بہت پہلے ایک شعر کہا تھا؎
دل سے تری یاد اُتر رہی ہے
سیلاب کے بعد کا سماں ہے
جن لوگوں نے سیلاب گزر جانے کے بعد کی آبادیاں یعنی بربادیاں دیکھی ہیں انہیں اس شعر کی تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔کووڈ19 ایک سیلاب کی طرح آیا اور آناً فاناً دنیا پر چھا گیا۔اور ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ سیلاب کے بعد کا وقت شروع ہوچکا ہے۔ابھی کئی ملکوں میں یہ دوسری لہر کی طرح پھیل رہا ہے۔کو وڈ 19کو سیلاب کہیے‘ بلا کہیے ‘ وبا کہیے‘آفت کہیے ‘کچھ بھی کہہ لیجیے ‘ جیسا خوف ‘ جیسی تشہیر ‘ جیسی انقلابی تبدیلی اس وبا نے دیکھی‘ اس کی تاریخ میں کوئی اور مثال نہیں ہے۔لیکن مجموعی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا اس کے بھیانک ترین دور سے گزر چکی۔ اب کچھ اچھی خبریں بھی آنی شروع ہوئی ہیں۔ایک تو متاثرین کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے ‘ صحت یابی کی شرح بڑھ گئی ہے اور کاروبار ِزندگی شدید جھٹکوں کے بعد ہموار ہونا شروع ہوا ہے۔سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی کامیاب رہی ہے اور بین الاقوامی اداروں نے بھی اس کی تعریف کی ہے۔ لیکن بڑی خبر روس کی طرف سے ہے۔اچانک روس کی طرف سے اعلان ہوا ہے کہ اس کی بنائی ہوئی کووڈ19کی ویکسین انسانی تجربات مکمل کرنے والی ہے اور عنقریب دوا سازی کے مرحلوں کی تیاری ہے۔ مجھے اس تفصیل سے دل چسپی رہی ہے اور آپ کو یاد ہوگا کہ تریاق از عراق کے نام سے دو کالم 27جون اور 3جولائی کوشائع ہوئے تھے جن میں زیر تکمیل ویکسینز کے طریقوں اور ان کے تکمیلی مراحل کے بارے میں تفصیلی بات کی گئی تھی۔روس کی ویکسین کی خبر اس سلسلے میں ایک اضافہ ہے اور اس سے یہ امید بندھتی ہے کہ پچھلی توقعات سے پہلے ایک دو ماہ میں ہی بنی نوع انسان کو پہلی ویکسین دستیاب ہوسکے گی۔
کیرل ڈمتریف (Kirill Dmitriev)روسی ڈائریکٹ انویسٹمنٹ فنڈ( (RDIFکے چیف ایگزیکٹو ہیں۔یہ ادارہ روس کی طرف سے کووڈ19کی ویکسین بنانے کیلئے مالی مدد فراہم کرتا ہے۔کیرل ڈمتریف کا کہنا ہے کہ روس ستمبر 2020میں وائرس کی ویکسین مارکیٹ میں لے آئے گا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امریکہ اور دیگرمغربی ممالک کی اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے باوجود روس اس معاملے میں سبقت لے گیا ہے۔روس کی طرف سے اس الزام کی بھی تردید کی گئی ہے کہ روسی خفیہ ایجنسی ہیکرز کی مدد سے امریکہ اور مغربی ممالک کا حساس ڈیٹا چرانے کی کوشش کر ہی ہے۔ روس سات لاکھ پچاس ہزار متاثرین کے ساتھ دنیا کا چوتھا متاثر ترین ملک ہے اور صدر ولادیمیر پوٹن نے ویکسین کی ایجاد کو ملک کی پہلی ترجیح قرار دیا تھا۔اگر روس ویکسین بناکر باقی امیدواروں سے آگے نکل گیاتو دنیا میں یہ دوڑ بھی شروع ہوجائے گی کہ یہ سپلائز کن کو ملتی ہیں اور کن کو نہیں۔
کیرل ڈمتریف نے امریکہ ‘ یو کے اور کینیڈاکے ان الزامات کا جواب دیا کہ ہیکرز جو ایک گروپ کیلئے کام کرتے ہیں‘ ان ممالک کی تحقیقی مواد کو چرانے کی کوشش کی ہے۔کیرل نے کہا کہ روس کو اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی اسٹرا زنیکا (AstraZeneca Plc) سے معاہدہ کرچکا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ ویکسین آر فام میں تیار کی جائے گی۔ آر فام روس کی سب سے بڑی دوا ساز کمپنی ہے۔کیرل کے مطابق اسٹرا زنیکا پہلے ہی ٹیکنالوجی اور مطلوبہ اجزا روس منتقل کر رہا ہے تاکہ اس کی روس میں بڑے پیمانے پر تیاری کی جاسکے۔ہر وہ چیز جس کی ضرورت ہے پہلے ہی آر فارم میں منتقل کی جاچکی ہے۔ اس برطانوی ویکسین کا معاہدہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے تو پھر ہمیں اس چوری کی کیا ضرورت ہے ؟
اسٹرازینکا نے بھی اعلان کیا ہے کہ روس ان مراکز میں ہوگا جہاں ویکسین تیار کرکے بین الاقوامی مارکیٹ میں بھیجی جائے گی۔ ویکسین ویکٹر تیار کرکے آر فارم کو فراہم کیا جائے گاجہاں مکمل ویکسین تیار ہوگی۔اس کا مطلب ہے کہ ایک طرف تو روس نے اس برطانوی ویکسین کا معاہدہ کیا اور دوسری طرف اپنی ویکسین کی تیاری جاری رکھی۔یہ خوف دوسرے ممالک کی طرح روس کو بھی تھا کہ مغربی ممالک کی کامیاب ویکسینز سے اسے محروم رکھا جائے گا۔جہاں تک روسی ویکسین کی بات ہے ڈمتریف اس حد تک پُراعتماد ہیں کہ انہوں نے نہ صرف یہ ویکسین اپنے پورے گھرانے کو لگوائی ہے بلکہ اپنے والدین کو بھی جو ستر کے پیٹے میں ہیں۔یہ ویکسین آرڈی آئی ایف کے مالی وسائل اور ریاستی ادارے Gamaleya انسٹیٹیوٹ ماسکو کے ذریعے تیار ہوئی ہے۔ پہلے فیز کے انسانی تجربات میں 50افراد پر یہ ویکسین آزمائی گئی جو سب روسی فوج سے تعلق رکھتے تھے‘لیکن انسٹیٹیوٹ نے تاحال نتائج شائع نہیں کیے۔
روس کی نائب وزیر اعظم تاتائیناگولی کووا نے 15جولائی کو روسی ویکسین کے بارے میں اعلان کیا تھا۔گمالیا انسٹیٹیوٹ کی یہ ویکسین وائرل ویکٹر ویکسین ہے (وائرل ویکٹر ویکسین کیا ہوتی ہے یہ پچھلے کالموں تریاق از عراق میں بتا چکا ہوں)یہ ویکسین‘ ایک عام فلو کے انسانی وائرس پر مبنی ہے۔اڈینو وائرس کو SARS COV2 کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور یہ عمل انسانی دفاعی نظام کو بڑھادیتا ہے۔کووڈ19 وائرس سے محفوظ رہنے کیلئے یہ طریقہ کئی ویکسین بنانے والوں نے اپنایا مثلاً چین نے۔ ڈمتریف نے یہ بھی بتایا کہ محقق دو مختلف قسم کے اڈینو وائرس پر تجربات کر رہے ہیں۔یہ ویکسین 3اگست کو اپنے تیسرے مرحلے میں ہزاروں افراد پر تجربات شروع کرے گی جس میں سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات کے افراد بھی شامل ہوں گے۔2020میں ہی اس ویکسین کی 30ملین خوراکیں روس میں اور 170ملین خوراکیں دیگر ممالک میں تیار ہوں گی۔آر فارم اسٹرا زینیکا سے معاہدے کے علاوہ یہ روسی ویکسین بھی تیار کرے گا‘نیز مختلف ممالک اسے بنانے میں دلچسپی بھی لے رہے ہیں۔اس معاملے میں روس کی تیز رفتاری کی ایک وجہ مغربی ممالک کے طریقے سے انحراف بھی ہے۔عام طور پر مغربی ممالک میں تیسرا مرحلہ کئی ماہ لیتا ہے۔دوسری طرف مغربی ممالک میں کئی طرح کے خیالات سامنے آرہے ہیں۔ان شکوک کا بھی اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ روس کی یہ ویکسین دعوے کے مطابق ستمبر تک تیار نہیں ہوسکے گی۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ روس ادویہ سازی میں معیاری ادویات بنانے میں بڑا ملک نہیں ہے۔ اس لیے یہ ویکسین بھی مغربی ممالک کی پسندیدہ نہیں ہو گی اور یہ بھی بیان کیا جارہا ہے کہ روس میں ادویہ کی ریگولیٹری اتھارٹی سخت نہیں ہے اور ممکن ہے کہ محض سیاسی بنیادوں پر اس ویکسین کی اجازت مل سکے۔
مسئلہ یہ ہے کہ محض ان شکوک کی بنیاد پر دنیا کی کسی بھی پہلی ویکسین کو روکا نہیں جاسکتااور اگر واقعی طبی بنیادوں پر یہ ویکسین کام کرجاتی ہے تو مغربی ناپسندیدگی دھری کی دھری رہ جائے گی۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو ویکسین طبی بنیادوں پر نہیں سیاسی بنیادوں پر بنائی جائے گی ‘اور دراصل محفوظ نہیں ہوگی ‘وہ روس اپنے شہریوں کو خاص طور پر فوج اور سرکاری اداروںکے افراد کو کیوں دے گا؟اس لیے مجھے اس بات میں زیادہ وزن نظر نہیں آتا۔دوڑ میں کوئی امیدوار ابتدائی مرحلوں میں اوجھل رہتا ہے ‘پھر وہ اس وقت اچانک اپنی طرف توجہ مبذول کرواتا ہے جب دوسرے دوڑنے والوں سے توقع کی جارہی ہوتی ہے۔ یہ تجسس اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک امیدوار حتمی لکیر تک نہ پہنچ جائے۔ روس ایک ایسے ہی ڈارک ہارس کے طور پر سامنے آیا ہے اور تمام دنیا کی توجہ ادھر مرکوز ہوگئی ہے۔ اس وقت تک آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین اور روس کی اپنی ویکسین سر فہرست ناموں میں سے ہیں ‘لیکن چین کو ہرگز نہ بھولئے جس نے اکتوبر میں ویکسین لانے کا عزم کر رکھا ہے۔ دوڑ میں ڈارک ہارس ایک نہیں کئی ہو سکتے ہیں۔