نیویارک ٹائمز کورونا ویکسین ٹریکر کے مطابق اس وقت کووڈ19 کی 145 مختلف ویکسینز راستے میں ہیں۔ ان میں سے 20 انسانوں پر آزمائے جانے کے مراحل سے گزر رہی ہیں۔ 125 ویکسینز پری کلینیکل مرحلے میں (9 فیز1 میں، 9 فیز2 میں، 2 فیز3 میں) پہنچ چکی ہیں جبکہ کوئی بھی ویکسین حتمی منظوری کے مرحلے تک نہیں پہنچی۔ کئی ویب سائٹس ایسی ہیں جو ویکسینز کی تیاری کے بارے میں تازہ ترین اطلاعات دے رہی ہیں۔ کئی گروپ آف کمپنیز اس سلسلے میں مشترکہ کوششیں کررہے ہیں۔ منزل ایک ہے لیکن راستے مختلف‘ اور یہ راستے پچھلے کالم میں ذکر کیے جاچکے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کس گروپ اور کس کمپنی کوسب سے پہلے کامیابی ملے گی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ بہت سی ویکسینز راستے ہی میں دم توڑ جاتی ہیں۔ کبھی محفوظ استعمال کی وجہ سے کبھی مؤثر کم ہونے کی وجہ سے‘ کبھی دیگر وجوہ کی بنا پر۔ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ میراتھن دوڑ ایک ہزار میٹر کی دوڑ میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ساری دنیا اس اتھلیٹ کی منتظر ہے جو پہلے نمبر پر آئے۔ اس دوڑ کے دوران امریکی حکومت نے پہلی پانچ نتیجہ خیز کمپنیوں کیلئے WARP SPEED کے نام سے بلین ڈالرز کی فنڈنگ کا اعلان کیا ہے اور بہت سی کمپنیوں کی نظر اس رقم پر بھی ہے۔
چین نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا ہے کہ ووہان انسٹی ٹیوٹ آف بائیولوجیکل پراڈکٹس اور بیجنگ انسٹی ٹیوٹ آف بائیولوجیکل پراڈکٹس کی مشترکہ ویکسین شاید 2020 کے آخر یا 2021 کے شروع میں تیار ہوجائے گی اور یہ اب تک کی سب سے امیدافزا خبر ہے۔ یہ محقق مردہ اور کمزور وائرس کے طریقے پر کام کر رہے ہیں، جو SARS-Cov-2 وائرس کے خلاف مؤثر طریقہ ثابت ہوا۔ یہ ویکسین اس وقت کلینیکل ٹرائلز کے فیز2 میں ہے۔
امریکہ کی کمپنی موڈرنا نیوکلک ایسڈ ویکسین تیار کر رہی ہے (پچھلے کالم میں اس طریقے پربات ہوچکی ہے) 22 مئی کو اس نے نتائج شائع کیے کہ وہ 8 افراد جنہیں یہ ویکسین دی گئی تھی، ان کے جسموں نے وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا کرنے شروع کردئیے ہیں۔ اگرچہ یہ صرف 8 افراد کے نتائج تھے لیکن ان کا دنیا بھر میں خیرمقدم کیا گیا۔ انتھونی فاسی (Anthony Fauci) ڈائریکٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجیز اینڈ انفیکشس ڈیزیزز (NIAID) نے بہت خوشی کے ساتھ اعلان کی کہ ان مثبت نتائج کی وجہ سے وہ پرامید ہے کہ 2020 کے آخر تک یہ ویکسین تیار ہوجائے گی اور 2021 تک سو ملین لوگوں تک ویکسین پہنچ جائے گی لیکن چونکہ یہ ڈیٹا شائع نہیں ہوا‘ اس لیے ماہرین ان دعووں پر تنقیدی نظر نہیں ڈال سکتے۔ اگر یہ ویکسین کامیاب ہوئی تو یہ پہلی انسانی mRNA ویکسین ہوگی۔ موڈرنا نے 660 افراد سے تجربات کے دوسرے فیز کا آغاز کردیا ہے۔
جرمن کمپنی بائیونٹیک مشہور دواساز کمپنی فائزر اور چینی ادویہ ساز کمپنی فوسن فارما کے اشتراک سے mRNA ویکسین پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مئی میں فائزر نے انسانی تجربات کا اعلان کیا تھا۔ فائزر اپنے نتائج کی بنیاد پر WRAP پروگرام سے کافی توقع کر رہا ہے۔ جینر انسٹی ٹیوٹ، آکسفورڈ یونیورسٹی یوکے میں وائرل ویکٹر کے راستے سے کووڈ19 کی ویکسین کا کام جاری ہے اس کا فیز1 اپریل تا مئی جاری رہا۔ ان کی ویکسین نے 6 بندروں کو نمونیہ سے محفوظ کیا لیکن ان سے پرامید نتیجہ نکالنا ذرا مشکل ہے اس لیے کہ بندروں میں کووڈ19 صرف معمولی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ فیز1 کے نتائج شائع کرنے سے پہلے ہی جینر گروپ نے فیز2 اور فیز3 کا آغاز کردیا ہے۔ دس ہزار افراد کے انفرادی اور گروپ نتائج کا آغاز ہوگیا ہے جس میں ویکسین کا موثر ہونا، ویکسین کی ڈوز کی مقدار وغیرہ جانچی جائے گی۔ اب تک کووڈ19 کی ویکسینز میں انسانوں پر تجربات کا یہ سب سے بڑا عدد ہے۔ عام ویکسین کی رفتار کی نسبت نہایت تیز رفتاری سے کام کیا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اکتوبر تک ایمرجنسی ویکسینز آجائیں گی۔ ان کے شریک AstraZeneca کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس دو ارب ڈوزز بنانے کی استعداد ہے۔
امپیریل کالج لندن، مورننگ سائیڈ وینچرز کے اشتراک سے ایک آر این اے ویکسین پر کام کر رہا ہے۔ انہوں نے 15جون کو فیز1,2 کا اکٹھے آغاز کیا۔ امریکی کمپنی INOVIO ایک ڈی این بیسڈ ویکسین پر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے جولائی میں فیز 2,3 کا اعلان کیا ہے۔ جرمن کمپنی cureVac اپنی mRNA ویکسین انسانی تجربات کے پہلے مرحلے میں ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس کی جرمن فیکٹری کروڑوں ویکسین ڈوزز سالانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ چینی کمپنی CansinoBio انسانی تجربات کے فیز2 میں پہنچ چکی ہے۔ روسی محکمہ صحت کی ایک کمپنی Gamalya Research Institute نے جون میں فیز1 کے تجربات کا اعلان کیا۔ ان کی ویکسین کا نام Gam-covid-Vac-Lyo ہے اور یہ دو adenoviruses کا مجموعہ ہے۔ جونسن اینڈ جونسن نے اپنی ویکسین کے اٹلی میں فیز1,2 کے تجربات کا اعلان کیا ہے۔ میری لینڈ کی کمپنی Novavax نے مئی میں فیز1,2 کے تجربات شروع کردیئے تھے۔ کلوور فارماسیوٹیکلز نامی کمپنی نے ایک برٹش دوا ساز کمپنی کے اشتراک سے ویکسین پر فیز1 کے تجربات شروع کیے ہیں جس میں کورونا وائرس کا پروٹین شامل ہے۔ چین کی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل بائیولوجی، جس نے پولیو اور ہیپاٹائٹس اے کی ویکسینز تیار کی تھیں، اپنی کووڈ19 کی ویکسین کے فیز2 میں ہے۔ چین ہی کی ایک نجی دواساز کمپنی Sinovac نے 13 جون کو اعلان کیا کہ اس نے فیز1,2 میں 743 رضاکاروں پر ویکسین آزمائی۔ ان میں مدافعتی نظام بڑھ گیا اور کوئی مضر اثرات ظاہر نہیں ہوئے۔ کمپنی فیز3 کے تجربات چین اور برازیل میں کرنے کی تیاری کر رہی ہے اور ایسی فیکٹری بنا رہی ہے جس میں سو ملین ڈوزز سالانہ بنائی جاسکیں۔ مردہ یا کمزور وائرس کی ویکسین کے طریقے کی نسبت نئی ٹیکنالوجیز پر زیادہ زور دیا جارہا ہے اس لیے کہ وہ طریقہ زیادہ وقت لیتا ہے۔ اس وقت توجہ اس پر ہے کہ S Protein کے ذریعے اینٹی باڈیز پیدا کی جائیں کیونکہ SARS اور MERS وائرسوں پر تحقیق سے یہ سامنے آیا تھا کہ ایس پروٹین زیادہ مؤثر رہتا ہے‘ لیکن یاد رہے کہ سارس وائرس کی ویکسین تیار نہیں ہوئی۔ یہ وبا ویکسین کی تیاری سے پہلے ختم ہوگئی تھی۔ اس لیے یقینی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ ایس پروٹین کی بنیاد پر بنائی گئی ویکسین کام بھی کرے گی یا نہیں؛ چنانچہ کچھ سائنس دانوں کویہ فکر بھی ہے کہ ایس پروٹین سے متعلق توقعات پوری نہ ہوئیں تو پھر؟ سارے انڈے ایک ٹوکری میں ڈال دینا دانشمندی نہیں‘ چنانچہ امیونٹی بائیو اور نانٹویسٹ نے ایس پروٹین کے ساتھ ایک اور نیوکلیوپسڈ پروٹین پر بھی کام شروع کر رکھا ہے۔ وہ باقی دوڑنے والوں سے پیچھے ہیں لیکن ان گرمیوں میں فیز1 کے ٹرائل کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ظاہر ہے ہم سب یہ سننا چاہتے ہیں کہ ویکسین کب تک تیار ہوجائے گی۔ ہم یہ سننا نہیں چاہتے کہ ہمیں پتہ نہیں حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا جواب یہی ہے کہ ہمیں پتہ نہیں۔ مؤثر ویکسینز اکثر محفوظ نہیں ہوتیں، محفوظ ویکسینز اکثر مؤثر نہیں ہوتیں۔ جو ویکسینز بندروں کیلئے کامیاب ہیں، ممکن ہے کہ انسانوں پر بالکل کامیاب نہ رہیں۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ کامیاب ترین ویکسین پر ابھی کام بھی شروع نہ ہوا ہو۔ اس وقت حکومتی اداروں اور اعلیٰ فیصلہ ساز اداروں کا یہ امتحان ہے کہ وہ کس حد تک ویکسین کے مؤثر ہونے کے ساتھ ساتھ محفوظ بھی ہونے کی یقین دہانی حاصل کرسکتے ہیں۔
بہت محنت سے کی گئی یہ تحقیق پڑھنے کے بعد میرا وہ جملہ پھر پڑھ لیجیے کہ میراتھن دوڑ کے اتھلیٹ اس وقت سومیٹر کی دوڑ میں شریک ہیں۔ دیکھیں کون کامیاب ہوتا ہے؟ عراق سے تریاق کون اور کب لاتا ہے؟