"SUC" (space) message & send to 7575

جہان آباد

مٹیا محل، دلی کی اصل رونق شام کو شروع ہوتی ہے۔ میں کچھ دیر آرام کے بعد نکلا تو شام کی چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔ طرح طرح کی اشتہا انگیز خوشبوئیں آنا شروع ہو چکی تھیں۔ دیکھا کہ یہ سارا بازار طعام گاہوں اور کھانے پینے کی چیزوں سے بھرا ہوا ہے۔ کبابیے، بریانی والے، قورمے تافتان والے، نہاری والے، مٹھائی والے۔ کون سا والا تھا جو یہاں موجود نہیں تھا۔ اور اب ایک اور والا یعنی پاکستانی کھانے والا بھی پہنچ گیا تھا۔ بالکل سامنے تو مشہور کریم ہوٹل تھا جس کے مغلئی کھانوں کی دھوم لاہور تک پہنچی ہوئی تھی۔ اب ایک شاخ نظام الدین میں بھی کھل چکی ہے۔ سچی بات یہ کہ کھانا اچھا ہونے کے باوجود ویسا نہیں لگا جتنا شہرہ سنا تھا۔ ہمارے کراچی کے بہت سے ہوٹل مغلئی کھانے خاص طور پر قورمے اس سے بہتر بناتے ہیں۔ لاہور کے ہوٹل بھی اپنے ذائقے میں قدرے مختلف لیکن بہت اچھے ہیں۔ بعض دفعہ کوئی نام مشہور زیادہ ہو جاتا ہے جبکہ اس سے بہتر ہوٹل بھی اسی شہر میں موجود ہوتے ہیں۔ کریم ہوٹل کا معاملہ مجھے کچھ ایسا ہی لگا۔ ذرا سا آگے چلیں تو الجواہر ہوٹل ہے۔ یہ بھی مغلئی اور دہلوی کھانوں کے لیے مشہور ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو ان کا مرغ جہانگیری بہت پسند کرتے تھے اور اس کے لیے آیا کرتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے نام بدل کر الجواہر کر لیا۔ بازار میں چلتے جائیے اور دائیں بائیں گولا کباب، مخملی کباب، بہاری کباب، یہ کباب اور وہ کباب دیکھتے جائیے۔ قسم قسم کے باربی کیو، ریڑھیوں سے لے کر دکانوں تک ہر جگہ دستیاب ہیں۔ جامع مسجد سے لے کر کافی آگے تک بازار میں زیادہ تر کھانے پینے ہی کی دکانیں دکھائی دیں۔
ذرا سا اور آگے چلا تو دائیں ہاتھ شیریں بھون دکھائی دی۔ ایک دم یاد آیا کہ احمد نے اس کا ذکر کیا تھا۔ میرے دوست احمد شجاع (مرحوم) کی جدی پشتی مٹھائی کی دکان تھی۔ لاہور میں کم ہی دکانیں معیار میں اس کی دیسی گھی سے بنی مٹھائی کے معیار اور تنوع کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔ احمد نے انہی دنوں بتایا تھا کہ پرانی دلی میں ان کے سوتیلے بھائی کی بھی شیریں بھون کے نام سے مٹھائی کی مشہور دکان ہے۔ میں دکان کے اندر داخل ہو گیا۔ ایک گیسو دراز نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ وہی احمد کا سوتیلا بھائی تھا۔ مل کر بہت خوش ہوا۔ پہلے تو گرم گرم پیٹھے کے حلوے سے تواضع کی۔ پھر مصر ہو گیا کہ گھر چلیں جو وہاں سے قریب ہی تھا۔ ایک گلی میں بڑے بڑے دالانوں اور آنگنوں والے ایک گھر نے مجھے خوش آمدید کہا۔ ابھی میں رنگ برنگے شیشوں والی کھڑکیوں کو دیکھ کر اپنے بچپن کے نیلا گنبد والے گھر کی یاد تازہ کر ہی رہا تھا کہ نوجوان میرا ہاتھ پکڑ کر چھت پر لے گیا۔ یہاں سمجھ آیا کہ وہ گھر لے جانے پر اتنا مصر کیوں تھا۔ چھت پر کبوتروں کی بہت بڑی چھتری اور جال بنا ہوا تھا اور اس میں بے شمار نسلوں اور قسموں کے کبوتر موجود تھے۔ یہ رام پوری، وہ فیروزپوری، یہ سلجوق، ادھر لقا، اُدھرشیرازی، وہاںالپائن۔ بات سمجھ آگئی کہ نوجوان مجھ سے کبوتروں کی داد لینے یہاں کھینچ کر لایا تھا اور ادھر میں تھا کہ پکا لاہوریا ہونے کے باوجود اس فن سے ذرا بھی شغف اور واقفیت نہ رکھتا تھا۔ مجھے خطرہ لاحق ہوگیا کہ اب یہ مجھ سے اپنے کبوتروں کا سیر حاصل تعارف کروائے گا۔ بھئی اگر نسلی کبوتروں کا تعارف ہی درکار ہو تو لاہور میں ایک سے ایک کبوتر باز پڑا ہے۔ اس کے لیے دلّی آنے کی کیا ضرورت ہے؛ چنانچہ کسی طرح کام کا بہانہ کیا۔ گھر سے نکلا اور ایک بار پھر مٹیا محل کی سڑکوں پر۔ بھئی مسافر! تھکن ہونے لگی ہے اور بھوک بھی لگنے لگی ہے۔ اب کسی مناسب سے ہوٹل سے کھانا کھاؤ اور کمرے کو لوٹ چلو۔ چلو میاں! جس ہوٹل کے گولا کباب کی تعریف سنی تھی وہیں چلتے ہیں۔
دلّی کی تاریخ پر لکھنے کو اتنا کچھ ہے اور اتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ اس کے خلاصے کے لیے بھی ایک موٹی سی کتاب چاہیے۔ یہ عجیب شہر ہے جو ایک ہی جگہ رہنے کے باوجود بار بار اپنی جگہ بدلتا رہا ہے۔ دریا اپنے راستے بدلتے ہیں لیکن یہ شہر ہر زمانے میں اپنے راستے بدلتا رہا ہے۔ چند میلوں کے فرق کے ساتھ۔ کبھی دریائے جمنا کے اُس گھاٹ پر، کبھی اس گھاٹ پر۔ کبھی مہرولی شہر کا مرکز تھا۔ کبھی تغلق آباد، کبھی شاہ جہاں آباد اور کبھی نئی دہلی۔ زمانوں قبل نہ جائیے سلاطین دہلی ہی سے آغاز کرلیجئے۔ اس وقت موجودہ پرانی دلّی کا نام ونشان بھی نہیں تھا۔ یہ دلّی تو اس وقت وجود میں آئی جب شاہ جہاں نے 1639میں دارالحکومت آگرہ سے دہلی منتقل کیا اور ایک نیا شہر شاہ جہاں آباد بسانے کا حکم دیا۔ یہ بہادر شاہ ظفر کے دور اور پھر اسیری یعنی 1857 تک مغل دارالحکومت رہا۔ سب سے پہلے جمنا کے کنارے لال قلعے کی تعمیر ہوئی یعنی دریا قلعے کی پشت پر تھا۔ قلعے سے کچھ فاصلے پر جامع مسجد تعمیر کی گئی۔ سارے شہر کے یہی دو مرکزی نقطے تھے۔ کہتے ہیں شاہ جہاں نے کہا تھا کہ شہر بساتے وقت وزرا، نوابوں اور امرا کی حویلیاں اور محلات ایک علاقے میں رکھے جائیں اور ہر فن، ہنر، پیشے، صنعت و حرفت کے لوگ الگ الگ محلوں میں بسائے جائیں۔ یہ بات ویسے بھی ہمارے زمانے تک چلی آتی رہی ہے کہ ایک خاندان جس شعبے سے وابستہ ہوا نسل در نسل اسی سے وابستہ رہا۔ زرگروں، خطاطوں، پہلوانوں وغیرہ کی دس دس پیڑھیاں دیکھ لیں ایک ہی فن سے وابستہ نظر آئیں گی۔ یہ تو بہت سے فنون اور علوم پر زوال کی وجہ سے اس دور میں یہ دیکھنا پڑا ہے کہ ایک خاندان بہت سے شعبوں میں منقسم ہوگیا؛ چنانچہ آپس میں رشتے داریوں کی وجہ سے ہر پیشے کے کاری گروں کا اس زمانے میں ایک محلے میں رہنا سمجھ آتا ہے۔ دلّی کا چوڑی والان ہو، چرخہ والان ہو، کوچہ چابک سواراں ہو، بازار زرگراں ہو یا بلی ماراں‘ سب بنیادی طور پر پیشوں میں بٹے ہوئے محلے ہیں۔
لیکن عالم پناہ، شہنشاہ معظم، شاہ جہاں تو بس یہ حکم دے کر فارغ ہوگئے۔ شاہجہاں آباد اسی طرح بسا جیسا پرانا لاہور بسا تھا۔ بغیر منصوبہ بندی کے، ٹیڑھا میڑھا، تنگ راستوں اور تنگ تر گلیوں والا۔ بعض گلیوں سے ہوا کیسے گزرتی ہے، معلوم نہیں۔ بہت سے مکانوں میں سانس کیسے لیا جاتا ہوگا،خبر نہیں۔ سچ یہ ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ لیکن یہ تو ہر پرانے شہر کے ساتھ ہے۔ دلّی کے ساتھ مخصوص تھوڑی ہے۔
اس زمانے میں فصیل کے کسی دروازے کا رخ جس مشہور شہر کی طرف ہوتا تھا، دروازہ اسی نام سے معروف ہوجاتا تھا۔ پرانے لاہور کے اکثر دروازے بھی اسی طرح ہیں۔ دلّی کے پرانے نقشے کو دیکھا تو یہ سمجھ آیا کہ اگر آپ لال قلعہ کے مرکزی دروازے یعنی لاہوری دروازے کے باہر اس طرح کھڑے ہیں کہ قلعہ آپ کی پشت پر اور سڑک سامنے ہے اور آپ دائیں ہاتھ فصیل کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیں تو تھوڑے فاصلے کے بعد قلعے کی فصیل ختم ہوکر شہر پناہ سے جاملے گی۔ یہ شہر پناہ اس وقت کی دلّی کا احاطہ کرتی ہے۔ تھوڑا آگے قلعہ گیٹ، پھر نصیر گنج برجی۔ پھر فصیل مغربی رخ اختیار کرلیتی ہے۔ پھر کشمیری دروازہ اور موری دروازہ آتا ہے۔ شاہ برج کے بعد دیوار جنوبی رخ پر مڑ جاتی ہے۔ کابلی دروازے سے تھوڑا آگے چل کر شہر پناہ کا لاہوری دروازہ آجاتا ہے جو قلعے کے لاہوری دروازے کے بالکل سامنے ہے۔ کئی برجیوں اور دروازوں سے ہوتی ہوئی فصیل اجمیری دروازے پہنچتی ہے۔ یہاں سے مشرقی رخ اختیار کرتی ہے اورترکمان گیٹ سے ہوتی ہوئی دہلی دروازے پر پہنچتی ہے جو قلعے کے دہلی دروازے کے بالکل سامنے ہے۔ ذرا سا آگے چل کر دیوار دریائے جمنا کے متوازی پھر شمال کی طرف مڑ جاتی ہے اور نواب برج، دریا گنج دروازے سے ہوتی ہوئی راج گھاٹ دروازے پر پہنچتی ہے جو جمنا کی طرف کھلتا ہے۔ ذرا سا آگے فصیل شہر ایک بار پھر قلعے کی دیوار سے جڑ جاتی ہے۔ گویا پرانے شہر کا ایک مکمل چکر آپ نے لگا لیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کی فصیل14 دروازوں کے ساتھ 1500ایکڑ اور6کلومیٹر سے کچھ زیادہ پر محیط تھی۔آبادی بھی مناسب رہی ہوگی لیکن آج کی طرح کھوے سے کھوا تو نہیں چھلتا ہوگا۔
حضور، قبلہ عالم شہزادہ خرم المعروف شاہ جہاں! تاج محل، شاہجہانی مسجد، شالامار۔آپ کے تعمیری ذوق کا ایک زمانے میں نام ہے۔ تو جناب! اگر نیا شہر شاہ جہاں آباد بساتے وقت پچھلے شہروں کو دیکھتے ہوئے کچھ اچھی منصوبہ بندی کرلی جاتی تو کیا حرج تھا؟ ہاں میاں سعود عثمانی! 358 سال بعد مٹیا محل میں کھڑے ہوکر کمر پر ہاتھ رکھ کر یہ کہنا آسان ہے۔ تمہیں کیا پتہ اس وقت کے مسائل کا۔ نہ ہوئے اس عہد میں۔ مست ہاتھی کے پاؤں تلے ڈلوا دیے جاتے ان گستاخیوں پر۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں