"SUC" (space) message & send to 7575

کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا

گزشتہ دنوں جب میں نے پڑھا کہ مصر، سوڈان اور ایتھوپیا دریائے نیل کے پانی کے تصفیے کے لیے ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر بیٹھ رہے ہیں تو مسدس حالی کا یہ مصرع میرے حافظے میں گھوم گیا‘ اور عرب کے وہ واقعات بھی جہاں قبیلوں کے جھگڑے کسی چشمے یا کنویں پر ہوا کرتے تھے۔کیا ہم برصغیر کے ایک کونے میں رہنے والوں کو کچھ معلوم ہے؟ افریقہ کا یہ خطہ جنگ کے کنارے پر ہے۔ ان ملکوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اپنی جان بچانا ہو تو دوسروں کی جانیں بے وقعت ہو جاتی ہیں۔ آگ ہے جس پر پانی نہیں پڑ رہا۔
ذرا دیکھتے ہیں کہ پانی کا یہ مسئلہ ہے کیا؟ لیکن پہلے ہمیں دریائے نیل کے بارے میں جاننا ہوگا۔ یہ عجیب دریا ہے۔ شمال مشرقی افریقہ میں جنوب سے شمال کی طرف بہنے والا نیل 6695 کلومیٹر کی لمبائی کے ساتھ دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے۔11ملکوں سے گزرنے والا یہ دریا کئی معاون دریاؤں سے مل کر بنتا ہے۔ اہم دریاؤں میں پہلا اور بڑا دریا نیل الابیض (سفید نیل ) روانڈا، برونڈی سے نکلتا ہے جبکہ نیل الازرق (نیلا نیل) ایتھوپیا کی جھیل ٹانا سے۔ سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے قریب یہ دونوں نیل میں مل جاتے ہیں۔ خرطوم پر ملاپ کے بعد یہ نیل سوڈانی صحرا سے گزرتا ہوا مصر میں داخل ہوتا ہے۔ سوڈان اور مصر کی سرحد کے قریب مصر نے 1961میں اسوان ڈیم بنایا تھا۔ پانی کے اس ذخیرے سے، جسے جھیل ناصر کا نام دیا گیا، مصر کو بہت فائدہ ہوا اور بہت سی اراضی سیراب ہوئی۔ آگے بڑھ کر نیل بحر روم میں گرکر اپنا سفر ختم کرنے سے پہلے ایک وسیع علاقے میں شاخوں میں بٹ کر زرخیز ڈیلٹا بناتا ہے۔ مصر کا دارالحکومت قاہرہ اس ڈیلٹا کے تقریباً شروع میں واقع ہے۔
ایتھوپیا ایک غریب، پسماندہ اور ترقی پذیر ملک ہے جسے بہت سے بحرانوں کا سامنا ہے۔ وہ اپنے بہت سے مسائل حل کرنے کے لیے نیل پر ایک بہت بڑا ڈیم اور جھیل GERD (Grand Ethopian Renaissance Dam) بنا رہا ہے۔ اس ڈیم پر مصر کو خاص طور پر اعتراض رہا ہے۔ یہ مسئلہ اور اس پر تنازع تو عشروں پر محیط ہے اور کچھ معاہدے بھی 1902،1929، 1959ء میں کیے گئے تھے‘ جن میں دریا کے اوپر والے ممالک پر لازمی تھا کہ وہ نیچے والے ممالک یعنی سوڈان اور مصر کی مرضی کے بغیر نیل پر ڈیم نہ بنائیں۔ لیکن بالائی ممالک میں کچھ مثلاً ایتھوپیا کا مؤقف یہ ہے کہ یہ معاہدے غیر منصفانہ اور نو آبادیاتی دور کے ہیں اس لیے وہ انہیں نہیں مانتے۔ اس پر عرصے سے تنازع تھا لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکا۔ پھر ہوا یہ کہ ایتھوپیا نے ایک طرف تو یہ کوشش کی کہ بالائی ممالک کو ساتھ ملا کر سوڈان اور مصر کو اکیلا کیا جا سکے، دوسری طرف‘ پہلے معاہدوں کو بھول کر نیا لائحہ عمل بنایا جا سکے۔ اس مقصد میں وہ 2010ء میں یوگنڈا، برونڈی، ایتھوپیا، روانڈا، کینیا، تنزانیہ کے دستخطوں کے ساتھ سی ایف اے (Cooperative Framework Agreement) نامی معاہدے کے ذریعے کامیاب ہوگیا۔ مصر اور سوڈان نے سی ایف اے کو مسترد کر دیا کیونکہ ان کے مطابق یہ ان کے تاریخی اور طے شدہ حقوق کی پاسداری نہیں کرتا۔ اس کے بعد سے ایتھوپیا اور مصر کے تعلقات خاص طور پر بہت کشیدہ ہوگئے۔
اب ہوا یہ کہ مصر کے داخلی انتشار اور حسنی مبارک کی حکومت ختم ہونے کے دنوں میں ایتھوپیا نے 2011ء میں یک طرفہ طور پر ڈیم کی تعمیر شروع کردی۔ اس صورتِ حال نے مصریوں کو غم و غصے سے بھر دیا۔ مُرسی نے کہا اگر مصر کی مرضی اور معاہدے کے بغیر تعمیر جاری رکھی گئی تو سارے آپشنز کھلے ہیں اور ہم اپنی بقا کے لیے لڑیں گے۔ یہ جنگ کی دھمکی تھی۔ 2015ء میں مصر، سوڈان اور ایتھوپیا نے ایک اور معاہدہ کیا جس کے مطابق ڈیم کی بجلی پر دریا کے زیریں ممالک کا حق فائق ہوگا۔ یہ بظاہر ایتھوپیا کی جیت تھی اس لیے بھی کہ ڈیم کی تعمیر کو ایک طرح تسلیم کر لیا گیا اور دوسرے‘ پہلی بار اس میں مصرکے مبینہ پانی کے حقوق کا ذکر شامل نہیں کیا گیا۔
ایتھوپیاکے اس ڈیم سے کیا فوائد اور مسائل پیدا ہوں گے؟ یہ ڈیم 1960ء کے قریب تجویز کیا گیا تھا۔ ایتھوپیا اس وقت بڑے دریا رکھنے کے باوجود بجلی اور پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔گیارہ کروڑ سے زائد آبادی کا یہ ملک اپنی معیشت بہتر بنانے اور اپنے لوگوں کے معیارِ زندگی کی بہتری کے لیے اس ڈیم کا محتاج ہے۔ بجلی کی قلت کا یہ حال ہے کہ 65فیصد سے زیاد آبادی کے پاس بجلی نہیں ہے۔ جی ای آر ڈیم 4.8 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے جو ایتھوپیا اور سوڈان کی سرحد کے قریب نیلے نیل پر بنایا جا رہا ہے۔ اس ڈیم سے نہ صرف ملک کے لاکھوں لوگوں کو بجلی مل سکے گی بلکہ ہمسایہ ممالک کو بجلی برآمد بھی ہو سکے گی۔ اندازہ ہے کہ 6ہزار میگا واٹ سے زائد بجلی حاصل ہو سکے گی۔ اس ڈیم کے بعد ایتھوپیا افریقہ کا سب سے بڑا توانائی برآمدکرنے والا ملک بن سکتا ہے۔ ہمسایہ ممالک کو بجلی برآمد کرکے ایتھوپیا ایک ارب ڈالر سالانہ کما سکتا ہے۔ ایتھوپیا کا خیال ہے کہ یہ ڈیم اس کا فطری حق ہے اور اس پر اعتراض اس کی آزادی میں مداخلت ہے۔ اس ڈیم کے بعد وہ علاقے کی بڑی طاقت کے طور پر ابھر سکتا ہے۔
اب ذرا مصر کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ 1959ء کے معاہدے کے تحت مصر کا دریا کے 55.5ارب کیوبک فٹ پانی پر حق ہے۔ اور اس پانی کا 85فیصد ایتھوپیا کے میدانوں سے گزر کر آتا ہے۔ مصر کے تازہ پانی کا اصل یعنی 90فیصد دار و مدار نیل پر ہے۔اب اس نیلے نیل پر اگر ایتھوپیا ڈیم بناتا ہے تو یہ مصر کے لیے شدید خطرہ ہے اور یہ خطرہ پوری انسانی تاریخ میں مصر کو پہلی بار لاحق ہوا ہے۔ ورنہ نیل کے کنارے دنیا کی قدیم ترین تہذیب پھلتی پھولتی رہی ہے۔ جی ای آر ڈیم کی جھیل 74ارب کیوبک فٹ پانی کا ذخیرہ کرنے کی استعداد رکھتی ہے۔ یہ بہت بڑی مقدار ہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ مصر اس وقت بھی اس ڈیم کی بات ایک طرف چھوڑتے ہوئے پانی کی قلت کا شکار ہے۔ اس کی ضرورت 80ارب کیوبک فٹ ہے جبکہ اس کے وسائل 60ارب کیوبک فٹ کے ہیں۔ اگر یہ ڈیم کسی معاہدے کے بغیر بھرا جاتا ہے تو مصر کے دس لاکھ لوگ بے روزگار ہو جائیں گے اور 1.8ارب ڈالر کا ہر سال نقصان ہوگا۔ ڈیم کی جھیل بھرنے سے مصر کے حصے کا 10سے 15 ارب کیوبک فٹ پانی کم ہو جائے گا۔
ایتھوپیا ڈیم کی جھیل 6سال میں بھرنے کا منصوبہ رکھتا ہے جس کا آغاز اس جولائی سے ہے۔ جھیل بھرنے میں جتنی زیادہ مدت ہو گی، مصر کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ مصر چاہتا ہے کہ یہ مدت 12سے 21سال ہو خاص طور پر شروع میں بہت آہستہ، تاکہ دریا کی سطح کم نہ ہو۔ اگر جلد بھرا گیا تو یہ ہر سال 54ارب کیوبک فٹ پانی پی لے گا‘ جو مصر اور سوڈان کے لیے ہلاکت خیز بات ہوگی۔ ایتھوپیا اسے جلد از جلد بھرنے کا خواہش مند ہے تاکہ اس کے مقاصد پورے ہو سکیں۔ تو گویا مصر اب اکیلا رہ گیا ہے‘ اور اب اس کا زور ڈیم کی جھیل کو بھرنے کے لیے ایک معاہدے پر ہے۔ یہ ان کے لیے اب زندگی اور موت کا مسئلہ ہے جس پر وہ جنگ کے لیے بھی تل سکتے ہیں خاص طور پر جبکہ وہاں فوج کی حکومت ہے۔
ہم اس قضیے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ ان ملکوں سے اور ان کروڑوں افراد سے جن کی نظر ایک ہی دریا پر ہے‘ وہ دریا جو اِن کی شہ رگ کی طرح رہا ہے۔ ہم جو برصغیر کے اس کونے میں بیٹھے ہیں‘ جہاں پانی کی ہر شکل ہمیں میسر ہے۔ منجمد گلیشیرز سے لے کر آبشاروں، جھیلوں، بہتے دریاؤں، چشموں، ندیوں اور سمندر تک‘ جہاں بے شمار ڈیم اور جھیلیں بنانے کی گنجائش ہے۔ پیاس لگتی ہے تو یہ نہیں دیکھتی کہ اس جسم کا مرتبہ اور عہدہ کیا ہے‘ اسے وہ گھونٹ چاہئیں جو سیراب کر دیں۔ ہم بھی پانی کی کمی کا شکار ہیں لیکن آپ آج وہ گھونٹ پئیں تو شکر کریں کہ ہم پیاس کے ان مسائل کا شکار نہیں ہیں جو کروڑوں لوگوں کو درپیش ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں