میںجاتی ہیں ‘ان میں ایک تو کسی بڑے کرپشن کیس کا سامنے نہ آنا‘امن و امان کی عام صورت حال میں ابتری نہ آنا‘حکومت کو اس بات کا ادراک ہونا اور وقتا فوقتا ذکر کرنا کہ عام آدمی مشکل دور سے گزر رہا ہے وغیرہ ہیں‘لیکن اس وقت تک حکومت کے حق میں سب سے بڑا پوائنٹ یہی ہے کہ ابھی سوا سال ہوا ہے ۔ کام کا آغاز ہوا ہے۔حوصلہ کریں۔ثمرات ملیں گے۔ ع
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
لیکن وقت کا کیا ہے گزرتا ہے ‘ گزر جائے گا۔ یہ گزر جائے گا تو پھر حق میں کیا بات رہ جائے گی ۔ اے فوج وزرا و مشیران! کیا اگلے سال اکتوبر کا سوچا ہے ؟ حال ہی میں ایک لنگر خانے کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے قوم کو صبر کی تلقین کی ہے ۔حضور !کیا اگلے سال بھی آپ قوم کو صبر کی تلقین کر رہے ہوں گے ؟کیا آپ کو علم ہے؛؎ 
کتنی آساں ہے صبر کی تلقین 
کتنا مشکل ہے دل پہ سل رکھنا

 

 

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں