''کچھ سنا تم نے؟‘‘
''بھئی روز ہی کچھ نیا سننے کو مل جاتا ہے۔ کیا کوئی بہت خاص سننے والی بات ہے؟‘‘
''وزیر سائنس فواد چودھری نے ایک اور گستاخ ٹی وی اینکرکو تھپڑ رسید کر دیا۔ ایک اور شادی کی تقریب میں‘‘۔
'' آج کل بے مزہ خبریں آرہی تھیں۔ یہ ایک اچھی خبر آئی الحمدللہ‘‘۔
''الحمدللہ کیوں؟ کیا تم اس ٹی وی میزبان کو پسند نہیں کرتے؟‘‘
''ارے بھئی میں تو ان کے ایک شو کی بھی مار نہیں ہوں۔ کیوں میری دشمنی کرواتے ہو‘‘
''تمہیں تو ہر خبر پر شعر یاد آجاتا ہے کوئی۔ اس پر کچھ یاد نہیں آیا؟
''مجید امجد کی نظم کی لائن یاد آرہی تھی۔ کون ہے یہ گستاخ؟ تاخ، تڑاخ‘‘
''لیکن بتاؤ نا! الحمدللہ کیوں کہا؟‘‘
''بھئی ہر حال میں اللہ کا شکر کرنا چاہیے اور اچھی خبر پر زیادہ۔‘‘
'' توکیا یہ اچھی خبر ہے؟‘‘
''ہم تو ہر چٹپٹی خبر کو اچھی خبر سمجھتے ہیں۔ کالم نگار جو ہوئے۔ ویسے ممکن ہے اس سے ایک اچھی خبر کا بھی آغاز ہو جائے۔‘‘
''وہ کیا؟‘‘
''وزیروں اور ٹی وی میزبانوں کی لڑائی کا سلسلہ شروع ہو جائے تو واللہ مزا آ جائے۔ دونوں ایک دوسرے کی پٹائیاں کریں مجمع عام میں اور روز تماشا دیکھنے والے یہ تماشا بھی دیکھیں۔ جیسے ڈاکٹروں اور وکیلوں کی لڑائیاں۔ اس دفعہ بھی ہمدردیاں دونوں طرف کے پیٹنے والوں کے ساتھ ہوں گی۔‘‘
''نظر آ رہا ہے کہ نہ تم وزیروں کو پسند کرتے ہو نہ ٹی وی میزبانوں کو۔‘‘
''تمہیں یہ نظر نہیں آرہا کہ وزیروں اور ٹی وی اینکرز کو پسند کرنے کے لیے ویسا ہی ہونا پڑتا ہے اور ایسا کیسے ممکن ہے؟‘‘
''خیر۔ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے گھما کر تھپڑ رسید کیا ٹی وی میزبان کو۔‘‘
''صرف تھپڑ؟ پچھلی بار تو گالیاں بھی ساتھ دی تھیں انہوں نے‘‘
''گالیاں تو اس بار بھی دی ہیں بہت۔ تھپڑ سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ ٹھڈوں کا ارادہ تھا لیکن وقت ناکافی رہا۔ دس بجے شادی ہال بند ہو جاتے ہیں ناں۔‘‘
''وقت بڑھانا چاہیے تھا ہال والوں کو۔ بہرحال اصل تحفہ اچھی پیکنگ میں ہی تو پیش کیا جاتا ہے اور پیکنگ تو چودھری صاحب ایسی کرتے ہیں کہ سبحان اللہ۔ ویسے کیا شادی کا کوئی تحفہ نہیں دیا چودھری صاحب نے؟‘‘
''اس سے بہتر تحفہ کوئی ہو سکتا ہے کیا؟ کسی اور تحفے کا اتنا ذکر ہو سکتا ہے بھلا۔ ہم خرما و ہم ثواب۔ کم خرچ، بالا نشین۔‘‘
''تو پھر ٹی وی میزبان نے کیا کیا؟‘‘
''کیا کر سکتا ہے کوئی؟ کافی بھاری ہاتھ ہے چودھری صاحب کا۔ کچھ کرنے کا ہوش کہاں رہتا ہو گا۔‘‘
''چودھریوں کے ہاتھ بھاری ہی ہوتے ہیں۔ اور پھر تھپڑ نہ ماریں تو چودھراہٹ کیسے قائم ہو؟‘‘
''بالکل درست۔ لیکن چودھراہٹ کے لیے شادی کی تقریب کیوں منتخب کرتے ہیں چودھری صاحب؟‘‘
''پھر اور کہاں ماریں بے چارے؟ اپنے دفتر میں تھپڑ مارنے کے لیے موزوں اینکر کہاں سے لائیں۔ کابینہ اجلاس میں اوپر والوں کی طرف سے اطمینان ہو تو تھپڑ رسید کرنے کا سوچیں۔ قومی اسمبلی میں بھی تھپڑ نہیں مارا جا سکتا۔ صرف ایک ٹی وی اینکر ہے وہاں۔ وہ بھی ان کی اپنی پارٹی کا۔ عام پریس کانفرنس میں بھی تھپڑ کسے ماریں۔ کوئی معروف صحافی تو ہوتا نہیں وہاں۔‘‘
''سب سے اہم نکتہ تو آپ بھول ہی گئے۔‘‘
''وہ کیا؟‘‘
''بڑی شادیوں کی تقریب میں مجمع زیادہ مل جاتا ہے۔ ہر شعبے کے نامور لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ ویڈیو اور تصویریں بننے کا موقع بھی زیادہ ہوتا ہے۔ مضروب کی ستھری اور بہتر بے عزتی ہو سکتی ہے۔‘‘
''یہ تو درست ہے۔ چودھری صاحب نے کافی دانش مندی کا ثبوت دیا۔‘‘
''صرف دانش مندی ہی نہیں۔ رجحان ساز وزیر ہیں وہ۔ وزیروں کے لیے ایک نئی زدوکوب کرنے کی روایت کا آغاز کیا ہے انہوں نے۔ ایسا ہتھ چھٹ وزیر آج تک اقتدار میں پہلے کہاں آیا تھا بھلا۔‘‘
''توبہ کریں بھئی۔ بڑے ہی ڈرپوک وزیر گزرے ہماری تاریخ میں۔ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کا سنا ہے کہ ایک بار صرف کالے جھنڈوں سے استقبال ہونے پر ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔ چودھری صاحب جیسے ہوتے تو وہیں لمبا بچھا دیتے۔ جھنڈے چھین کر انہی ڈنڈوں سے پٹائی کرتے۔‘‘
''بھئی ہر کوئی ان جیسا کیسے ہو سکتا ہے؟ خاص صفات کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
''لیکن اس طمانچۂ دوم کی کوئی وجہ تو ضرور بتائی ہوگی۔‘‘
''ارے وجہ کی کیا ضرورت وزیروں کو بھلا۔ یہ کافی نہیں کہ انہوں نے ٹی وی اینکر کو مارا ہے؟ وجہ خود ڈھونڈتے رہیں لوگ۔ ورنہ کوئی اور ٹی وی شو والا ڈھونڈ لے۔ یہ وزیر موصوف کی شرافت کی انتہا ہے کہ گالیوں اور تھپڑ کی وجہ بھی لوگوں کو بتائی۔ نہ بتاتے تو کون پوچھتا؟ اپنا سوجا ہوا منہ کسے اچھا لگتا ہے بھلا؟‘‘
''واقعی یہ بہت بھلمنساہٹ کی بات ہے کہ انہوںنے وجہ بتائی۔ مزید یہ بھی بتایا انہوں نے کہ وہ بھی ایک انسان ہیں۔‘‘
''یہ انکشاف کیوں کیا چودھری صاحب نے؟‘‘
''ممکن ہے بعض لوگوں کا خیال کچھ اور ہو‘ اس لیے یہ وضاحت ضروری تھی۔‘‘
''پھر تو اچھا کیا۔‘‘
''لیکن انہوں نے اپنے آپ کو باقی دوسروں کی طرح کیوں کہا؟ کیا سب کو پتہ نہیں کہ وہ دوسروں سے مختلف ہیں۔‘‘
''بھئی انکساری اور عاجزی بھی تو کوئی چیز ہے۔ اور یہ چوھری صاحب نے کوٹ کوٹ کر اپنے اندر پہلے ہی بھرلی تھی۔‘‘
''تو وہ اب دوسروں میں کوٹ کوٹ کر انکساری بھر رہے ہیں؟‘‘
''ممکن ہے۔ آخر قوم کا درد اور اصلاح کی فکر ہر وزیر کو ہونی چاہیے کہ نہیں۔‘‘
''لیکن ایک بات انہوں نے بہت پتے کی کہی۔ بولے‘ انہیں ایسی کسی منطق کا علم نہیں جو کسی وزیر کو کسی کی پٹائی سے روکتا ہو۔ وزارتیں تو آنی جانی ہوتی ہیں۔‘‘
' ' بہت سچ بات کہی بھئی۔ منطق اگر ہو بھی تو ایک تھپڑ اسے بھی۔ وزراء اگر گستاخوں کی پٹائی نہ کریں تو معاشرہ کیسے قائم رہے؟ لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ ان کی زبان اور ہاتھ دونوں دراز ہیں‘‘۔
''سنا ہے اس ولیمے میں جہانگیر ترین بھی تھے۔ انہوں نے بھی نہیں روکا؟‘‘
''تحریک اور انصاف کا یہی تقاضا تھا‘ پھر عدل جہانگیری تو مشہور ہے۔‘‘
''لیکن سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو کیا کرنا چاہیے؟‘‘
''انہیں کیا ضرورت۔ جو کچھ کرنا ہے چودھری صاحب نے ہی کرنا ہے۔‘‘
''لیکن میرا خیال ہے کہ عمران خان صاحب کو کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے۔‘‘
''بھئی انہیں اگر کچھ کرنا ہی ہے تو یہ کرنا چاہیے کہ چودھری صاحب کو باقی مصروفیات سے فارغ کرکے شادیوں کی تقریبات کا زیادہ سے زیادہ موقع دیں۔ مارچ اپریل تک شادیوں کا سیزن ہوتا ہے۔ یہ سیزن بھرپور لگنا چاہیے۔‘‘
''تمہارا مطلب ہے کہ انہیں اپنے وزیر کے کسی ٹی وی میزبان کو دوسری بار تھپڑ مارنے پر کچھ نہیں کہنا چاہیے۔ مزید شادیوں کا انتظام کرنا چاہیے؟‘‘
''بھئی اچھی کارکردگی پر انعام دیا جاتا ہے۔ نوٹس نہیں۔ ویسے بھی وہ کرکٹ کے کپتان رہے ہیں۔‘‘
''حد ہوگئی۔ کرکٹ یہاں کہاں سے آگئی ؟‘‘
''حد تو تم نے کر رکھی ہے۔ سامنے کی بات نظر نہیں آرہی تمہیں۔ جو کھلاڑی ہیٹ ٹرک چانس پر ہو، اسے کپتان زیادہ سے زیادہ موقع دیتا ہے۔‘‘
''شاباش ہے بھئی۔ ہیٹ ٹرک؟‘‘
''تو اور کیا؟ یہ شاباش مجھے نہیں انہیں دو۔ چودھری صاحب ہیٹ ٹرک چانس پر ہیں۔ اگلی شادی، اگلے اینکر اور اگلے تھپڑ کا انتظار کرنا چاہیے۔‘‘