7 دسمبر2016ء کی سیاہ پڑتی شام یاد ہے ۔ چترال سے اسلام آباد آنے والا پی آئی اے کا چھوٹا طیارہ حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہوگیا تھا۔جاں بحق ہونے والوں میں جنید جمشید کی ہر دل عزیز شخصیت بھی تھی ۔یہ حادثہ جہاز کے ساتھ دلوں کے بھی ٹکڑے کرگیا تھا۔
روز اک حادثہ پیش آتا ہوا‘سابقہ حادثوں کو بھلاتا ہوا
اور سب سے بڑی قوم کی بے حسی ‘سانحوں سے بڑا سانحہ یا نبی ؐ
22مئی2020ء کی سہ پہر ایک اور خنجر نما خبر ہماری منتظر تھی۔ وبائے عام اور اس کے قتلِ عام کے دوران‘ رمضان کے آخری دنوں میں جب عید کی خوشی واحد اچھی خبر تھی بہت سے گھرانوں کی یہ خوشی بھی گہنا گئی ۔پی آئی کی کراچی جانے والی ائیر بس ائیر پورٹ سے چند سو فٹ کے فاصلے پر کریش ہوگئی ۔ دو مسافر معجزانہ طور پر بچ گئے۔ جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے زخم کبھی مندمل نہیں ہوں گے اور ان کے گھرانوں پر کیا موقوف ‘ہر دردمند دل غم سے بوجھل ہوگیا ۔فورا ہی وہ ماہرانہ تبصرے اور الزام تراشیاں شروع ہوگئیں جو عام رویہ ہے اور جسے سوشل میڈیا نے مزید بدنما کر دیا ہے ۔کسی ناگہانی حادثے کی صورت میں پڑھے لکھے طبقے‘ متعلقہ حکام ‘اور عام لوگوں کا فوری رد عمل ہی کسی قوم کا مجموعی کردار ظاہر کرتا ہے ۔لیکن بدقسمتی کہ بہت سے لوگوں کو نہ اپنے مقام اور منصب کی پروا ہے‘ نہ ذمے داری کا احساس اور نہ یہ فکر کہ ان غم زدہ گھروں پر کیا گزرے گی ۔
پی ٹی آئی کی ایک رکن پنجاب اسمبلی نے فوراً ہی سوشل میڈیا پر بتایا کہ جائے حادثہ پر لوگوں نے لوٹ مار شروع کردی۔ عورتوں کے زیورات اتار لیے اور بٹوے‘پرس اور قیمتی اشیاچرا لی گئیں ۔یہ بالکل بے بنیاد خبر تھی‘ لیکن اندازہ کیجیے کہ صدمے میں ڈوبے گھرانوں پر اس خبر سے کیا خنجر چلے ہوں گے ۔ اور قوم کا کردار کیا سامنے آیا ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ یہ بالکل جھوٹی بات تھی ‘ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہی نہیں اور ان حالات میں پیش آنا ممکن بھی نہیں تھا جہاں آگ اور شعلے بلند ہوں ‘ طیارہ گنجان آبادی کے درمیان گرا ہو اور محلے والوں سمیت‘رینجرز‘پولیس‘ایدھی کا عملہ فوراً جائے حادثہ پر پہنچ گیا ہو۔ ایسی افواہیں پھیلانے والوں کی غیر ذمے داری ‘ شہرت پسندی سے زیادہ کسی سچ کا اظہار نہیں کرتی تھیں۔
ماڈل کالونی کے مکینوں اور قریبی نوجوانوں کو داد ملنی چاہیے کہ انہوں نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر روزے کی حالت میں امدادی کام شروع کیے اور میتوں کو محفوظ کیا ۔اسی طرح ایدھی ٹرسٹ‘ رینجرز اور پولیس نے نہایت فرض شناسی کے ساتھ امدادی کارروائی کی ۔
مسائل اتنے چومکھے ہیں ‘ نااہلی اتنی سرایت کرچکی ہے اور سچ پر جھوٹ کا پردہ اتنی بار ڈالا جاچکا ہے کہ ہر افواہ درست تسلیم بھی کرلی جاتی ہے اور لوگوں کا تحقیقات پر اعتماد بھی ختم ہوچکا ہے۔ تحقیقاتی ٹیموں کا نتائج کو کوئی خاص رخ دینا بھی اب کوئی نئی بات نہیں رہی اور اگر سو فیصد غیر جانبدار تفتیش ہو اور سچ بتایا جائے تب بھی اس پر سوالیہ نشانات لگنا معمول ہے ۔لوگوں کا اعتماد ختم ہوچکا ہے ۔سچ یہ ہے کہ کم از کم مجھے معلوم نہیں کہ چترال والے طیارے کی تحقیقات کا نتیجہ کیا تھا؟ کس کی غلطی تھی ؟ اور ذمے داروں کو کیا سزا ملی تھی ؟ہر حادثہ کچھ مدت بعد نئے حادثے اور نئی تحقیقات کے ملبے تلے دب جاتا ہے ‘لیکن ان سب کے باوجود سچ کا دامن نہیں چھوڑا جاسکتا۔ کراچی کے حادثے میں انسانی غلطی کیاہے ‘فنی خرابی کیااورائیر ٹریفک کنٹرول کی غیر ذمے داری کیسی؟ بھانت بھانت کی بولیاں ہیں ۔کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔اب زیادہ غلطی مرحوم پائلٹ کی بتائی جارہی ہے جو پی آئی اے کے عمدہ پائلٹس میں سے ایک تھے ۔کئی باتیں کہی جارہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ پائلٹ لینڈنگ گیئرکھولنا بھول گیا تھا اور اس کے بغیر ہی رن وے پر جہاز اتاردیا۔رن وے پر انجنوں کو رگڑ لگی ۔جب پائلٹ نے طیارہ دوبارہ فضا میں اٹھانے کا فیصلہ کیا تو انجن بتدریج ساتھ چھوڑ گئے اور مطلوبہ بلندی بس میں نہیں رہی۔ لیکن جہاز کا لینڈنگ گیئرکھولا نہ جائے تو سنسر کام کرکے الارم کرتا ہے ۔وہ بھی ناکارہ ہو تو دوسرا سنسر یہی کام کرتا ہے۔پھر معاون پائلٹ اور انجینئر کے ہوتے ہوئے تینوں کا لینڈنگ گیئر کو بھول جانا عملًا ناممکن لگتا ہے۔اے ٹی سی کا یہ فرض ہے کہ وہ اترتے جہاز کا لینڈنگ گیئر دوربین سے چیک کرے ۔اس نے کاک پٹ میں یہ بات کیوں نہیں بتائی ؟
ایک بات یہ کہی جارہی ہے کہ ہرجہاز کے سائز‘وزن کے اعتبار سے اترنے کے لیے مطلوبہ بلندی اور رفتار متعین ہے ۔بد قسمت جہاز کی بلندی اور رفتار اس سے زیادہ تھی جو پائلٹ کو بتائی گئی لیکن اس نے اس پر توجہ نہیں دی ۔جب رن وے پر جہاز اترا اور پائلٹ کو اندازہ ہوا کہ جہاز روکنا مشکل ہے تو اس نے جہاز دوبارہ فضا میں اٹھا لیا لیکن اس دوران انجنوں کو سخت نقصان پہنچ چکا تھا۔لیکن یہ قیاس بھی بہرحال حیران کن ہے ۔ غلطی تو انسان سے ہونا ممکن ہے ‘لیکن تین تجربہ کار لوگ کاک پٹ میں موجود ہوں اور تینوں یہ کام ہونے دیں ‘عملًا مشکل لگتا ہے ۔ کراچی تک کی فلائٹ ہموار تھی۔کراچی کے قریب وہ فنی خرابی پیش آئی جس کی وجہ سے ہوابازوں کو بعض مشکل فیصلوں پر مجبور ہونا پڑا ‘لیکن یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس فنی خرابی کوزمین پر اے ٹی سی کو بتایا گیا ؟اور اگر بتایا گیا تو کب اور کس طرح رپورٹ کیا گیا؟اگر روانگی سے پہلے یہ فنی خرابی موجود تھی‘ لیکن پھر بھی اسے کلیئر کردیا گیا تو پھر یہ خون اس عملے کے سر ہے۔بلیک باکس کی تفصیلات اور دو طرفہ گفتگو کا ریکارڈ ہی پردہ اٹھا سکتا ہے۔ پردہ کشائی کے لیے تین ماہ کی مہلت بہت زیادہ ہے۔اس سے نصف مدت میں مکمل ہونا چاہیے۔
کچھ لوگوں کی ذہنیت کا بھی ایسے مواقع پر اندازہ ہوتا ہے جن کا کام ہی جنازوںکو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ایسی ہی ایک پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں کہنے والے نے سربراہ پی آئی اے سے کہا ہے کہ جان سے گزرنے والوں کے لیے شہیدکے الفاظ استعمال کرنا بند کیا جائے ۔ یہ مسافر نہ جہادی تھے‘نہ ملک اور اسلام کے دشمنوں سے لڑنے گئے تھے وہ تو بس کراچی پہنچنا چاہتے تھے ۔یہ معصوم شہری ایک اذیت ناک‘خوفناک موت کا شکار ہوئے جس کی وجہ آپ کے ادارے کی دیرینہ نا اہلی اور غفلت ہے اس لیے انہیں شہید کہنا بند کیا جائے ۔
ایک منٹ کے لیے اس پوسٹ میں موجود چند درست باتوں کو بھول کر اس ماں کا تصور کیجیے جس کا بیٹا اچانک رخصت ہوگیا۔اب وہ کسی قیمت پر واپس نہیں آسکتا۔نہ کسی رقم سے‘ نہ کسی تفتیش سے‘نہ کسی تسلی سے۔وہ ہمیشہ کے لیے چلاگیا ۔ایسا زخم دے کرجو ہر عید پر اور طیارے کے ہر حادثے پر رسنے لگے گا۔مرحومین کے رشتے دار یہی دعا کرتے ہیں کہ جانے والے کودوسرے جہان کی بہترین نعمتیں میسر آئیں ۔مسلمان کی تو دعا ہی یہی ہوتی ہے کہ نبیین ‘صدیقین اور شہداء میں جگہ ملے کہ وہ زندہ ہوتے ہیں اگرچہ ان کی زندگی شعور سے باہر ہے ۔لیکن یہ صاحب چاہتے ہیں کہ ماں کا بیٹا تو اس سے چھن ہی گیا ‘ اب یہ خواہش ‘یہ لقب بھی اس سے چھن جائے کہ اس کا رتبہ شہید کا ہے ۔وہ بالکل تہی دست ہوجائے ۔مجھے یقین ہے کہ ان صاحب کویہ معلوم ہوگا کہ شہادت کا رتبہ صرف جہاد‘محاذ کے ساتھ مخصوص نہیں ۔ شہادت کی اقسام آج سے نہیں چودہ سو سال سے معروف ہیں جن میں مسلمان کی ناگہانی موت بھی شامل ہے ۔لیکن پوسٹ کا اصل مقصد غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش ناکام بنانا اور درست تحقیقات کروانا ہے ہی نہیں ۔ورنہ یہی بات ٹھیک الفاظ میں کہہ کر اسے غیر متنازعہ بھی بنایا جاسکتا تھا کیوں کہ نااہلی سامنے لانے اور سچ واضح کرنے سے کسی ایک شخص کوبھی انکار نہیں ہے ۔یہ تو متفقہ آواز ہے ۔ لیکن اس پوسٹ کا مقصد شہید اور شہادت کے تصور کو مجروح کرنا ہے خواہ اس میں پچھاڑیں کھاتے گھرانوں کے دل پر خنجر ہی کیوں چلانا پڑے ۔ہمیں مرہم رکھنا نہیں آتا‘ لیکن زخم لگانے میں ہم سے زیادہ ماہر کوئی نہیں ۔