ماگھ کا مہینہ ہے ۔ یہ مہینہ فروری میں آیا کرتا ہے ۔یہی بہار کی آمد کا اعلان ہے اور یہی بسنت کے تہوار کا۔مشہور کہاوت ہے' ' آئی بسنت پالا اڑنت ‘ ‘۔ یعنی بسنت آئی اور پالا ہوا ہونا شروع ہوگیا ۔ یہ کہاوت عموما درست ہوتی ہے ۔ پالا اسی طرح ہوا میں اڑتا ہے جیسے پتنگیں۔
کل ایک بھولا بسرامنظر تازہ ہوگیا۔ایک پتنگ کٹ کر ہوا کے دوش پر پچھاڑیں کھاتی جا رہی تھی ۔ ایک چھوٹی سی چند سالہ بچی نے دیکھا تو اسے سمجھ نہ آیا کہ یہ کیا چیز ہے ۔ وہ اس کی طرف اشارہ کرکے حیران ہورہی تھی۔ اس کے معصوم ذہن کے مطابق ہوا میں اڑنے والی ہر چیز چڑیا ہوتی ہے ۔سو یہ بھی چڑیا ہی تھی ۔ مجھے خیال آیا کہ کیا ہمارے بچپن میں بھی یہ ایسی ہی نامانوس چیز ہوتی تھی کہ اس کا نام بھی معلوم نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے بچپن میں چندسالہ بچے کو بھی یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ گڈی ہے یا گڈا۔ دائیں بائیں جھکولے کھاتی پتنگ اور اس کے پیچھے بھاگتے بچے اور بڑے۔اکثر ایک لمبا سا بانس اٹھائے جس کی پھننگ پر ایک جھاڑی بندھی ہوتی تھی تاکہ ڈور کو ''چمیڑ‘‘ سکے۔ دو آنے کی چھوٹی سی گڈی کے پیچھے بھی پورے جوش و خروش سے دوڑا جاتا تھا اور اگر بڑی ہو تو اسے لوٹنے کی خوشی سے بڑی خوشی ہی کوئی نہیں تھی۔ میں ایک پل میں اپنے بچپن میں جا پہنچا اور ایک بچے کی آنکھ سے وہ منظر پھر دیکھے۔ ان بچوں کو مختلف پتنگوں کے صرف نام نہیں، اس فن کی اصطلاحات کا بھی اچھی طرح پتہ ہوتا تھا۔ خال خال ہی بچے ہوں گے جو اس سے بے بہرہ ہوتے ہوں گے۔
ماضی کا ایک منظر دوسرے سے جڑا ہوتا ہے۔ اکیلا نہیں آتا۔ انجن جیسا، ریل گاڑی چلاتا ہوا۔ اور فلم کے مانند ایک سیکنڈ میں سولہ تصویریں دکھاتا ہوا۔ میں چشم زدن میں ایونگ روڈ، نیلا گنبد لاہور، مسجد والی گلی کے اس گھر کی چھت پر پہنچ گیا جہاں میرے والد، میرے بھائی، بہنیں اور پڑوسی جمع تھے اور سب کی نظریں آسمان پر لگی ہوئی تھیں۔ ایک طرف ہمارے پڑوسی بھائی جہانگیر ''پینچا‘‘ لگا رہے تھے۔ ان کی ڈور کا ''پنّا‘‘ بھائی پرویز نے پکڑ رکھا تھا۔ دوسری طرف میرے والد جناب زکی کیفی کا ''پیچ‘‘ چل رہا تھا، ان کے پیچھے چند ہاتھ کے فاصلے پر ڈور کی ''چرخی‘‘ پکڑے میرے بڑے بھائی مسعود تھے۔ ہمارا رخ نیلے گنبد چوک کی طرف تھا۔ ذرا دائیں ہاتھ پر نور محل ہوٹل کی چھت پر وہ ماہر پتنگ باز اور اس کے ساتھی چڑھے ہوئے تھے‘ جس کی دھوم پورے علاقے میں تھی۔ بائیں طرف کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے سفید گنبد اور سنہری کلس دھوپ میں چمک رہے تھے۔ ہمارے پیچھے سے ایک سیاہ ''لکھنؤ کٹ گڈا‘‘ نمودار ہوا۔ ہمارے گھر کے پیچھے کسی گھر میں وہ موذی ہنرمند رہا کرتا تھا جو ہمیشہ سیاہ رنگ کا لکھنؤ کٹ گڈا اڑایا کرتا تھا۔ لکھنؤ کٹ وہ گڈا تھا جس کی مختصر سی دم کسی چہرے پر فرنچ کٹ داڑھی جیسی ہوتی ہے۔ پھرتیلا، تیز رفتار اور ہاتھ مارنے کے لیے لاجواب جسے دہلی میں ''کھینچ مارنا‘‘ کہتے ہیں۔ وہ آسمان کو چھوتی ہوئی پتنگوں کو ان کے مالکوں کے ہاتھوں کے پاس سے ہاتھ مار کر کاٹ دینے میں ماہر تھا۔ محلے میں اس کا نام ''ہاتھ مارو‘‘ مشہور تھا۔ اس کا سیاہ گڈا نمودار ہوتے ہی محلے میں چیخ پکار اور سراسیمگی پھیل گئی۔ ایسا لگا جیسے جنگل میں سیاہ چیتا نکل آیا ہو۔
لیکن یہ تو ابتدائی زمانے کی بات ہے۔ سمن آباد موڑ والے گھر کی یادیں زیادہ بھی ہیں اور رنگین بھی۔ ایک تحریر میں سمانا مشکل ہے۔ میرے والد کو پتنگ بازی کا شوق بچپن سے تھا لیکن پھر انہوں نے ترک کر دی۔ یہی صورت بھائی مسعود کی تھی جنہیں شوق بہت تھا اور بہت ماہر بھی تھے لیکن لڑکپن کے بعد انہوں نے بھی صرف دیکھنے تک خود کو محدود کرلیا تھا۔ مجھے اپنے بڑے بھائیوں اور کزنز کی حرص میں ڈور یا پتنگیں خریدنا تو کئی بار ہوا لیکن بس۔ شوق اس سے آگے نہیں گیا۔
یہ دور دراز ماضی کی نہیں، پتنگ بازی دو تین عشرے پہلے کی بات ہے۔ ممکن ہے کسی جگہ اب بھی وہ بہار آتی ہو لیکن لاہور کا بھرا میلہ شاید ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکا۔ لاہور کا آسمان یک رنگا رہ گیا‘ حالانکہ میں ان لوگوں میں ہوں جو پتنگ بازی کے ہلاکت خیز دور میں داخل ہونے پر اس کے بے لگام اور بے مہار استعمال کو محدود کرنے کے حق میں تھے لیکن اس کا وہ دور ہم نے بچپن اور لڑکپن میں دیکھا تھا‘ جس میں یہ خالص خوشی یا زیادہ سے زیادہ ایک مقابلہ تھا۔ اس کی خوشی مہینوں پہلے سے لگتی تھی، پیسے جمع کرنے شروع کیے جاتے، تیاری ہوتی۔ اس وقت یہ محض ایک تفریح، ایک شوق اور ایک رواج تھا۔ یہ سب کا سنگم بھی تھا اور یہ تفریح بھی بہت عجیب تھی۔ ہر طبقے اور ہر صنف کی تفریح۔ بچوں، لڑکوں لڑکیوں، مردوں، عورتوں، امیر، غریب، متوسط ہر طبقے کے لیے۔ آؤٹ ڈور اور ان ڈور کا خوب صورت امتزاج۔ چھتوں پر وقت گزارنے، دھوپ سینکنے، بہار کی ہوا کا لطف لینے اور پڑوسیوں سے گپیں لگانے کا ایک موقع۔ قیمتی ڈور اور پتنگ کٹ جانے کا ڈر اور ملال۔ ڈوریں اور گڈیاں لوٹنے کی بے بدل خوشی کا ایک ذریعہ۔ سب کچھ ایک دوسرے میں گندھا ہوا جیسے گٹے والے کے گٹے میں رنگ برنگی دھاریاں ایک مٹھاس میں بل کھا کر لپٹی ہوتی تھیں۔
وقت آگے بڑھا۔ ایک سادہ سے شوق نے نمائش کی شکل اختیار کی۔ چھتوں پر پیلے جوڑے نظر آنے لگے۔ لڑکیاں اور عورتیں بسنت پر اس رنگ کا اہتمام کرنے لگیں۔ پھر چھتوں پر ٹیپ ریکارڈر نمودار ہوئے۔ ان کے ساتھ سپیکر جڑے۔ پھر اونچی آوازوں والے ڈیک چھتوں پر ڈکرانے لگے۔ پھر کسی چھت سے باربی کیو کی خوشبو اٹھی اور پورے محلے میں پھیلنے لگی۔ پھر ہر چھت سے دھواں، خوشبو، گانے، رنگ اور پتنگ یک جان ہوگئے۔
وقت ایک قدم اور آگے بڑھا۔ پنج ستارہ ہوٹلوں نے چھتیں سجانی شروع کیں۔ پیکیج بننے شروع ہوئے۔ اداکاراؤں کے ایڈیشن شائع ہونے شروع ہوئے جن میں وہ کیمرے کی آنکھ میں دیکھتے، سرسوں کا رنگ پہنے، پتنگ ہاتھ میں لیے نظر آتی تھیں۔ بسنت عام آدمی کے پاس سے نکل کر امرا کے پہلو میں جا کھڑی ہوئی۔ پھر اس نے دو تین جستیں تیزی سے بھریں۔ جس طرح انسانی تاریخ میں ایک دور دھات کا زمانہ کہلاتا ہے اسی طرح بسنت میں دھاتی ڈور کا ایک دور شامل ہوا۔ یہ عذاب کی کئی صورتیں ساتھ لے کر آیا۔ عام مانجھے کی ڈور کے اگلے بڑے حصے میں پتلی دھات کی ڈور باندھ دی جاتی تاکہ کوئی مخالف ایسی پتنگ نہ کاٹ سکے۔ یہ ڈور جب کبھی بجلی کے تاروں پر گرتی تو ٹرانسفارمر یا اس کی ڈی ایک دھماکے سے اڑا دیتی۔ سارا دن ہر محلے اور گلی کوچے میں دھماکے سنائی دینے لگے۔ یہ بھی ہوا کہ گیلے موسم میں کرنٹ خود پتنگ باز تک پہنچا اور ایک جان لے کر ٹلا۔ تاروں پر نہ گرے تب بھی یہ ڈور کسی کے ہاتھ اور کسی کا گلا لہولہان کرنے لگی۔ پتنگوں کے شوق نے ایک نئی اور تکلیف دہ راہ اختیار کی۔ راتوں کو سرچ لائٹس چھتوں پر روشن ہونے لگیں اور ان کی روشنی میں سفید پتنگیں اڑا کر ان کے میچ شروع ہو گئے۔ سارا دن تو برباد ہوتا ہی تھا‘ رات کا سکون بھی اسی بے ہودگی کی نذر ہونے لگا۔ پھر تندی اور پھر کیمیکل ڈور کا آغاز ہوا۔ گردنوں پر سرخ دھاریاں بننے لگیں۔ صف ماتم بچھنی شروع ہوئی۔ قاتل کو مقتول کا پتہ نہ تھا، مقتول قاتل کا نام نہ جانتا تھا۔
وہی ہوا جو ہر اس تفریح، روایت، رواج، تہوار کا ہوتا ہے جو ابتدا میں صرف خوشی، صرف طمانیت دیا کرتا ہے اور اپنے زوال میں آ کر باقی چیزیں پھینک کر صرف پیسہ اور تکلیف دینا شروع کر دیتا ہے۔ موقع شناس تاجر، منافع خور دکاندار، بے حس لوگ جب خوشیاں بیچنا شروع کرتے ہیں تو سب سے پہلے خوشی کی موت واقع ہوتی ہے۔ شوق اور کھیل بدتمیزی، غل غپاڑہ اور تجارت بن جائے تو یہی ہونا چاہیے۔ ہم نے مشاعروں جیسی تربیت گاہ اس تجارت کی نذر ہوتی دیکھی۔ صحافت جیسی تعلیم اس کی بھینٹ چڑھتے دیکھی۔ کرکٹ جیسے مقبول کھیل کو زندگیاں عذاب کرتے دیکھا۔ ٹاک شوز کو مرغوں کی لڑائی میں بدلتے دیکھا۔ جو بکتا ہے، اور جس طرح بھی بکتا ہے وہ اچھا ہے۔ یہی واحد اصول ٹھہرا۔
سرسوں کی کلی کا رنگ سرخ کبھی نہیں ہوتا تھا۔ اسے خون آلود کر دیا گیا۔ وہی کلی جس کے بارے میں مجید امجد نے کہا تھا:
ہر بار اسی طرح سے فطرت
سونے کی ڈلی سے ڈھالتی ہے
سرسوں کی کلی کی زرد مورت