پرانی دلّی دیکھنے کا ایک گُر میں نے پلے باندھ لیا ہے ۔ آپ بھی گرہ لگا لیں۔صرف دلی ہی نہیں‘ پاک و ہند کے بیشتر پرانے شہروں کے لیے بھی یہی گُر ہے‘ استثنائی مثالوں کے ساتھ۔ان شہروں کو دو طرح دیکھنا چاہیے ۔سیدھی بات یہ ہے کہ دلّی زمانۂ حال میں دیکھے بنا تو مفر نہیں ہے اور حال کچھ ایسا خوش کن نہیں ہے۔بھنچی سڑکیں ‘تنگ راستے ‘گندگی‘اڑتی مٹی‘راہگیروں کے غول‘گداگروں کے ہجوم‘ریڑھیوں کے نیچے بیٹھی بلّیاں اور اوپر بیٹھی مکھیاں۔تھڑوں کے نیچے بہتی بدرویں اور اوپر جمے کھانے کے خوانچے۔ سر پر لٹکتے بجلی اور فون کی تاروں کے الجھیڑے ‘جنہیں گنجل کہیے تب بھی ٹھیک‘ جنگل کہیے تب بھی درست۔آوارہ کتے‘مست خرام لاوارث گائیں‘اور ہر قدم پر سائیکل رکشا۔ سائیکل رکشوں کو کھینچتے اور ہانپتے مزدور۔ہتھ ریڑھیاں اور ان پر لدا سامان۔انہی سب کے درمیان زندگی رواں دواں اور مصروفِ کار۔ایک دھارا جو بیک وقت دو رخوں پر بہتا نظر آتا ہے۔کچھ عناصر کم کردیں تو ہو بہو ہمارے پرانے لاہور کا نقشہ۔صرف زندگی کا دھارا ہی نہیں کئی تہذیبیں ‘ کئی بولیاں انہی گلیوں میں گھل مل رہی ہیں۔دلی کے مزدور طبقے کا کرخنداری لہجہ ۔مجید لاہوری کے اس مزے دار شعرکی یاد دلاتا ہوا:؎
وفاؤں کے بدلے جفا کر ریا ہے
میں کیا کرریا ہوں ‘ تو کیا کر ریا ہے
پھردلی کی اشرافیہ کا لہجہ ۔غالب اور ذوق کی زبانوں کی جھلک دکھلاتا۔ہندو آبادی کا لہجہ الگ پہچانا جاتا ہے‘لیکن سب لہجے ان پانیوں کے طرح ساتھ ساتھ اور متوازی بہتے ہوئے جن کے رنگ بھی جدا جدا رہتے ہیں اور دھارائیں بھی ۔ہجوم ہے کہ ہر وقت سڑکوں پر ہے ۔خوانچے ہیں کہ راستہ روکے کھڑے ہیں۔ سائیکل رکشا ہیں کہ آپ کا لباس کھینچے لیے جاتے ہیں۔ پرانے لاہوری بھی اندرون ِ شہر سے باہر نہیں نکلتے اور بہت سے دلّی والے بھی یہاں سے کہیں اور جانے کو تیار نہیں۔کچھ کی تو مجبوری ہے کہ کاروبار یا ملازمتیں ہی ادھر ہیں ۔دوسری آبادیوں میں کوئی رشتے دارنہ ہونا ایک الگ مسئلہ‘نہ اتنے وسائل کہ کہیں گھر بنا لیا جائے ؛چنانچہ آبائی اور نسل در نسل منتقل ہوتے گھروں میں ہی ساری عمر گزر جاتی ہے ۔لیکن بہت سوں کو اس رہن سہن ‘ اس تہذیب کا لپکا بھی ہے۔دراصل ہے یوں کہ انسان جس ماحول میں زندگی گزارتا ہے رفتہ رفتہ اس کا خوگر ہوتا جاتا ہے۔اور آہستہ آہستہ اس کے منفی پہلو بھی غائب ہوتے چلے جاتے ہیں ۔یعنی دلّی والے غالب دہلوی کی بات مانتے ہیں۔ رنج کے خوگر ہوجاؤ تاکہ رنج ہی مٹ جائے ۔لیکن بھئی میں اندرونِ دلّی کے رہن سہن کو رنج سے تعبیر کرنے والا کون ۔نہ اس کی دل کشی اور غیر معمولی کشش سے انکار ہے نہ اس کی منفرد تہذیب اور ثقافت سے‘ نہ بہت سی مجبوریوں سے۔لیکن مسائل تو بہرحال موجود ہیں اور سب سے زیادہ دلّی میں بسنے والوں کے لیے ہیں ‘ہم جیسے بنجارے توآئے اور دو دن کی سیر کرکے چلتے بنے۔ذوق کی طرح رہیں تو بات بنے ۔کون جائے ذوق پر دلّی کی گلیاں چھوڑ کر۔لیکن حضور !دلّی کا اصل منظر تو آپ نے دیکھا ہی نہیں۔رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے۔ دلّی کہ ایک شہر تھا عالم میں انتخاب۔اس شہر کو اس کے عروج پر دیکھیں۔ تمدن میں کون سا شہر اس کے سامنے ٹھہرے گا۔تہذیب میں کون سی بستی اس کا مقابلہ کرے گی؟یہ شہرجو مٹ مٹ کے بسایا گیا ہے ۔ مر مر کے زندہ کیا گیا ہے۔
میں جامع مسجد کی سرخ سیڑھیاںچڑھتا ہوںاورسب سے اونچی سیڑھی کے بعد مسطح چبوترے پر ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہوں۔ یہاں سے سارا مٹیا محل بازار میرے سامنے ہے اور اس سے پہلے اردو بازار کو جاتی سڑک بھی۔ ایک لمحے کو آنکھیں موندتا ہوں اور دو صدیوں کا فاصلہ ایک پل میں طے کرلیتا ہوں۔آنکھیں کھولتا ہوں تو سامنے مٹیا محل کی سڑک کشادہ ہے اورصاف ستھری۔سڑک پر شام کا چھڑکاؤ شروع ہوچکا ہے ۔یہی اترتی سردیوں کا ابر آلود موسم ہے اور شام کی گہماگہمی شروع ہوچکی ہے۔ایک ایک کرکے چراغ جلنے شروع ہوچکے ہیں۔روئی کے سینہ بند پہنے‘قراقل کی کلاہ اوڑھے لوگ گھروں سے نکل رہے ہیں۔کچھ نے انگرکھے زیب تن کررکھے ہیںکچھ نے اچکنیں ۔کچھ نے کشمیری پشمینے کی گرم چادریں اوڑھ رکھی ہیں۔یہ ایک سنہری ڈولی کہاروں کے کاندھوں پر جارہی ہے ۔ محراب دار ڈولی کو نیلے ریشمی پردوں نے ڈھک رکھا ہے۔پٹکے باندھے ‘تلواریں لگائے ‘طمنچے لٹکائے گھڑ سوار حفاظت کے لیے ساتھ ساتھ ہیں ۔ شاہی گھرانے کی خاتون معلوم ہوتی ہیں۔ کوئی بتاتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر کی نویلی دلہن نواب زینت محل کی بہن کی ڈولی ہے‘ جن کی حویلی اسی مٹیا محل میں ہے۔دور سے ایک پالکی نمودار ہوتی ہے۔دونوں طرف سے کھلے پردے۔اندر سیاہ میمنے کی کلاہ ِپاپاخ پہنے بادشاہ کے وزیر جلوہ افروز ہیں۔دائیں بائیں پیدل چلتے محافظ اور ہٹو بچو کہتے کہار۔پانچ گھڑ سواروں کا ایک دستہ لال قلعے کی طرف سے آتا دکھائی دے رہا ہے۔سنہری زینیں‘عنابی پٹکے اور زرّیں دستاریں۔شاید محل کے محافظ کسی کام سے ادھر آئے ہیں۔خوب صورت ہودج اور لال عماری والا ایک ہاتھی جھومتا جھامتا جامع مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے سے گزر رہا ہے ۔ مہاوت نے خوبصورت لباس پہنا ہوا ہے جس سے سورج کی کرنیں اچٹ رہی ہیں۔یہ کسی امیر کی حویلی میں پہنچے گا اور انہیں شام کی سیر کیلئے لے جائے گا۔
ترچھی ٹوپیاں پہنے ‘آڑاسفید پاجامہ ‘گرم کپڑے کا کرتا اور صدریاں زیبِ بدن کیے نوعمر لڑکوں کی ایک ٹولی چلی آتی ہے۔ سردی ہے اس لیے پاجامے کے نیچے اُونی زیرجامہ انہیں چست رکھنے میںمدد دے رہا ہے ۔ان کے گلوں میں ایک بے نیازانہ شان سے پڑے مفلروں کے کنارے سنہری کناریوں سے جگمگا رہے ہیں۔خوش باش‘بے فکر‘شوخ اور کھلنڈری عمر کے یہ نوجوان ا بھی روایات اور اقدار کی گرفت سے باہر نہیں نکلے۔اس لیے قریب سے گزرتے کسی بزرگ یا بڑے کو دیکھ کر مؤدب ہوجاتے ہیں ۔ذرا سا وہ آگے بڑھے اور ان کا دھول دھپا اور شوخیاں پھر شروع۔عصا کی ٹک ٹک پہلے دور سے اور پھر قریب سے سنائی دیتی ہے ۔ اس کے جلو میں قدموں کی چاپ بھی ہے ۔ دلی کے صدر الصدور‘مفتیٔ اعظم صدر الدین خان آزردہ لاٹھی ٹیکتے چلے آتے ہیں ۔ شاید درس دے کر اپنے مدرسہ دارالبقا سے گھر کو جارہے ہیں ۔بے مثال عالم اور عربی‘ اردو ‘فارسی کے شاعر۔شاہی خاندان سمیت پوری دلّی کا سر اِن کے سامنے جھکتا ہے ۔ ان کے شاگرد ان کے ساتھ گھر تک جارہے ہیں ۔اس دوران اپنے اپنے سوال بھی پوچھتے جاتے ہیں ۔کھلتے رنگ ‘ خوب صورت خدو خال کا ایک نوجوان دائیں طرف ساتھ ساتھ چل رہا ہے ۔ سینہ بند پر موتی ٹنکے ہیں جو اسے کسی رئیس خاندان کا ظاہر کرتے ہیں ۔یہ آگے چل کر ریاست رام پور کا والی بنے گا اور نواب یوسف حسین خاں کے نام سے معروف ہوگا۔سید احمد نام کا ایک نوجوان بائیں طرف ہے ۔یہ مستقبل میں علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد رکھے گا اور سر سید احمد خاں کے نام سے جانا جائے گا۔ذرا ایک قدم پیچھے ایک کتاب کی ورق گردانی کرتا ایک خوش وضع نوجوان کسی عبارت پر انگلی رکھ کر کچھ پوچھتا ہے ۔ یہ بڑا عالم رئیسۂ ریاست بھوپال سے شادی کرے گا‘خود رئیس ریاست بنے گا اور لوگ اسے نواب صدیق حسن خاں کے نام سے پکاریں گے۔
مسجد کی دائیں طرف کے کشادہ راستے پر کچھ شتر سواررنگ برنگی جھولیں ڈالے اپنے اونٹوں کو پانی پلانے میں مصروف ہیں۔ان کی پگڑیاں ان کے راجپوت ہونے کی گواہی دے رہی ہیں۔دو رویہ مکانوں کی بالائی منزلوں میں جھروکے آباد ہوچکے ہیں اور چلمنیں ڈالی جاچکی ہیں۔حویلیوں اور گھروں میں چہل پہل شروع ہوچکی ہے۔ لڑکیاں اور بیگمات ‘بازار کی رونق دیکھنے چلمنوں سے آلگی ہیں۔جھلملی چلمنیں ہوا کے جھونکے سے اڑتی ہیں تو لمحہ بھر کے لیے چراغ سے روشن ہوجاتے ہیں۔یہ علاقہ اشرافیہ کا ہے اس لیے مغلئی نقوش اور ایرانی خطوط والے شہابی چہرے یہاں کی پہچان ہیں۔یہ گلی کوچے تو اوراقِ ِمصور ہیں ۔مٹیا محل ہے یا مرقعٔ چغتائی ۔ جو شکل نظر آئی ‘تصویر نظر آئی ۔
کسی نے شاید مجھے آواز دی ہے یا مجھے نہیں کسی اور کو ۔یہ آواز مجھے لمحہ ٔموجود میں کھینچ لاتی ہے ۔میں آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتا ہوں اور مٹیا محل میں دو طرفہ منظروں میں گم ہوجاتا ہوں۔؎
جیسے کوئی پیادہ چلے لشکروں کے بیچ
اس شہر میں گزرتی ہے دو منظروں کے بیچ