سچ یہ کہ آفرین ہے ان طلبا و طالبات پر، داد ہے ان خواتین اور بچوں کو، تحسین ہے ان مردوں کے لیے جو اس یخ بستہ خون جما دینے والی سردی میں دلّی کی سڑکوں پر احتجاج کے لیے موجود ہیں۔ کتنے ہی دن ہو چکے احتجاج شروع ہوئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ کم نہیں ہوا، پھیلتا گیا ہے۔ ہر ریاست میں اور ہر شہر میں یہ احتجاج پرزور طریقے پر ہورہا ہے اور بی جے پی، نریندر مودی اور امیت شاہ کے تمام تر ظلم، پولیس تشدد اور بی جے پی کے حامیوں کے جوابی جلسوں اور ریلیوں کے باوجود یہ جذبہ کم نہیں کر سکے۔ بے شمار مقدمات قائم کردئیے گئے۔ یونیورسٹیز اور کالجز سے ان کے اخراج کی دھمکیاں دی گئیں لیکن یہ طلبا و طالبات ثابت قدم رہے۔ حکمرانوں کو پچھلے قدموں پر جانا پڑا ہے اور ان کی تمام تر سفاکی، انہیں نقصان کی طرف دھکیلتی رہی ہے۔ اب اس بات کا احساس کچھ لوگوں کو ہورہا ہے۔ جنوبی ہندوستان کی ریاستوں میں موسم اتنا سخت سرد نہیں، اس لیے وہاں کم از کم یخ ہواؤں کی مخالفت کا سامنا نہیں لیکن دلّی اور دیگرشمالی علاقوں کے رہنے والوں کو اس لیے بھی داد دینی ضروری ہے۔ ایک بات اور بھی احتجاج کرنے والوں کے پاؤں مضبوطی سے جمائے ہوئے ہے اور وہ ہے دلی اسمبلی کے انتخابات جو 8 فروری 2020 کو منعقد ہو رہے ہیں اور جس میں بی جے پی کو اپنی سخت حریف عام آدمی پارٹی کا سامنا ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس احتجاج اور اس انتخاب کو پاکستان کے اخبارات اور میڈیا نے وہ اہمیت نہیں دی جو ان کا حق تھی۔ اس کے دوررس نتائج ہیں اور پہلی بار انہوں نے بی جے پی کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک دیا ہے۔ ممکن ہے یہ سکوت وقتی ہو لیکن اگر یہ ادراک ہوگیا کہ یہ راستہ بی جے پی کے اقتدار سے خاتمے کی طرف جاتا ہے تو یہ سلسلہ یہاں رکتا نظر نہیں آتا۔یہ تمام صورتحال ہماری توجہ کا مرکز ہونی چاہیے۔
ایک نظر ان انتخابات پر ڈالیے۔ دلی قانون ساز اسمبلی یک ایوانی اسمبلی ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے 6 جنوری کو اعلان کیا تھا کہ ودھان سبھا کے 70 نشستوں کے انتخابات 8 فروری کو ہوں گے۔ 11 فروری کو نتائج کا اعلان ہوگا۔ 22 فروری کو موجودہ اسمبلی کی میعاد ختم ہوجائے گی۔ 2015میں عام آدمی پارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی اور اس کے رہنما اروند کیجریوال چیف منسٹر منتخب ہوئے تھے۔ اس بار پھر کیجریوال ہی پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ انہوںنے 70 نشستوں پر اپنے امیدواروں کا اعلان کردیا ہے۔ بی جے پی نے 67 اور انڈین نیشنل کانگریس نے اپنے اتحاد کے ساتھ 66 امیدواروں کا اعلان کیا ہے۔ 2015 کے انتخابات میں کیجریوال نے 67 نشستیں جیت لی تھیں۔ اس انتخاب میں عام آدمی پارٹی کے لیے صورتحال پچھلی بار سے زیادہ تسلی بخش ہے۔ احتجاج، این آر سی، سی اے اے جیسے قوانین نے اقلیتوں میں جو خوف و ہراس پیدا کیا ہے اس نے ان کا ووٹ بی جے پی کی ہر مخالف پارٹی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ان پارٹیوں میں کانگریس کی پوزیشن ایسی نہیں کہ وہ یہ انتخابات جیت سکے۔ وجوہ میں کسی کرشماتی مؤثر قیادت کا نہ ہونا، وعدہ خلافیاں وغیرہ سب شامل ہیں۔ محتاط انتخابی جائزوں کے مطابق اس بار عام آدمی پارٹی 60، بی جے پی 8 اور کانگریس 2 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے گی لیکن کئی تجزیے یہ کہتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی کی نشستوں کی تعداد سابقہ نشستوں سے بڑھ سکتی ہے۔ مسلم ووٹ تقریباً سو فیصدعام آدمی پارٹی کی طرف جائے گا۔
بی جے پی نے ایک طرف یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی کہ یہ احتجاج صرف مسلمانوں کا ہے‘ اسی لیے یہ شاہین باغ، جامع مسجد وغیرہ جیسے علاقوں میں ہورہا ہے۔ دیگر شہروں میں بھی مسلمان ہی اس میں پیش پیش ہیں۔ دوسری طرف وہ اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلمان دینی رہنماؤں کی ان جلسوں اور دھرنوں میں شرکت کا یہ مطلب بیان کیا جا رہا ہے تاکہ ہندو، سکھ اور عیسائی‘ جو اس احتجاج میں شریک ہیں‘ علیحدہ ہوجائیں۔ مسلمان طالب علم رہنماؤں پر تشدد اور مقدمات قائم کرنا انہیں ڈرانے کے لیے ہے تاکہ سٹیج پر کھڑا ہونے والا کوئی نہ رہے۔ اس تمام پالیسی کا ایک مقصد دہلی انتخابات ہیں تاکہ ہندو ووٹر مسلم ووٹر سے الگ سوچ رکھیں اور مذہبی بنیاد پر ووٹ ڈالے جائیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ طالب علم رہنماؤں کو اس چالاکی کا احساس ہے۔ انہوں نے اس احتجاج کو مذہبی احتجاج نہیں بننے دیا بلکہ آئینی اور قانونی احتجاج بنائے رکھا ہے۔ ہندوؤں اور سکھوںسے تنازعات پیدا نہیں کیے‘ انہیں ساتھ ساتھ رکھا ہے۔ دھرنوں میں بہت کامیابی سے عورتوں اور بچوں کو کثیر تعداد میں شریک کیا ہے جن پرپولیس تشدد ممکن نہیں اور تقاریر سے ہر ذہن میں یہ تاثر راسخ کردیا ہے کہ یہ مسلمانوں کے وجود کا مسئلہ ہے اور مسلمانوں کے بعد اگلا نمبر سکھوں کا ہوگا۔
دو بڑے سوال میرے ذہن میں ہیں۔ پہلا یہ کہ این آر سی‘ سی اے اے کے متعلق کیجریوال کا نقطہ نظر اور عمل کیا رہا ہے؟ کانگریس رہنما نے الزام لگایا تھا کہ کیجریوال نے دبے الفاظ میں این آرسی کی مذمت کی ہے‘ کھل کر نہیں۔ جہاں تک میں نے اخباری رپورٹس پڑھی ہیں۔ کیجریوال نے ان قوانین کی مذمت کی ہے اور انہیں واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے لیکن اقلیتی اور مذہبی نقطۂ نظر سے نہیں بلکہ ان کا کہنا تھا کہ سارے غریب طبقے اس کی زد میں آئیں گے اس لیے یہ قوانین غریبوں کے خلاف ہیں۔ یہ لائن بظاہر اپنے ہندو ووٹر کو ناراض نہ کرنے کی ایک کوشش تھی یعنی انہوں نے کھل کر اقلیتوں کا ساتھ نہیں دیا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ پچھلے پانچ سال میں کیجریوال کی کارکردگی کیا ہے؟ تعلیم کے شعبے میں اپنے منشور کے مطابق 500 نئے سکول نہیں کھول سکی اور صرف 30 نئے سکول بنا سکی ہے؛ تاہم اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے موجودہ سکولوں میں ہزار نئے کلاس رومز کا اضافہ کیا ہے اور تعلیمی بجٹ 2018-19 کو 13,997 کروڑ روپے تک لے گئی ہے۔ صحت کے معاملے میں عام آدمی محلہ کلینک کا پروجیکٹ قابل تعریف رہا ہے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں کے بے مہار نرخوں پر بھی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ بجلی کے بلوں میں سبسڈی دی گئی ہے اور 400 یونٹ تک کے بلوں پر یہ سبسڈی 50 فیصد ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے لیے 35 لاکھ درخت لگانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن جولائی 2018 تک صرف 17115 درخت لگائے جا سکے تھے۔ 8 لاکھ ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اس بارے میں مکمل سکوت ہے۔ 650 جھگی آبادیوں سمیت ہر ایک تک پانی پہنچانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن صرف ایک کچی آبادی تک پانی پہنچایا جاسکا۔ عورتوں کی حفاظت، فری دہلی وائی فائی وغیرہ جیسے مسائل اور منصوبوں پر بھی عام آدمی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
دلی والوں کا ووٹ عام آدمی پارٹی ہی کو پڑے گا لیکن الگ الگ وجوہ سے۔ افسوسناک سہی لیکن حقیقت یہی لگتی ہے کہ ایک عام ہندو شہری کے نزدیک این آر سی‘ سی اے اے وغیرہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے ان کا نہیں۔ شاید عام ہندو کا ان مسئلوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ میں یہ واضح کرتا چلوں کہ میری مراد ہندوؤں کا وہ پڑھا لکھا، باشعور طبقہ نہیں جو ہندوستان کا رخ بدلتے دیکھ رہا ہے اور ان ناانصافیوں پر اسے سخت تشویش ہے۔ اسے ہندوتوا قبول نہیں۔ وہ احتجاج میں بھی شریک ہے اور اپنی آواز بھی بلند کر رہا ہے۔ لیکن یہاں بات اس عام ہندو شہری کی ہورہی ہے جسے بلند تر مسائل اور ملکی معاملات کا ادراک نہیں۔ اس کے مسائل بجلی، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ وغیرہ کے ہیں۔ وہ ان کی بنیاد پر کیجریوال کا انتخاب کرے گا جبکہ مسلمانوں کے لیے یہ اپنی بقا کا مسئلہ ہے جو بجلی، سڑکوں کے مسائل سے اوپر ہے۔ باقی اقلیتیں اس لیے کیجریوال کی طرف ہیں کہ وہ بی جے پی سے خائف ہیں۔
کیجریوال پارٹی تو دوبارہ آجائے گی، یہ طے ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ وہ دہلی سے اپنے آپ کو گزشتہ سفر میں باہر کیوں نہیں نکال سکے؟ اسے ملک گیر پارٹی کیوں نہیں بنا سکے؟ مجھے لگتا نہیں کہ اب بھی ایسا ہونے والا ہے۔ مجھے لگتا نہیں کہ اس سے مسلمانوں کو بھی کچھ فرق پڑنے والا ہے۔