بی جے پی کی خون آشامی نے شہریت کے اس معاملے کو اٹھا لیا۔ اس قانونی آڑ میں مسلمانوں کو برباد کرنے کی گنجائش موجود تھی۔ ان کا گمان تھا کہ وہ مسلمانوں کو، جو پہلے ہی بی جے پی کے ووٹرز نہیں ہیں، ملک بدر کر دے گی، اور آسام میں ان کی بڑھتی ہوئی تعداد پر زنجیریں ڈال دے گی؛ چنانچہ انہوں نے مقامی ہندوؤں کے ساتھ مل کر شور مچانا شروع کر دیا کہ غیر ملکیوں کی تعداد 80 لاکھ ہے اور اتنی بڑی تعداد میں بنگالی مسلمان اس خطے کی آبادی اور ثقافت کا تناسب تبدیل کر رہے ہیں۔ یہ واویلا کیا گیا کہ آبادی کا تقریباً 34 فیصد ''باہری‘‘ یعنی غیر ملکی ہیں۔ بی جے پی کی شیلا دتیہ نے کہا کہ وہ ایک اور جموں و کشمیر نہیں چاہتے‘ جبکہ سچ بات یہ تھی کہ غیر ملکی مسلمان کا شور محض تعصب کی بنیاد پر پروپیگنڈا اور سیاسی مفادات کا کھیل تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ تقسیم کے بعد اتنی بڑی تعداد میں کبھی مسلمان آسام میں آئے ہی نہیں تھے۔
این آر سی کی آخری فہرست میں ٹھیک ٹھیک اعداد و شمار کے مطابق 3,11,00004 لوگوں کو شامل کیا گیا اور 19,06,657 لوگ فہرست سے باہر ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک وکیل کے مطابق ان میں سے 5 لاکھ وہ ہیں جنہوں نے کاغذات جمع ہی نہیں کرائے۔ غالب گمان یہ ہے کہ وہ فوت ہو چکے ہیں۔4 لاکھ ڈی ووٹرز (ڈی ووٹرز وہ لوگ ہیں جن کا ووٹ مشکوک ہے) اور اعلانیہ غیر ملکی ہیں۔ بقیہ 10 لاکھ میں 60 فیصد سے 70 فیصد غیر مسلم ہیں۔ مسلمان 3 سے 4 لاکھ کی تعداد میں ہیں۔ مسلمان خوش ہوئے کہ ان کا مؤقف درست ثابت ہوا۔ جو ہنگامہ مسلمانوں کا نام لے کر بپا کیا جاتا تھا ان اعداد و شمار نے اس کی ہوا نکال دی۔
گویا 19 لاکھ افراد آسام میں وہ ہیں جن کے پاس شہریت کا ثبوت نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں انجام کار یہ لوگ وہ ہوں گے جن کا کوئی وطن نہیں ہو گا اور جن کے کوئی حقوق نہیں ہوں گے۔ بی جے پی کے لیے ایک طرف اس بات کی وضاحت دینا مشکل ہو رہا ہے کہ یہ تعداد‘ جو وہ 80 لاکھ بتاتے تھے، انیس لاکھ کیسے رہ گئی؟ دوسرے یہ کہ ان میں بھی تمام مسلمان نہیں ہیں۔ تیسری اور بنیے کے لیے اہم ترین بات یہ کہ اس فہرست سازی پر جو رقم خرچ ہوئی‘ وہ بہت بڑی یعنی سولہ ہزار کروڑ روپے ہے۔ 55 ہزار لوگ پانچ سال دن رات فہرست سازی میں لگے رہے۔ ایک الگ تماشا یہ ہے کہ بے شمار گھرانے تقسیم ہو گئے ہیں۔ شوہر فہرست میں ہے تو بیوی نہیں، باپ ہے تو بیٹا نہیں، ایک بھائی ہے تو دوسرا نہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ انڈین آرمی کا ایک مسلمان افسر ثناء اللہ، جو کارگل جنگ میں حصہ لے چکا ہے، اس فہرست کے مطابق غیر ملکی شہری ہے۔
لیکن بی جے پی نے ایذا دہی کی نئی راہیں نکال لیں۔ انہیں اس بات پر سخت تشویش ہے کہ بہت سے بنگالی ہندو این آر سی فہرست سے باہر ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آسام کے بیشتر ہندو بی جے پی کی حمایت کرتے ہیں اور بی جے پی نے آسام کی 14 مرکزی نشستوں میں سے 9 انہی کے بل پر جیتی تھیں؛ چنانچہ یہ بات قابل فہم ہے کہ آسام کے وزیر اعلیٰ سربندہ سونووال نے بدنام وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کے بعد کہا کہ مرکزی حکومت ان ''غیرملکیوں‘‘ کو‘ جو کسی طرح فہرست میں شامل ہوگئے ہیں، نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی طرح وہ ''حقیقی باشندے‘‘ جو فہرست سے باہر رہ گئے ہیں انہیں شامل کرے گی۔ حکومت نے یہ بھی کہا کہ وہ ان ''حقیقی‘‘ باشندوں کو قانونی مدد فراہم کرے گی‘ جو اس آخری فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ''حقیقی باشندے‘‘ کون سے ہوں گے۔
اس فہرست میں جو لوگ نہیں ہیں ان کا کیا ہوگا؟ وہ ہندوستانی شہری نہیں رہیں گے۔ وہ اس کے خلاف فارن ٹربیونلز میں اپیل کرسکتے ہیں لیکن وہاں قانونی مسائل بھی اتنے پیچیدہ ہیں کہ داد رسی بہت مشکل ہے۔ فارنرز ایکٹ کے سیکشن 9 کے تحت بارِ ثبوت اس مشکوک شخص پر ہے۔ جو یہ ثبوت نہ لا سکے گا غیر ملکی کہلائے گا۔ لیکن اس میں یہ بات پھر بھی غیر متعین رہے گی کہ اگر یہ شخص ہندوستانی شہری نہیں تو کس ملک کا شہری ہے۔ کیا بنگلہ دیش کا؟ یہ بات بھی اہم ہے کہ بنگلہ دیش پہلے ہی واضح طور پر انہیں اپنے شہری ماننے سے انکار کرچکا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جو غیرملکی قرار پائیں گے انہیں ڈی پورٹ کرنے سے پہلے نظر بندی کے کیمپوں میں رکھا جائے گا۔ اور چونکہ وہ ملک معلوم نہیں ہوگا جہاں ڈی پورٹ کیا جانا ہے اس لیے وہ اور ان کی نسلیں ہمیشہ کیمپوں میں نظر بندی اور قید کی زندگی گزاریں گے۔
لیکن عین اندیشے اور خطرے کے مطابق بی جے پی یہ ذہن بنا چکی تھی کہ آسام کے بعد مسلمانوں کو بے وطن کرنے کا یہ کام دوسری ریاستوں میں بھی کیا جائے گا اور اس کے لیے چاہے امتیازی قانون بنانا پڑے، بنایا جائے گا۔ اس طرح ایک طرف آسام میں چھ سات لاکھ غیر مسلم غیر ملکیوں کو شہریت دے دی جائے گی اور مسلمانوں کو باہر کردیا جائے گا۔ دوسری طرف دوسری ریاستوں میں بھی اسی عمل کا آغاز کردیا جائے گا؛ چنانچہ سی اے بی یعنی سٹیزن شپ امینڈمنٹ بل(CAB) ہندوستانی شہریت کا ترمیمی بل ہے جو لوک سبھا، راجیہ سبھا سے منظور کیا جا چکا ہے اور بھارتی صدر نے بھی اس پر دستخط کر دئیے ہیں۔ اب یہ قانون بن چکا ہے۔ اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر ہر مخالفت کو روندتے ہوئے بی جے پی نے یہ ترمیم منظور کروا لی ہے۔ اس کے مطابق پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش سے دسمبر 2014 سے قبل آ کر ہندوستان آباد ہونے والوں میں سے پارسی، سکھ، عیسائی، ہندو، بدھ، جین مذہب کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دی جا سکے گی جبکہ مسلمان اس فہرست سے باہر ہیں یعنی ایسے مسلمان شہریت کے حق دار نہیں ہوں گے۔ مزید یہ کہ ان چھ مذاہب کے لوگوں کی ہندوستان میں مدت قیام 11 سال سے کم کرکے 5 سال کردی گئی ہے۔ اس سے پہلے ہندوستانی شہریت کے قوانین بلا تفریق مذہب تھے۔ یہ واضح طور پر مسلم دشمنی پر مبنی ہے اور بھارت کے آئین کی کئی شقوں سے متصادم۔ اسی لیے کافی امکان ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ اسے رد کر دے؛ تاہم جب تک یہ نہیں ہوتا‘ خطرے کی تلوار مسلمانوں کے سر پر لٹک رہی ہے۔
لیجیے تازہ خبر یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے فوری طور پر اس ترمیمی بل پر بابندی سے انکار کردیا ہے؛ تاہم مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا ہے اور 22 جنوری کو سماعت ہو گی۔ اس معاملے پر 59 درخواستیں دائر کی گئی تھیں‘ جن میں کانگریس، مسلمان اور دیگر افراد و جماعتیں شامل ہیں۔
مسلم دشمنی، امتیازی سلوک، گاؤ کشی کے الزام، ہجوم میں گھیر کر مار پیٹ، سرکاری اداروں کی جانبداری، کشمیر کی حیثیت کی تبدیلی، کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم اور پابندیاں۔ یہ سب ایندھن تو پہلے سے موجود ہی تھا۔ اس نازک وقت میں طلبا اور طالبات نے ہراول دستے کے طور پر سامنے آنے کا فرض انجام دیا ہے۔ بھارت کے ہر بڑے شہر اور ریاست میں بل کی مخالفت میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ بھارت میں یہ بات کہنا مسلمان کے لیے بہت مشکل ہے لیکن اب وہ آوازیں بھی بلند ہیں جو دو قومی نظریے کی تائید اور ستر سال پہلے مسلم رہنماؤں خاص طور پر قائد اعظم محمد علی جناح کی بصیرت کی داد دے رہی ہیں۔ لیکن مسلمانوں کی خیرخواہی کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ نعرے وہاں مسلمان کے لیے مزید مشکلات پیدا کریں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کی بقا کا کوئی ٹھوس طریقہ سوچا جائے۔ لگتا یہ ہے کہ بھارت کی تقسیم در تقسیم کی داغ بیل ڈال دی گئی ہے۔ کئی ریاستوں میں آگ ہے اور آگ بھی ایسی کہ جس کی لپٹ بھسم کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مسلمان سخت جان قوم ہے وہ تو بہت سے مشکل مرحلوں کی طرح ان شاء اللہ اس مشکل سے بھی نکل کر سرخرو ہوگی۔ لیکن آخر ہوگا کیا؟ جو بات عرفان صدیقی کے ایک شعر سے شروع ہوئی تھی وہ انہی کے دوسرے شعر پر ختم ہوگی۔
تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک