"SUC" (space) message & send to 7575

تریاق از عراق …(1)

شیخ سعدی کا بخشا ہوا فارسی محاورہ ہے: تا تریاق از عراق آوردہ شود، مارگزیدہ مردہ شود‘ یعنی جب تک سانپ کے کاٹے کا علاج عراق سے پہنچے گا اس وقت تک ڈسا ہوا مرچکا ہوگا۔ یہ جان لیوا انتظار غالب نے بھی یہ کہہ کر بیان کیا کہ 'خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک ‘
اور ہمارے دور میں محشر بدایونی نے کہا:
اس انتظار سے بھی ہم گزر چکے اب تو 
جس انتظار میں انسان مر بھی جاتا ہے 
کوووڈ 19 کا سانپ ہر سمت پھنکارتا اور ڈستا پھر رہا ہے اور تریاق نہ کسی کے پاس ہے نہ کسی کو علم۔ مارگزیدہ اپنے اپنے عراق کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کبھی کبھی خبریں آجاتی ہیں کہ فلاں ادارہ ویکسین پر کام کر رہا ہے اور اب وہ فلاں مرحلے میں پہنچ گئی ہے۔ مستقبل کا حال اللہ جانے لیکن ابھی تک اندھیرا دور ہوجانے کی پیش گوئیاں اندھیرے میں چلائے ہوئے تیر ہیں۔ لیکن یہ تجسس تو بہرحال ہے کہ انسان اس عالمی مصیبت کو دور کرنے کیلئے کیا کام کر رہا ہے۔ ان سازشی تھیوریوں کوفی الحال چھوڑتے ہیں کہ کوووڈ 19 لیبارٹریوں میں بنایا گیا اور قصداً پھیلایا گیا، نیز اس کی ویکسین پہلے ہی بنالی گئی ہے جو وقت پر سامنے لائی جائے گی۔ اگر ایسا ہے بھی تو ہم اور آپ اسے کیسے ثابت کریں؟ ہم اس فن کے لوگ نہ سہی، لیکن آئیے ماہرین سے رجوع کرتے ہیں کہ ویکسین اور اس کی تیاری سے متعلق وہ کیا کہتے ہیں اور بہت تکنیکی معاملات میں جائے بغیر ہم اس کے بارے میں کیا جان سکتے ہیں۔ ہم کم از کم یہ تو جانیں کہ اس سلسلے میں کام ہوکیا رہا ہے۔ پہلے یہ سمجھیں کہ ایک علاج تو مختلف دوائیوں کے ذریعے ممکن ہوسکتا ہے جو اس وائرس کے خلاف مفید ہوں جیسے حال ہی میں ہائیڈروکلوروکوئین کا نام سامنے آیا تھا جو ایک پہلے سے موجود دوائی ہے اور ایک علاج ویکسین کے ذریعے ممکن ہے جسے عام آدمی ٹیکہ کہتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ ویکسین ہوتی کیا ہے اور کام کیسے کرتی ہے؟ دراصل اللہ نے ہمارے جسم کے اندر ایک مدافعتی نظام بنایا ہے۔ جب یہ مدافعتی نظام کسی وائرس کے خطرے سے دوچار ہوتا ہے تو وہ اس کے خلاف جنگ شروع کر دیتا ہے، خواہ وہ کوئی بھی وائرس ہو‘ لیکن انفیکشن کے ایک یا دو ہفتے بعد اپنے آپ کو خطرے کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت رکھنے والے خلیے میدان میں آجاتے ہیں۔ یہ خلیے جو اس وائرس کے خاص ڈھانچے کو شناخت کرنا سیکھ لیتے ہیں، اینٹی جنز (Antigens) کہلاتے ہیں۔ ایک بار یہ وائرس کو شناخت کرلیں تو یہ اس کو ہدف بنالیتے ہیں۔ اینٹی جنز دفاع کا ایک بڑا کام یہ کرتے ہیں کہ اینٹی باڈیز ((Antibodies بنانا شروع کردیتے ہیں۔ یہ اینٹی باڈیز دراصل بڑے پروٹین خلیے ہوتے ہیں جو وائرس پر حملہ کرتے ہیں اور اس پر اینٹی جنز چپکا کر اسے مار دیتے ہیں۔
کچھ ڈھلنے کی صلاحیت والے خلیے اپنے آپ کو یادداشت والے خلیوں میں ڈھال لیتے ہیں۔ یہ لمبی عمر والے خلیے جسم میں موجود رہتے ہیں تاکہ آئندہ یہی وائرس دوبارہ آپ پر حملہ کرے تو جسم بالکل صفر سے اس کے خلاف مزاحمت شروع نہ کرے بلکہ یادداشت محفوظ ہو۔ یہ یادداشت والے خلیے، اینٹی باڈیز کے ساتھ مل کرجسم میں وائرس سے محفوظ حصار کی بنیاد ہیں۔ ویکسین اس حفاظتی نظام کی یادداشت کا فائدہ اٹھاکر جسم میں محفوظ طریقے سے ایسا وائرس داخل کرتی ہے جو نقصان تو نہ پہنچا سکے لیکن اس کی وجہ سے جسم میں یادداشت کے خلیے اور اینٹی باڈیز بننا شروع ہوجائیں اور جب اصل وائرس حملہ کرے تو جسم پہلے سے تیار ہو۔ اس مقصد کے لیے ویکسین مردہ یا بہت کمزور وائرس جسم میں داخل کرتی ہے تاکہ حفاظتی خلیے اس کی شناخت کرلیں۔ خسرہ، چیچک، پولیو اور فلو کی کچھ ویکسینز یہی طریقہ اختیار کرتی ہیں۔ انسان ایک صدی سے اسی اصول پر ٹیکے بنا کر بہت سی بیماریوں کے خلاف کامیاب علاج کر رہا ہے۔
دیگر ویکسینز ایک اور طریقہ اختیار کرتی ہیں۔ وہ وائرس کے اس حصے تک پہنچتی ہیں جنہیں اینٹی باڈیز ہدف بناتی ہیں۔ یہ ایک زندہ مصنوعی طریقے سے بنایا ہوا جینیاتی زندہ وائرس استعمال کرتی ہیں۔ یہ ہمارے اپنے خلیے ہائی جیک کرتا ہے اور وہ وائرل اینٹی جنز بنانا شروع کردیتے ہیں۔ یہ نسبتاً نیا طریقہ وائرل ویکٹر ویکسین کہلاتا ہے، اور ایبولا نامی وائرس کیلئے ایسی دو ویکسینز بنائی گئی ہیں۔ لیکن اس طریقے کی صرف یہی دو ویکسینز ہیں اور اس طریقے میں کچھ قباحتیں بھی موجود ہیں۔ اسی اصول پر ایک اور ویکسین نیوکلیک ایسڈ بھی کام کرتی ہے لیکن الگ طریقے سے۔ جینیاتی وائرس کے بجائے اینٹی جین بنانے والا ڈی این اے/ آر این اے مکینیکل طریقے سے جسم میں پہنچایا جاتا ہے۔ ایک طریقہ خلیوں کی جھلی کے پار نفوذ کرنے کا ہے۔ دوسرا الیکٹروپوریشن Electroporation) ( کہلاتا ہے۔ ان دونوں طریقوں کا حاصل یہ ہے کہ ایک بار جب ڈین این اے/آر این اے داخل ہوجائے تو پھر وہ خود ہدایات پڑھنا اور اینٹی جن بنانا شروع کردیتا ہے‘ لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ اس طریقے کی کسی ویکسین کو ابھی تک منظوری نہیں ملی، اس کے باوجود کوووڈ 19 کی ویکسین کے سلسلے میں اس طریقے پر کام جاری ہے اور ابتدائی مثبت نتائج بھی ملے ہیں۔ موڈرنا (Moderna) کی زیر تجربہ ویکسین‘ جس کا پچھلے دنوں بہت شہرہ ہوا تھا‘ اسی طریقے پر مبنی ہے۔ اس طریقے کا ایک بڑا فائدہ بہرحال یہ ہے کہ یہ ویکسین کے آغاز سے تیاری تک تیز رفتار طریقہ ہے جو ویکسین بنانے والوں کو متوجہ کرتا ہے۔ 
اور آخر میں پروٹین والی ویکسین۔ یہ براہ راست طریقہ ہے جس میں ویکسین کمپنی کے تیارکردہ اینٹی جن جسم میں داخل کیے جاتے ہیں۔ یہ سست رفتار طریقہ ہے اور ایسی ویکسین کو ایک اور عنصر ایڈجوینٹ Adjuvant)) کی بھی ضرورت پڑتی ہے جودفاعی نظام اور اینٹی جن کو ملانے کیلئے پل کا کام کرتا ہے۔ ٹھیک تناسب بن جائے تویہ طریقہ نہایت کامیاب ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین اور فلو کی کچھ ویکسینز اسی طریقے پر کام کرتی ہیں۔
ذرا آگے بڑھنے سے پہلے اس منصوبہ ساز کے بارے میں سوچیں جس نے یہ نظام بنائے۔ کیا آپ کو یا مجھے علم ہے کہ ہمارے جسم کے اندر ایک پورا لشکر ہمارے لیے جنگ کر رہا ہے۔ دشمن کو شناخت بھی کر رہا ہے، اس کے خلاف مختلف طرح کے سپاہی بھی میدان میں اتار رہا ہے اور جنگ جیتنے کی حکمت عملی بھی خود طے کر رہا ہے اور آپ کو خبر بھی نہیں۔ ان سائنس دانوں کو داد دیں جنہوں نے یہ محیرالعقول نظام دریافت کیے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے طریقے سوچے۔ ان دماغوں کی تعریف کریں جنہوںنے اپنی زندگیاں ان پر تجربات میں گزار دیں۔ اور پلٹ کر پھر اس خالق کی تعریف پر آجائیں جس نے یہ دماغ بنائے اوراسے یہ راستے سجھائے۔
ویکسین کی تیاری میں عام طور پر 10 تا 15 سال لگ جاتے ہیں۔ کچھ بیماریوں مثلا ایڈز، ٹی بی، ملیریا کی مسلسل تحقیق کے باوجود اب تک کوئی مؤثر ویکسین نہیں بن سکی۔ ویکسین بنانے والے جب تجربے کے مرحلے میں پہنچتے ہیں تو جانوروں سے آغاز کیا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں کامیاب نتائج ملیں تو کلینیکل یعنی انسان پر تجربات کے پہلے مرحلے میں پہنچا جاتا ہے۔ یہاں تھوڑی تعداد میں صحت مند رضاکاروں پر ویکسین ڈوزکی مقدار اور اس کے اثرات کی جانچ کی جاتی ہے۔ کامیاب نتائج آئیں تو دوسرے اور تیسرے مرحلے میں بڑی تعداد میں لوگوں کے گروپس، ہائی رسک مریضوں پر تجربہ کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ہر مرحلہ چھ ماہ سے ایک سال لے لیتا ہے اور بہت کم ویکسینز ان سب مرحلوں سے کامیاب گزرتی ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ اس وقت کورونا کی 145 مختلف ویکسینز راستے میں ہیں جن میں سے 20 انسانوں پر آزمائے جانے کے مراحل سے گزر رہی ہیں۔
لیکن بات ختم کہاں ہوئی حضور! ابھی تو ہم اس کتاب تحیر کے پہلے باب پر ہیں۔ ذرا آج کے سبق یاد کرلیں پھر آگے چلتے ہیں۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں