"SUC" (space) message & send to 7575

زندان بھی نہیں، کوئی زنجیر بھی نہیں

صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی 
اچھا تو اس طرح بدلتی ہے لمحوں اور ساعتوں میں یہ دنیا۔ انہیں بھی پتہ چل گیا جنہوں نے کبھی بوند بھر بھی نہیں چکھی۔ بلکہ ریاض خیر آبادی نے بھی، جن کا یہ شعر ہے، ساری عمر خمریات پرکمال شعر کہے اور خودکبھی ایک قطرہ نہ چکھا۔ اگر زندہ ہوتے تو گردشِ جام سے بڑھ کر گردش جرثومہ سے دنیا بدلتے دیکھتے۔ حیران کم ہوتے، پریشان زیادہ اس لیے کہ ماسک پہنے پھر رہے ہوتے۔ 
دنیا بدل گئی۔ ارے! کوئی ایسی ویسی بدل گئی۔ کون سی چیز ہے جو اپنی اصل حالت پر ہے؟ کیا چیز ہے جو معمول کے مطابق ہے؟ وائرس کا خوف اور حکومت کا حکم نہ بھی ہو تب بھی کس لیے گھر سے نکلیں اور نکل کر کریں کیا؟ کون سا کام ہو سکے گا؟ اور کون ملے گا آپ سے؟ چلیے نکل بھی گئے تو کیا دیکھیں گے؟ سڑکیں اور راستے کھلے، کشادہ اور بے رکاوٹ۔ گاڑی سے اترے تو نقاب پوشوں سے مل لیں وہ بھی اگر کسی مجبوری میں گھر سے نکلے ہیں تو۔ کوئی جاننے والا مل بھی گیا، اور وہ بیمار نہیں ہے تب بھی ہر گفتگو میں شریک تیسرا بندہ کورونا وائرس ہے۔ کام پہلے کون سا تیزی سے ہوتا تھا ہمارے یہاں سرکاری دفتروں میں۔ اس رہے سہے سے بھی چھٹی ہوئی۔ اب تو سرکاری، نیم سرکاری دفاتر بس خشک کھانسی کرتے ہوئے دیکھ لیں۔ بازار، مارکیٹیں اور شاپنگ مالزاپنے اوپر نزلہ گراتے ہوئے۔ ائیرپورٹ، ریلوے سٹیشن، بس اڈے سانس لینے کی دشواری کا سامنا کرتے ہوئے۔ ریستوران، ہوٹل نقاب پہن کر ان گاہکوں کا انتظار کرتے ہوئے جو آنے والے نہیں۔ یہ سب دیکھنے کے لیے نکل کر کیا کریں گے۔ سوشل میڈیا کی تصویروں اور ویڈیوز سے کام چلا لیں۔ صورتحال ترقی یافتہ ممالک میں جتنی بھیانک ہے اتنی ابھی ہمارے یہاں نہیں، لاہور دہشت کے عالم میں ضرور ہے لیکن دیگر شہروں سے قدرے کم‘ لیکن دنیا تو ہر ہر گھنٹے بعد بدل رہی ہے۔ کیا پتہ اگلے گھنٹے کیا خبر مل جائے۔ 
ایک بات اور پتہ چل گئی سب کو۔ اپنی مرضی سے کہیں نہ جانا اور گھر میں بیٹھ رہنا اور بات ہے اور جبری طور پر بٹھا دیا جانا بالکل اور۔ دوستوں سے ازخود نہ ملنا الگ فیصلہ ہے اور ملنے جلنے پر پابندی لگ جانا الگ چیز۔ محفلوں، مشاعروں میں خود جانے سے معذرت عام حالات میں اختیار ہے اور محفلیں مشاعرے اجڑ جانا اور کہیں جا نہ سکنا بے اختیاری کی تکلیف۔
لکھنے پڑھنے والے اور شاعر لوگ گوشہ نشینی اور تنہائی کی بڑی خواہش کرتے پھرتے ہیں ناں۔ کورونا نے کہا آؤ تمہاری یہ خواہش پوری کر ہی دیتا ہوں اور پوری بھی لمبے عرصے کے لیے کرتا ہوں۔ ساری حسرتیں نکال لو۔ جتنے شعر کہنے ہوں، جتنی نظمیں لکھنی ہوں، جتنے مضامین مکمل کرنے ہوں، ان کے لیے فارغ کر دیتا ہوں۔ تو اچانک ایک دن دیکھا کہ خود سے ملاقات کے خواہش مند لوگوں کی دیرینہ خواہش پوری ہو گئی بلکہ خواب کی تعبیر مل گئی۔ بٹھا دیے گئے پکڑ دھکڑ کے، کہ لو خود سے مصافحہ کرو، خود سے معانقہ اور کرتے رہو خود کلامی۔ تم ہی کہتے تھے کہ خود سے اچھا دوست اور کوئی نہیں ہوتا۔ کرو اس اچھے دوست سے جی بھر کے دوستی۔ اور اب حال یہ ہے کہ گوشہ گیری کے لیے بلبلانے والے باہر جانے کے لیے بلبلا رہے ہیں۔ نہ گھر کا کونا اچھا لگ رہا ہے نہ خلوت خانہ۔ خود سے مل مل کر بیزاری سی ہوگئی لیکن جائیں تو جائیں کہاں۔ کورونا جنہیں لاحق ہوا سو ہوا۔ جنہیں نہیں ہوا، وہ بھی مریض بن کر بیٹھے ہیں۔ کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو اس وائرس نے کم سے کم ایک لذیذ خواب کو ڈراؤنا سپنا بنا دیا۔
ایک میری ہی کیا ہم سب کی عام طور پر یہی شکایت تھی کہ کیا کریں‘وقت ہی نہیں ملتا معمول کے کاموں سے۔ دفتر، کاروبار، ملاقاتوں، محفلوں نے ایسا جکڑ رکھا ہے اور ایسا معمول بنا دیا ہے کہ بہت سے ضروری کام ہو ہی نہیں پاتے۔ تین چار کتابیں نظرثانی کے انتظار میں مکمل پڑی ہیں، ان بکھیڑوں سے فرصت ہوتی تو مکمل کرلیتے۔ کتابوں کا ڈھیر اِدھر اُدھر بکھرا اور کارٹونوں میں بند پڑا ہے۔ ضروری کتاب وقت پر ملتی ہی نہیں۔ وقت ملتا تو ذرا سلیقے سے لگا لی جاتیں۔ اور ہاں! پرانے کاغذات میں کئی اہم مضامین اور مسودات بند ہیں، کاش کچھ فرصت ملتی تو انہیں نکال کر ہوا لگا لیتے۔ شاید کسی قابل بن جائیں۔ کچھ فلمیں ڈرامے دیکھ لیتے۔کتابیں پڑھ لیتے لیکن کرتے کیسے؟ فرصت ملتی تو کرتے نا؟
اور اب فرصت سے بیٹھے ٹانگیں ہلا رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ وقت کٹتا ہی نہیں کسی طرح۔ اوہو بھئی! یہ نظرثانی والی کتابیں مکمل کربھی لیں تو کیا؟ کون چھاپے گا، کون بیچے گا اور کون خریدے گا؟ ہے کوئی اس کے لیے فارغ بھلا؟ اور یہ کتابوں کا ڈھیر ہے تو سہی لیکن کون سی یہ کتابیں بھاگی جا رہی ہیں کہیں؟ کرلیں گے ترتیب سے کسی دن؟ اور پرانے مسودات۔ بھئی اتنا وقت ہوگیا انہیں، اور بھی ہوجائے گا تو کیا قیامت آجائے گی؟ کون سا ایسا اہم کام ہے، جانے دو۔ اور یہ فلمیں،ڈرامے۔ سراسر وقت کا ضیاع۔جھوٹ اور پروپیگنڈے کے انبار۔ اور کتابیں کتنی پڑھیں بھئی؟ بینائی متاثر ہورہی ہے مسلسل پڑھ پڑھ کر۔
اچانک کچھ لوگ یاد آنے لگے۔ یار! فرخندہ کے گھر بیٹا ہوا تھا، مبارک کے لیے جانا چاہیے تھا۔ کیا چلیں؟ ماجد کا آپریشن ہوا تھا سٹنٹس ڈالے گئے تھے، اس وقت جا نہیں سکے صرف فون کیا تھا، اب ہو آتے ہیں اور خواجہ صاحب نے گھر بدلا تھا، کئی بار کہا لیکن نہیں گئے تھے۔ اب مناسب ہوگا جانا؟ نجمہ نے بیٹی کی منگنی کی مٹھائی بھیجی تھی۔ مبارک اور شکریے کیلئے اب وقت ہے، چلتے ہیں۔ اور ہاں!کافی دن سے سوچ رہے تھے کہ قمیصیں پرانی ہوگئی ہیں ،اس سال کوئی خریدی ہی نہیں۔ روٹین سے وقت نکلتا تو ایک چکر بازار کا لگاتے۔ اب لگا لیں؟ اور حلقۂ خیر خواہانِ ادب کا ماہانہ مشاعرہ بھی تو آج کے دن ہوتا ہے۔ کتنے سال سے ان کا تقاضا تھا کہ آپ کبھی آتے نہیں۔ آج ان کا یہ تقاضا پورا کردیں؟ دوستوں سے ملاقات ہوگی۔ کچھ اچھے شعر سنیں گے اور شاید کچھ اچھا لکھنے کی تحریک بھی ہوجائے۔ 
لیکن یہ سب ہو کیسے؟ فرخندہ، ماجد،خواجہ صاحب، نجمہ سوچیں گے نہیں کہ اس وقت آئے نہیں، اب وائرس ہمیں لگانے آگئے ہیں۔ اور بازاروں میں تو لوگ ہوتے ہیں۔ کیا پتہ کس سیلز مین کے ہاتھوں پر وائرس رینگ رہے ہوں۔ کس دروازے کے ہینڈل پر کورونا منتظر بیٹھا ہو۔ اور اول تو مشاعرہ ہوہی نہیں رہا۔ ہوا بھی تو مشاعرے میں جانا نہایت غلط ہوگا۔ دل اور گھر والے کیسے مانیں گے کہ دنیا مر رہی ہے اور انہیں مشاعرے سوجھ رہے ہیں۔ اور پھر کورونا بھی تو شاعری کی طرح متعدی مرض ہے۔ دو دو روگ نہیں سنبھالے جائیں گے۔ توبہ ہے۔ اس کورونا نے بھی گھر میں بند کرکے رکھ دیا۔ حقوق العباد تک پورے کرنے نہیں دے رہا۔ رشتے داروں، دوستوں تک سے دور کرکے رکھ دیا سب کو۔ قید مانگی تھی جدائی تو نہیں مانگی تھی۔ حضرت ریاض خیر آبادی! جس ریاض میں رہیں خیر سے آباد رہیں۔ دنیا تو یقینا بدل گئی لیکن عجیب طرح سے بدلی۔ شاید یہ آپ کے تصور میں بھی نہ ہو۔ ایک جرثومہ ہے جو انسانی آنکھ دیکھ بھی نہیں سکتی۔ اس نے دنیا تبدیل کردی ہے۔ آپ کے معاصر جگر صاحب کا شعر بھی پورا ہوگیا:
اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا / کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے 
ایسی رہائی جو گرفتاری سے بندھی ہوئی ہو نہ دیکھی نہ سنی۔ جس قید میں ساری دنیا، سارے شہر، ساری قومیں، سب بستیاں، دنیا بھر کے مرد عورتیں بچے گرفتار ہوکر رہ جائیں۔ ایسی قید جس میں نہ جیل خانہ ہو، نہ قیدیوں کے ہاتھ پاؤں باندھے گئے ہوں۔ نہ ہتھکڑیاں لگائی گئی ہوں، نہ بیڑیاں پہنائی گئی ہوں۔ نہ مخصوص لباس پہنائے گئے ہوں۔ نہ مقدمات چلائے گئے ہوں، نہ فرد جرم عائد کی گئی ہو۔ کیا ایسی قید کبھی سنی تھی آپ نے؟ یا دیکھی تھی؟ آپ کے بڑوں نے یا ان کے بڑوں نے؟ کیا ایسی قیدوبند آپ نے کہانیوں میں بھی کبھی پڑھی تھی۔ نہیں پڑھی ہوگی۔ لیکن ہمیں دیکھ لیں ایسی ہی گرفتاریوں میں ہیں۔ میں نے آپ کا شعر سب کو سنایا، اب آپ میرا شعر بھی سن لیں 
دنیا عجیب قید میں محبوس ہے سعودؔ / زندان بھی نہیں، کوئی زنجیر بھی نہیں 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں