1997 میں جب پہلی بار پرانی دلّی سے نکل کر ہمایوں کا مقبرہ دیکھا تھا توحیرت سی ہوئی تھی کہ اچھا! پرانی دلی سے باہر بھی اتنی تاریخی عمارتیں ہیں۔ اب اپنی حیرت پر حیرت ہوتی ہے۔ بھئی اصل پرانی دلّی تو ہے ہی یہ۔ شاہجہاں آباد تو زمین پر بہت بعد کی لکیریں ہیں۔ اصل دلی تو تھی ہی مہرولی اور اس کا نواحی علاقہ۔ یہ علاقہ تو خود ایک گنج شائیگاں ہے۔ صفدر جنگ کامقبرہ، ہمایوں کا مقبرہ، مسجد قوت الاسلام، اشوک کی لاٹھ، قطب مینار اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ۔ ہمایوں کے مقبرے پراس وقت بحالی کے کام کا آغاز نہیں ہوا تھا اور جیسی لازوال اداسی اسے گھیرے ہوئی تھی اس سے میرادل بہت دن تک نہیں نکلا تھا
سائے تھے سو گرتی ہوئی دیوار سے مل آئے
کیا چبوترہ ہے اس مقبرے کا جس میں باون مغل شہزادے شہزادیاں مدفون ہیں اور وہ کمرہ جہاں سے 1857میں میجر ہڈسن نے بہادرشاہ ظفر کوگرفتار کیا۔ اگر جنگ آزادی کامیاب ہوجاتی تو انگریزوں کے قدم بہت پہلے اکھڑچکے ہوتے، اس کیلئے دوسری جنگ عظیم تک بے بہا قربانیوں اوربے بہا انتظار کی نوبت نہ آتی۔ ان دنوں میں نے لال قلعہ تازہ تازہ دیکھا تھا، اس کا کروفر غروب ہونے کے بعد بھی جگمگاتا نظر آیا تھا۔ خاک میں مل کر بھی یہ اورنگ شاہ جہانی شعاعیں بکھیرتا محسوس ہوا تھا۔ اس لیے ایک لمحہ ٹھہر کر بہادرشاہ ظفر کی قسمت کوسوچا تو دل جیسے مٹھی نے بھینچ لیاکہ سلطنت خواہ دہلی تا پالم ہی سہی ایک رہاسہا نشان تو تھا؛ اگرچہ یہ بھی ادراک ہے کہ ڈیڑھ سوسال بعد منظر سے باہر بیٹھ کر عزیمت اور استقامت کی نصیحتیں کرنا اور مشورے دینا آسان ہے، وہاں اس لمحے میں موجودہونا ایک بالکل الگ بات تھی۔
کیا مقدر تھا اس بادشاہ کا جس کے القابات اس کوملنے والے فرنگی وظیفے کی رقم کے اعداد سے زیادہ تھے۔ سمجھ نہیں آتا کہ اس کردارپر ہنسیں، روئیں، احترام کریں، عبرت پکڑیں یا مرگ مفاجات کے بارے میں تقدیرکے قاضی کا فتویٰ یاد کرکے صبر کرلیں۔ ظفرکا دیوان دیکھیں تو ایک صاحب ذوق، صوفی منش، نرم دل شاعرسے ملاقات ہوتی ہے۔ علوم و فنون کی سرپرستی دیکھیں توعلم ہوتا ہے کہ ایک سے ایک صاحب کمال اس عہد میں سانس لیتاتھا۔ شاہی خرچ، دسترخوان کی نزاکتیں اورشاہی روایات دیکھیں تو اس سے پہلے کا سب سنا ہوا اورپڑھا ہوا بھول جانے کو جی چاہتا ہے۔ پتہ نہیں وہ اصل میں تھا کیا؟ بادشاہ، شاعر، صوفی، فقیر۔ شاید ایک بدقسمت شخص جس نے بادشاہی اور فقیری ایک ہی وقت میں کی۔
اور جب یہ پڑھتے ہیں کہ پورے برصغیر پاک و ہند میںفرنگی فوجی اور دیگر شعبوں سے وابستہ لوگ محض ہزاروں کی تعداد میں تھے اور انہوں نے لاکھوں بلکہ کروڑوں کی آبادی کومفتوح کرلیا تھا تو سر جھک جاتا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ1857 میں کامیاب انگریز نہیں ہوئے تھے۔ کامیاب جنون کو پہنچی ہوئی وہ عیش و عشرت ہوئی تھی جو اپنے دلدادہ شاہ اودھ واجد علی شاہ کو مٹیا برج کلکتہ تک لے گئی تھی۔ کامیاب وہ طاؤس و رباب ہوئے تھے جنہوں نے شاہ ہند بہادرشاہ ظفر کورنگون کے ایک گیراج میں لاکر اسیر کیا تھا۔ کامیاب وہ مصلحت کوشی اورعافیت پسندی ہوئی تھی جس نے سابق مغل صوبے داروں کو دلّی کی طرف سے آنکھ بند رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ طمع زادلوگ تھے۔ جاگیروں کو دستاروں پر ترجیح دیتے اور زمین بوسی کو سر کشیدگی سے افضل ٹھہراتے تھے۔ لیکن طمع زادوں کو کبھی علم نہیں ہوتاکہ دستار کے بعدزمین بوس ہونے کا اگلا نمبر جاگیرہی کا ہوتا ہے۔ یہ ہوتو صدیاں لمحوں میں بدل جاتی ہیں۔
سلطان قطب الدین ایبک نے شہاب الدین غوری کے دہلی کے آخری راجپوت راجہ پرتھوی راج کو 1192 عیسوی میں شکست دینے اور مسلم سلطنت کے آغاز کے جشن کے ہنگام مسجد قوت الاسلام بنوائی تھی جو اس پورے خطے میں پہلی شاہی مسجد تھی۔ اسی کے قریب قطب مینار بنایا گیا تھا۔ یہ مینارمسجد کا مینار بھی تھا، فتح کی علامت بھی اورموذن کے لیے جائے اذان بھی۔ مسجد کے آثار میں چند محرابیں اور کچھ ستون باقی رہ گئے ہیں لیکن آج بھی یہ مسجد اسم بامسمیٰ ہے۔ قوت الاسلام یہاں ان گنت مساجد اور لامتناہی اذانوں کا پہلا باب ثابت ہوئی۔ ہندوستان کا یہ علاقہ چپے چپے پر مسلمان یادگاروں کا حامل ہے۔
قطب مینار کی عظمت حیران کن ہے۔ شاید یہ مغلوں کیلئے بھی حیران کن رہا ہوگا جو ہندوستان میں بلنداور خوبصورت عمارات کاماہر ترین خاندان تھا۔ قطب مینارکو دیکھا تو ایک بار پھر یہ بات طے ہوگئی کہ کسی عمارت کی عظمت ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھی جاسکتی جب تک اسے خود رُوبرو نہ دیکھا ہو۔ فلموں، تصویروں سے بات بنتی ہی نہیں۔ مینار نہ گول ہے نہ چوکور۔ بہت سی نیم دائروی سنگی پٹیاں لمبائی کے رخ جڑی ہوئی نظر آتی ہیں جنہیں ایک بندھن کی طرح قرآن مجید کی آیات کی خشتی پٹیاں افقی چوڑائی اور گولائی میں جوڑرہی ہیں جیسے لمبی لمبی لکڑیوں کو کئی زنجیروں میں یک جا اور یک جان کر دیا جائے۔ یہ آیات نیچے سے اوپر تک تھوڑے تھوڑے فاصلے پرمینار کے چار طرف گھومتی ہیں۔ مینار کی ابتدائی منزلیں قطب الدین ایبک، بعد کی دو منزلیں شمس الدین التتمش اور آخری دو منزلیں فیروز خلجی نے مکمل کی تھیں۔ بظاہراسی لیے آخری منزلوں کی تعمیر مختلف طرح کے پتھروں مثلاً سنگ مرمر سے کی گئی ہے۔
مسجد کے احاطے میں ہی لوہے کی وہ مشہور لاٹھ نصب ہے جو مشہورتو اشوک کی لاٹھ کے نام سے ہے لیکن اس پرکھدی ہوئی عبارت میں چندراگپت کا نام ہے۔ بظاہر یہ لاٹھ یہاں پہلے سے نصب تھی اور اسے اسی طرح رہنے دیا گیا‘ لیکن اصل کمال یہ ہے کہ اس لوہے کو زنگ نہیں لگا‘ اور یہ اس قدیم زمانے میں لاٹھ بنانے والوں کے حیرت انگیز علم کی دلیل ہے۔ میٹلرجی کے جدید سائنسی علم سے صدیوں پہلے وہ جانتے تھے کہ کس طریقے سے لوہے کو صدیوں تک زنگ سے بچایا جاسکتا ہے‘ اور اسی لیے اس پر کھدی ہوئی قدیم عبارتیں اب تک محفوظ ہیں۔ ان عبارتوں میں سے کئی آج تک پڑھی نہیں گئی ہیں اور ہر عبارت کا تعلق بظاہر مختلف زمانوں اور الگ الگ راجاؤںسے ہے۔
تاریخی عمارتوں میں اس قسم کی باتیں بہت مشہور ہوجاتی ہیں جو سیاحوں کی دل چسپی بڑھا سکتی ہوں۔ مشہور ہے کہ اگر آپ لاٹھ سے کمر لگا کر بازو پیچھے سے اس کے گرد گھما کر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں ملا لیں تو آپ کی ہر خواہش پوری ہوسکتی ہے۔ لیکن اب تو لاٹھ کے گردایک احاطہ بنا کر اس کے قریب جانے کا راستہ ختم کردیا گیا ہے اس لیے یاد رکھیں کہ آپ کی کوئی خواہش بھی پوری نہیں ہوسکتی۔
کبھی کسی تاریخی عمارت میں یہ خیال ضرورآتا ہے کہ ہم جو چندگھنٹوں میں سرسری اورگہری نظر سے اس کے درودیوار کو دیکھ کر گزر جاتے ہیں صدیوں پہلے جب اس کا آغاز ہوا ہوگا تو اس سے پہلے کتنی صدیوں نے اس کی راہ ہموار کی ہوگی۔ مہرولی نے مسجداور مینار کو اپنے دامن میں جگہ دی اور آج مہرولی انہی سے پہچانی جاتی ہے۔
ایبک کا مزار تو خیر لاہور میں میرے دفتر سے پیدل کے راستے پر ایبک روڈ پر ہے اور کئی بار وہاں جانا ہوا ہے‘ لیکن وہیںقطب مینار کے پاس اس جلیل القدر سلطان کا مزار ہے جسے ہم التتمش کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ لیکن بات ایبک اور التتمش پر ختم کہاں ہوتی ہے۔ ایک ملکہ بھی تو ہے اس لڑی میں۔ بڑے خانوادے کی بیٹی۔ رضیہ سلطانہ بنت شمس الدین التتمش۔ التتمش کی چہیتی بیٹی۔ قطب الدین ایبک کی لاڈلی نواسی۔ ہندوستان کی پہلی مسلم ملکہ۔ اپنے بھائی کے ساتھ لڑائی میں ماری گئی یاگرفتار ہوکر قتل ہوئی۔ بہرحال غیرطبعی موت ہوئی۔ رضیہ سلطانہ کے کردارنے مؤرخین کو تومتاثر کیا سو کیا۔ ناول نگاروں، افسانہ نویسوں اور فلم سازوں کیلئے اس کردار میں دل چسپی کے بہت سامان تھے۔ عورت، جوانی، خوبصورتی، سلطنت، مخالفین، عشق‘ وہ بھی ایک غلام کے ساتھ، جنگیں۔ اور کیا چاہیے ناول کو۔ سارے لوازمات تو پورے تھے۔
ایک حسرت سی ٹوٹے شیشے کی طرح چبھ جاتی ہے دل میں جب یہ نام لکھتا ہوں۔ پوری کوشش تھی کہ ترکمان گیٹ پراس کی قبردیکھ آؤں لیکن ممکن نہیں ہوسکا۔ دو قبریں جو بھوجالی پہاڑی کے پاس بلبل خانہ میں ہیں جنہیں مقامی لوگ رجّی شجّی کی قبر کہتے ہیں۔ یہ رضیہ اور اس کی بہن شازیہ کی قبریں ہیں۔