"SUC" (space) message & send to 7575

سنتے کانوں، دیکھتی آنکھوں کی طرف سے

ہم جو سنتے کانوں، دیکھتی آنکھوں سے اس محشر میں زندہ ہیں، جانے کب تک زندہ ہیں۔
قیامت خیز گرمی میں قیامت کی خبریں آرہی ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا لگنے لگتا ہے کہ خاکم بدہن اس سیارے پر انسانی زندگی کے آخری دن آپہنچے ہیں۔ گھروں کے قیدیوں، سہمے لوگوں سے ملاقات کے لیے صرف بری خبریں آسکتی ہیں‘ اور وہ خبریں مسلسل آرہی ہیں۔ ان دنوں جب کووڈ 19 کا نا گہانی شکار ہوکر مرنے والوں کی مسلسل خبریں آرہی ہیں‘ ان لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا ہے جو کورونا سے نہیں کسی اور بیماری کے سبب انتقال کرگئے یا طبعی عمر کو پہنچ کر اس دنیا سے چلے گئے‘ لیکن کیا یہ حیرت انگیز نہیں کہ ان دنوں ایسی اطلاعات میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی بھی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہوگی لیکن وبا اور غیر وبا دونوں مل کر مسلسل ہمارے پیاروں کو ہم سے دور لے جارہے ہیں۔ جتنا کثرت سے اس سال انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا اور لکھا جارہا ہے میری یادداشت میں کوئی اور ایسا سال نہیں گزرا۔
زندگی کا بھروسہ تو خیر کبھی بھی نہیں تھا لیکن ان دنوں جیسی غیر معتبر ہوئی ہے ویسا بھی نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔ اور اب تو یہ یقین ہونے لگا ہے کہ وبا کے دنوں سے پہلے زندگی کا بھروسہ بہرحال تھا۔ اُن دنوں جب یہ کہا جاتا تھا کہ زندگی کا اعتبار نہیں شاید رسماً ہی کہہ دیا جاتا تھا، ورنہ اس جملے پر تو آج کل کے دن پورے اترتے ہیں۔ اسی عالمِ حیرت میں تو میں نے کہا تھا:
تو پھر یہ کون سی شے غیر معتبر ہوئی ہے 
کہ زندگی کا تو پہلے بھی اعتبار نہ تھا 
سرکاری افسران۔ ممبران اسمبلی۔ سیاست دان۔ چھوٹی بڑی سکرین کی نامور شخصیات۔ شاعر ادیب، عزیز رشتے دار۔ فہرست ہے کہ طویل ہوتی جارہی ہے‘ اور اللہ آپ کو اور مجھے سلامت رکھے کچھ معلوم نہیں کہ کب اس فہرست میں ہم میں سے کسی کا نام درج ہوجائے۔ 
طارق عزیز بھی چلے گئے۔ ہر دلعزیز، طارق عزیز۔ چند دن پہلے ٹویٹ پر کلمہ لکھ کر وہ گواہی دی جو مسلمان کی سب سے بڑی گواہی ہے اور اپنی گونج دار آواز میں کورونا سے لڑتے ہوئے ڈاکٹروں کی تعریف میں ایک ویڈیو ریکارڈ کروائی۔ اپنے معمول کے میڈیکل چیک اپ کیلئے گاڑی میں بیٹھے۔ کچھ سردی کی شکایت کی۔ بہن کے کاندھے پر سر رکھا اور ابدی نیند سو گئے۔ 
ہستی سے عدم تک نفسِ چند کی ہے راہ 
دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں کا
میں بھی بے شمار لوگوں کی طرح ان کے مداحوں میں تھا۔ کئی ایک ملاقاتیں ہوئیں لیکن سب سے یادگار پٹیالہ یونیورسٹی مشرقی پنجاب ہندوستان کی دعوت پر لاہور سے پٹیالہ اور واپسی کا سفر تھا۔ یہ شاید 2004 کی بات ہے۔ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے، جو راجگانِ پٹیالہ کی اولاد میں سے ہیں‘ پاکستانی پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب پرویز الٰہی کو پنجابی کانفرنس میں مدعو کیا۔ کم و بیش 100 کے قریب حرف کار شاعر‘ ادیب‘ صحافی اور دیگر شعبوں کے افراد واہگہ کے راستے روانہ ہوئے۔ سرحد پر امیگریشن سے ہی نہایت پرتپاک استقبال شروع ہوا جو راستے بھر چلتا رہا۔ سرحد کی دوسری طرف تین بڑی بسوں میں بٹھایا گیا جن کے ساتھ پولیس کی حفاظتی گاڑیاں تھیں۔ امرتسر تک راستے میں دونوں طرف سکول کے بچے خیر مقدمی جھنڈیاں لیے کھڑے تھے۔
گورونانک یونیورسٹی امرتسر میں دوپہر کے کھانے اور پہلے پڑاؤ میں ایک مختصر سا رنگا رنگ ثقافتی پروگرام بھی شامل تھا۔ بھارتی پنجاب کو دیکھنے کا یہ میرا پہلا موقعہ تھا۔ امرتسر، جالندھر، لدھیانہ وغیرہ سے گزرتے انہیں دیکھتے، پٹیالہ پہنچے تو نہایت گرمجوش استقبال ہمارا منتظر تھا۔ تین دن کانفرنس کے سیشنز ناشتے لنچ اور ڈنرز کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ کئی تفریحی اور معلوماتی پروگرام بھی ان تین دنوں کا حصہ تھے۔ ان دنوں میں جب سب پاکستانی مہمان یکجا تھے سب کو قریب سے دیکھنے کا موقع بار بار ملتا رہا۔ طارق عزیز کا بہت اچھا تاثر تو دل میں پہلے سے تھا لیکن اس سفر میں کچھ واقعات سے ان کا وقار اور بڑھ گیا۔ یہ لکھتے ہوئے افسوس ہوتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ کچھ بلا کے مے نوش پاکستانی، پٹیالہ میں اس مشروب پر اس طرح ٹوٹتے تھے جیسے ساری عمر کے ترسے ہوئے ہوں۔ میں نے بہت سے نامور لوگوں کو گراوٹ کی حدوں کو چھوتے ہوئے دیکھا۔ ان میں سے کئی معروف نام مدہوش ہو کر واہی تباہی پر بھی اتر آتے تھے۔ میں نے ایک مشہور شاعر کو کئی بار اسی حال میں دیکھا اور ہمیشہ کیلئے انکی وہ شکل حافظے میں محفوظ ہو گئی‘ لیکن طارق عزیز ان محفلوں اور ایسی تمام حرکتوں سے مجتنب نظر آتے رہے۔ ان کا وقار ان کی شناخت تھا اور یہ ہر دم قائم رہا۔
کانفرنس کے آخری دن یونی ورسٹی آڈی ٹوریم میں ایک مبہوت کن ثقافتی شو پیش کیا گیا۔ مجھے زندگی بھر یاد نہیں ہے کہ ایسی پرفارمنس میں نے دیکھی ہو۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں پنجاب، راجستھان، یوپی، بہار، کرناٹکا وغیرہ کے علاقائی گیت، رقص اور ثقافتی ماحول پیش کیے گئے۔ ایسے ثقافتی شو عموماً بے روح، بے لطف اور رسمی ہوتے ہیں جو ملکی منظرنامہ اجاگر کرنے کیلئے خانہ پری کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں لیکن بھئی وہ کیا شو تھا۔ پہلی بار پتہ چلا کہ رقص لوک داستانوں کو گداز دل کے ساتھ بھی پیش کر سکتا ہے۔ پہلی بار یقین آیا کہ اعضا کی یہ شاعری آرٹ کیسے بنتی ہے، ایسا آرٹ جس میں بیہودگی اور عریانی کا شائبہ بھی نہ ہو۔ یہ شو ایک جادو کی طرح ہماری آنکھوں سے گزرتا گیا اور ہم سب اس کے اسیر ہوئے بیٹھے رہے۔ دو گھنٹے کے بعد جب ختم ہوا تو دل نہیں چاہتا تھا کہ کسی سے بات کریں یا کوئی ہم سے بات کرے۔ ایسے میں جب منتظمین نے کہا کہ پاکستانی مہمانوں میں سے کوئی اظہار خیال کرنا چاہے تو سٹیج پر آجائے تو کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ مجھے خطرہ تھا کہ اس سحر انگیز ماحول میں پاکستان کی نمائندگی کون کر سکتا ہے‘ اور ہماری سبکی نہ ہو جائے۔ یاد نہیں خود طارق عزیز اٹھ کر سٹیج کی طرف بڑھے یا انہیں کسی نے بھیجا لیکن یہ یاد ہے کہ اس بھاری، مردانہ گونجدار آواز نے ایک حلقہ توڑ کر اپنا ہالہ قائم کر لیا۔ بہت بھرپور ستائش اور نپے تلے جملوں میں طارق عزیز نے کہا کہ میری ساری عمر شوبز میں گزری ہے، لا تعداد شوز دیکھنے کا موقعہ ملا ہے لیکن ایسی کمال کی فنکاری مجھے زندگی بھر یاد نہیں ہے۔ میں پاکستانیوں کی طرف سے اس طائفے کو مبارکباد اور پاکستان آنے کی دعوت دیتا ہوں۔ اس روز اندازہ ہوا کہ ہم طارق عزیز سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ ایک وضعدار، پُراطوار شخصیت ان کی پہچان تھی اور حب الوطنی ان کی شناخت۔ کئی بے اولاد لوگ دنیا سے چلے جاتے ہیں لیکن کتنے ہیں جو اپنے تمام اثاثے پاکستان کے نام کرتے ہیں۔
اگر کسی کی آنکھیں دیکھ سکتی ہوں، اور کان سن سکتے ہوں تو دیکھے اور سنے اور سوچے کہ خلق میں محبوبیت، اور ہر دل عزیزی کے پیمانے کیا ہیں۔ دانشوری؟ شاعری؟ اداکاری؟ شوز کی میزبانی؟ لیکن شاعر، اداکار، دانشور، میزبان تو بہتیرے ہیں‘ اور ان میں وہ بھی بہتیرے ہیں جو اپنے عقیدے کو بھی دھتکارتے ہیں اور اپنی مٹی کو بھی۔ محض اس توقع پر کہ اس سے انہیں ایک بڑے حلقے میں مقبولیت اور شہرت نصیب ہو جائے گی لیکن شاید انہی وجوہات کی بنا پر ان کے نصیب پر شہرت نہیں محض رسوائی کی مہر لگتی ہے۔ فراز نے کہا تھا:
کوچ کر جاتا ہے ایک دوست ہر آوازے پر
گوشِ شنوا ہے تو سن! ایک صدا اور لگی 
لیکن ہم جس زمانے سے گزر رہے ہیں‘ اس میں کوئی ایک صدا لگانے والا نہیں اور کوئی ایک دوست جانے والا نہیں۔ لگ رہا ہے کہ بے شمار لوگ بے شمار دوستوں کیلئے بیک وقت صدائیں لگا رہے ہیں۔ ہم جو سنتے کانوں، دیکھتی آنکھوں سے اس محشر میں زندہ ہیں، جانے کب تک زندہ ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں