"SUC" (space) message & send to 7575

یہ موسم اپنی نوخیزی میں پہلے پیار جیسا

رات گئے کسی وقت گھبرا کے آنکھ کھلی۔ بخار نے پھر جسم میں پنجے گاڑ لیے تھے۔ پھنکتے جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔ وقت دیکھا تو تین بج رہے تھے۔ کھلے دریچے سے آتی سرد ہوا اچھی لگ رہی تھی۔ تنہائی میں خود سے ہی مشورہ کیا جا سکتا تھا۔ اب مجھے فکر ہو گئی تھی کہ اس کی وجہ سے سفر غارت نہ ہو جائے۔ میرے پاس جو دوائیں تھیں وہ بیکار تھیں اور ان سے وقتی فائدہ ہورہا تھا۔ ''یہ بخار آخر میری جان کیوں نہیں چھوڑ رہا۔ اگر اس وقت کوئی ڈاکٹر مل جائے تو اس سے دوا لیتا ہوں۔ صبح تک بہتر ہو جائے گا ورنہ کل کا دن بھی بستر پر ہی گزرے گا اور محدود وقت کی یہ رائیگانی ہمیشہ بری لگتی رہے گی‘‘ میں نے سوچا‘ بستر سے نکلا‘ جیکٹ پہنی اور باہر آیا۔ ہوٹل کی لابی میں سب رات کی میٹھی نیند کے مزے لے رہے تھے‘ کسی سے ڈاکٹر کا پتہ کیسے پوچھیں؟ میں ہمت کرکے ہوٹل سے باہر گلی میں آ گیا۔ باہر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی‘ لیکن ایسی تیز نہیں کہ پیدل چلنا مشکل ہو جائے۔ گلی سو قدم کے فاصلے پر سلطان احمد کی مرکزی سڑک پر کھلتی تھی۔ دکانیں بند تھیں‘ اور جو اکا دکا ہوٹل کھلے تھے وہ بھی بند کیے جا رہے تھے۔ کچھ دیر پہلے سڑکوں پر موجود سیاحوں کے غول آرام کے لیے کمروں میں جا چکے تھے اور خال خال کوئی سڑک پر دکھائی دے رہا تھا۔ میں کسی فارمیسی یا ڈاکٹر کی تلاش میں تھا‘ لیکن کوئی دکان کھلی نظر نہیں آرہی تھی۔ اب تک یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ مجھے زیادہ دکانوں کی تلاش میں آیا صوفیہ کی مخالف سمت میں جانا چاہیے۔ میں چلتا رہا حتیٰ کہ دواؤں کی ایک دکان کھلی نظر آ گئی۔ محاورہ پرانا سہی لیکن ہے بالکل ٹھیک۔ زبانِ یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔ لیکن اس بھلے مانس کی مہربانی کہ اس نے فون پر ایک ڈاکٹر سے رابطہ کروا دیا جو انگریزی جانتا تھا۔ اس نے کچھ دوائیں تجویز کیں اور ان کی پہلی خوراک نگل کر میں دکان سے باہر آ گیا۔
بارش تیز ہو گئی لیکن سٹریٹ لائٹس کی سنہری اور روپہلی روشنیوں میں اس کی چمکتی دھاریں گرتی نظر آرہی تھیں اور ہوا کے تیز جھونکے ان دھاریوں کو آڑے ترچھے لہریوں میں جھلملا رہے تھے۔ میں ایک بنچ پر بیٹھ گیا اور یہ منظر دیکھتا رہا۔ بارش کے ترنم سے خوب صورت آواز بھی کوئی ہو سکتی ہے؟ اور گرتی چمکتی بوندوں سے زیادہ خالص اور مزے کا مشروب بھی کوئی تیار کر سکتا ہے؟ میں نے ایک ہتھیلی کا چلو بنا کر اس میں یہ مشروب اکٹھا کیا اور پیا۔
آپ بے شک اسے فضول بات سمجھ لیں لیکن کیا فرق پڑتا ہے۔ سچ تو سچ ہے۔ جو مختلف کیفیات مجھ پر شاعری کا موسم اتارتی رہی ہیں‘ ان میں بخار کی کیفیت بھی ہے۔ زندگی میں پہلی مکمل غزل بھی بخار میں ہی لکھی تھی۔ اسی طرح سفر شاعری کی بارش لے کر آتا ہے اور تنہائی بھی۔ اداسی تو خیر ہے ہی ان کیفیات کی ماں۔ میں بنچ پر بیٹھا بارش کے کم ہونے کا انتظار کر رہا تھا کہ یہ سارے موسم یکجا ہو گئے۔ مصرعے اترنے شروع ہوئے۔ ایک اور بارش شروع ہوئی اور ایک غزلِ مسلسل کی اپنی زمین لے کر۔ 
طلسمی گیت جیسا، ریشمی مہکار جیسا
یہ منظر چار جانب دُودھیا دیوار جیسا
جھجکتا اور لب کرتا معطر بوسۂ تر
یہ موسم اپنی نوخیزی میں پہلے پیار جیسا
نکھرتا آ رہا ہے نقرئی بلّور کوئی 
اُترتا جا رہا ہے روح سے زنگار جیسا
زباں پر ذائقے انجیر اور زیتون جیسے
ہوا میں رس کسی مشروبِ میوہ دار جیسا
شعر اترنے کی کیفیت کے ساتھ میرے معاملے میں ایک اور بات جڑی ہوئی ہے۔ میں اس کیفیت میں کسی جگہ بیٹھ نہیں پاتا۔ مجھے چلنا ہوتا ہے۔ بے سمت اور بے تعین۔ جتنی خود سر کیفیت ہو گی، جتنا زورآور موسم ہوگا‘ اتنا ہی مجھے چلنا ہوتا ہے۔ سڑکوں پر، باغوں میں، گھر کی چھت پر، لان میں۔ کہیں بھی جہاں چلا جا سکے‘ اور اس وقت میرے ساتھ کوئی ہونا نہیں چاہیے۔ میں بنچ سے اٹھا اور بارش میں بھیگتا ہوا چلنے لگا۔ اب بخار کی کیفیت پر یہ کیفیت غالب آ چکی تھی۔ تھکتی ٹانگوں اور ٹوٹتے جسم کے ساتھ میں چلتا رہا کیونکہ میں اس اترتے مہمان کی ناقدری نہیں کر سکتا تھا۔
یہ نیلے مرمرا کے تھال میں خود رَو زمرّد
جزیروں پر بسا اک شہر کوئے یار جیسا
سنہرے خواب کے ماضی سے آتی باسفورس
گزرتا وقت بھی گزرے ہوئے ادوار جیسا
کسی ترشے ہوئے ہیرے کی صورت قصرِ ابیض
ہلالِ شاخِ زرّیں‘ خنجر خم دار جیسا
پہاڑی پر بنے مسکن، کلاہِ سرخ پہنے 
یہ قصبہ لاجوردی نقرئی اشجار جیسا
کسی پاشا کے نام سے منسوب ایک مسجد کے قریب کھڑنجی اینٹوں کی ایک پراسرار سی قدیم گلی نے مجھے آواز دی۔ میری طرح بارش میں بھیگتی یہ گلی سنسان اور اکیلی تھی۔ یہ گلی آگے چل کر گھومتی گھامتی میرے ہوٹل کی گلی کے قریب جا نکلتی تھی۔ میں نے کچھ دیر بعد خود کو اپنے ہوٹل کے دروازے پر پایا۔ لیکن میں کمرے میں جاکر کیا کرتا۔ اور اس کیفیت کا کیا کرتا۔ تھکن اتنی تھی کہ میں شاید سڑک پر ہی گر پڑوں لیکن یہ غزلِ مسلسل مجھے گرنے بھی کہاں دیتی تھی۔ میں آگے بڑھ کر پھر سلطان احمد کی سڑک پر نکل آیا۔ اس بار گل ہانے کی طرف۔
طلائی فرغلوں میں صبح کرتا شہر خوباں
منقش آئنے جیسا، مرصع ہار جیسا
وصال و ہجر کے ملتے ہوئے دو برِّاعظم
مہک اس پار جیسی، فاصلہ اُس پار جیسا
جمال یار تیری مدح کب ممکن ہوئی ہے
سو میں بھی کر رہا ہوں بن پڑے اظہار جیسا
صبح کے قریب مجھے لگا کہ اس غزل نے خود کو مجھ سے کہلوا لیا ہے، اب بس اس کی تراش خراش باقی ہے اور وہ بھی بہت کم۔ اور یہ کام بعد میں بہتر طریقے سے ہوسکتا ہے۔ میں ہوٹل واپس آیا اور بے دم ہوکر بستر پر گر پڑا۔ اب ایک ایسی نیند فوری ضرورت تھی جس میں ناشتہ بھی مخل نہ ہو۔
اور اب میں اس نتیجے پر پہنچتا جا رہا ہوں
بہت آسان ہونا ہے بہت دشوار جیسا
یہ گھر عثمانیوں کا، یہ نگر عثمانیوں کا 
سعود ان کا بھی دلبر ہے مرے دلدار جیسا 
صبح کہاں بھئی، دوپہر کو آنکھ کھلی۔ نیند پوری ہو چکی تھی لیکن حسب توقع ناشتے کا وقت بھی پورا ہو چکا تھا اور بھوک لگنی شروع ہوچکی تھی۔ دوا کارگر ہوئی تھی۔ بیٹا! اب اپنی آوارہ گردی بھگتو۔ اب اپنے پلے سے کہیں سے کچھ کھاؤ پیو اور دن ضائع کرنے کے بجائے آیا صوفیہ اور نیلی مسجد کا رخ کرو۔ ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ ''استاد سلیم! تمہاری بوہنی کا وقت آ گیا ہے۔ خوش ہو جاؤ‘‘۔ 
''استاد سلیم کوفتے جی‘‘ (ustad salim koftiji) سلطان احمد میں مشہور دکان ہے۔ کوفتے‘ جسے ترکی میں چوفتے کہتے ہیں‘ اس کی خاص ڈش ہے۔ شاید سو سال سے زیادہ مدت سے اسی جگہ یہی کام کئی نسلوں سے چلا آرہا ہے۔ کوفتوں سے مغالطہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ دنبے یا بکرے کے گوشت کی چوکور ٹکیوں جیسے کباب ہیں۔ کچھ کچھ ہمارے چپلی کباب کی طرح لیکن بہت لذیذ۔ چٹنیوں‘ لمبی لمبی ابلی ہوئی ہری مرچوں کی سلاد اور آئران یعنی لسی کے ساتھ۔ اور بعد میں ترکی قہوہ۔ کیا مزے کا کھانا ہے بھئی۔ ایک بار کھاؤ تو دوسری بار کی ہوس رہ جائے۔ میرے معاملے میں تو چوتھی پانچویں بار کی ہوس بھی بدستور ہے۔
شکم سیری ہو جائے تو نظر ادھر ادھر بھی گھومنے لگتی ہے۔ ریسٹورنٹس کی دیواروں پر جہاں تاریخی سیاہ و سفید تصویریں آویزاں تھیں، ایک میز پر ایک ایرانی نوجوان جوڑا بیٹھا تھا اور میری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ مجھے کچھ الجھن سی ہوئی اور وجہ سمجھ نہیں آئی۔ کچھ دیر بعد مرد اٹھ کر میرے پاس آیا اور اپنا تعارف کروایا۔ یہ لوگ پہلی بار استنبول آئے تھے، اکیلے تھے‘ اس علاقے میں گھومنا چاہتے تھے اور پیشہ ور گائیڈز سے گھبراتے تھے۔ میرا ارادہ بھی گھومنے پھرنے کا تھا‘ سو ہم نے اکٹھے ہی استاد سلیم کوفتے جی کو خیرباد کہا۔ چل بھئی سعود عثمانی۔ رخ تیرا آیا صوفیہ کی طرف۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں