میں نے نامور شاعر جناب انور مسعود کو اپنا شعر سنایا؎
یہ شہر بلندیوں سے دیکھو/دریائے روا روی رواں ہے
انور صاحب نے داد دی اور پھر کہنے لگے: اس شعر کی خاص بات یہ ہے کہ ان لفظوں کے بیچ راوی کا لفظ بھی بہہ رہا ہے۔ ان کی یہ بات میرے دل کی بات بھی تھی۔ مجھے بچپن کی ایک شام یاد آئی۔ یہی برسات کے دن تھے۔ میرے والد ہم سب کو لے کر راوی کنارے گئے تھے۔ دریا موج میں تھا۔ ہم آم کھانے کے ساتھ وہ بحث بھی سن رہے تھے کہ اس دریا کا نام کتنا خوبصورت ہے۔ شاید ہی کسی دریا کا نام اتنا معنی خیز ہو۔ اپنے کناروں پر تہذیبوںکا عروج و زوال، شہنشاہوں کا جاہ و جلال، لشکروں کی فوج کشی، لڑائیاں، معرکے دیکھنے والے کا اس سے بہتر نام کیا ہوسکتا ہے؟ مترنم لہروں جیسے پھوٹنے والے گیتوں، امر ہوجانے والی محبتوں کے عینی شاہد کو اور کیا کہیں گے؟ سنسکرت میں ایراوتی لیکن صدیوں سے راوی پکارا جانے والا دریا محض دریا ہی نہیں ایک زندہ وجود بھی لگتا ہے۔ ہنستا کھیلتا، بپھرتا، رام ہوتا، نڈھال ہوتا ایک بزرگ۔ زندگیوں کو جنم دیتا ایک زندہ وجود۔
ہماچل پردیش، ہندوستان میں کانگڑہ سے نکلتا، سابقہ ریاست چمبہ کی گھاٹیوں سے اترتا، دائیں بائیں وادیوں کو شاداب کرتا، چھوٹے دریاؤں اور ندی نالوں کو ساتھ ملاتا، راوی جب پاکستان کی سرحد تک پہنچتا ہے توکچھ فاصلہ دونوں سرحدوں کے درمیان آنکھ مچولی کھیلتا ہے۔ کبھی لکیر کے اِدھر، کبھی اُدھر۔ شکر گڑھ کے علاقے میں داخل ہوکر پاکستانی پنجاب کے میدانوں کو سرسبز کرتا یہ اپنے پورے سفرکے سب سے مشہور اور سب سے بڑے شہر لاہور سے ہمکنار ہوتا ہے۔ لاہور اس کے مشرقی کنارے پر بسا تھا۔ پھر راوی، آبادیوں اور میدانوں سے گزرتا بالآخر پاکستان میں احمدپور سیال کے جنوب میں دریائے چناب میں ضم ہوکر اپنا 720 کلومیٹر طویل سفر ختم کرتا ہے۔ لاہور میں راوی کے مغربی کنارے پر شاہدرہ ہے جہاں باغِ دلکشا میں شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ نورجہاں نے اپنی اور بادشاہ کی آخری آرامگاہ کے لیے کہا تھا:
لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم/جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
(میں نے لاہور جان کے بدلے خرید لیا ہے گویا جان دے کر دوسری جنت مول لی ہے)
لاہور راوی کی وجہ سے آباد ہوا ہوگا، جیساکہ ہر دریا اپنے کناروں پر آباد ہونے والے شہروں کی بنیاد ہوتا ہے۔ راوی لاہور کی پہچان بھی ہے۔ دیکھنے والوں نے اسے پورے جوش و خروش اور روانی میں بھی دیکھا ہے۔ اس کی خاص کھگا مچھلی بیچنے والے گلیوں محلوں میں ''راوی دے کھگے‘‘ کی آوازیں لگاتے پھرتے تھے۔ اس کے مگرمچھ بھی ناکو کے نام سے مشہور تھے۔ یہ باتیں تب کی ہیں جب راوی اپنی روانیوں اور بھرپور پانیوں میں ہوا کرتا تھا اور مشرقی پنجاب میں ہیڈ ورکس نہیں بنے تھے۔ راوی کنارے کوئی خاص تفریحی مقام تو اس وقت بھی نہیں تھا لیکن لوگ جایا کرتے تھے اور کشتی رانی کا شوق بھی پورا کرتے تھے۔ راوی کے بیچوں بیچ شہنشاہ بابر کے بیٹے شہزاہ کامران کی بارہ دری ایک اور پرکشش چیز تھی۔ حالت تواس بارہ دری کی ان دنوں بھی ناگفتہ بہ تھی۔ شکستہ حال بارہ دری اور لمبی گھاس جہاں سانپوں کا بھی ڈر رہتا تھا‘ لیکن اس تاریخی عمارت کی کشش اور دریاکا قرب خوف کے باوجود کھینچ کر لے جاتا تھا۔ پرانے لاہوریوں کو راوی کا پرانا پل بھی یاد ہے جس کے ساتھ ریلوے لائن گزرتی تھی۔ نیا پل بناتو وہ پل قصہ پارینہ ہوگیا۔ اب تو کئی پل بن چکے ہیں۔ پھردریا کی روانی صرف سیلاب کے دنوں میں رہ گئی۔ بزرگ بتاتے تھے کہ جب بند نہیں تھا تو سیلاب کا پانی انارکلی تک آجایا کرتا تھا۔ پھر اس پر محمود بوٹی بند کا پشتہ تعمیر کردیا گیا اور مرکزی شہر محفوظ ہوگیا۔ محمود بوٹی بند کے اِس پارگلشن راوی بسایا گیا۔ اب گلشن راوی کے نام سے دھیان بھی نہیں آتاکہ یہ راوی کنارے کی بستی تھی۔ اوریہ تو ہمارے سامنے کی بات ہے زیادہ پرانی نہیں کہ سیلاب کا پانی لاہور پہنچتا تھا تو مغربی کنارے پر شاہدرہ اور نواحی بستیوں میں قیامت مچاتا گزرتا تھا۔ پھر وہ دور بھی تمام ہوا اور اب سارا سال ایک مضمحل اور نڈھال راوی سستی سے بہتا چپ چاپ لاہور سے گزر جاتا ہے۔
مغلیہ دور میں راوی قلعہ لاہور اور بادشاہی مسجد کے قریب سے گزرتا تھا۔ چشم تصور سے میں قلعے کی فصیل سے کچھ فاصلے پر نقرئی دریاکو جھلملاتے دیکھتا ہوں جہاں اب اقبال پارک اور مینار پاکستان ہے۔ کیا منظر ہوتا ہوگا اس وقت۔ یہیں سے قلعے، محل اور شہر کی سیرابی کا سامان بھی ہوتا ہوگا۔ پھر دریا نے شہر سے منہ موڑ لیا اور کچھ فاصلے پر رہنے لگا۔ شہراس کے تعاقب میں وہاں بھی پہنچا اور مزید بستیاں اس کے کناروں پر آباد ہوگئیں۔ ہم نے اقبال پارک میں بڈھا دریا یا بڈھا راوی کے نام سے پچھلے دور کی باقیات دیکھیں۔ یہ اس زمانے میں بھی خاصا بڑا تھا۔ پھر یہ بتدریج سکڑتا اور ایک تالاب کی حیثیت اختیار کرتا گیا اور گریٹر اقبال پارک نے چند سال پہلے یہ نشانی بھی ختم کردی۔ وہی سلوک کیا گیا جو بوڑھوں سے کیا جاتا ہے جب وہ بوجھ بننے لگتے ہیں۔ اب بڈھے دریا نام کی کوئی چیز لاہور کے قریب نہیں پائی جاتی۔
لیکن کچھ لوگوں سے قطع نظر لاہور نے ہمیشہ راوی سے پیار کیا ہے۔ راوی لاہور کی پہچان ہے۔ کیا کیا گیت نہیں لکھے گئے راوی کے لیے۔ اور اکثر گیت وگدی اے راوی سے شروع ہوتے تھے۔
چل میلے نوں چلیے
ونجلی وجا چھورے لمے دئیا
وگدی اے راوی راہی آندے جاند ے بار دے
مہکدے گلاب ساڈے سجناں دے پیار دے
اس گیت میں ''لمے‘‘ کا مطلب وہ علاقہ ہے جو جھنگ سے نیچے کے پنجاب کا ہے اور ''بار‘‘ کا مطلب وہ علاقہ ہے جو منڈی بہاؤالدین سے بہاولنگر تک ہے۔ اور یہ گیت محض نمائندگی کے لیے شامل کر رہا ہوں ورنہ لوک داستانیں اور گیت بہت اور سدا بہار ہیں۔ میں جب بھی دریائے چناب اور دریائے جہلم سمیت کئی دریاؤں کے کنارے بنے تفریحی اور پُرفضا مقامات دیکھتا تھاتو سوچتا کہ لاہور اور راوی نے کیا ایسا قصور کیا ہے کہ یہاں ایسا کوئی مقام نہیں بن سکتا؟ آخر اس میں کیا رکاوٹ ہے اور کتنا خرچ ہے جو پورا نہیں کیا جاسکتا؟ ایسا کیوں ہے کہ راوی کو صر ف پل سے گزرتے دیکھا جاسکتا ہے، اس کی موجوں میں پیر نہیں بھگوئے جاسکتے؟
یہ جو راوی کی یادوں کا ذکر ہے‘ یہ اس لیے کہ راوی کے بھی کچھ راوی ہیں۔ انہیں عرف عام میں لاہوری کہتے ہیں۔ لاہور اور راوی لازم و ملزوم ہیں۔ کیسے ممکن ہے کہ راوی کے حوالے سے کوئی منصوبہ ہو اور کسی لاہوری کی اس میں دلچسپی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب 2000 کے لگ بھگ چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں ایک بڑے منصوبے کی بات کی گئی تھی، پھر شہباز شریف کے دور میں راوی کنارے زمینوں کی خریدوفروخت پر پابندی لگائی گئی تھی تو اس وقت بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا تھا‘ اور اب جب بزدار حکومت نے راوی ریور فرنٹ اتھارٹی کے نام سے اس منصوبے کیلئے ایک الگ ادارہ قائم کیا ہے تو پھر اس نے اپنی طرف توجہ مبذول کروالی ہے۔ پاکستانیوں، خاص طور پر لاہوریوں کی دلچسپی اس معاملے کی طرف ہے۔ وہ دلچسپی جس میں سوالات، شبہات اور توقعات تینوں شامل ہیں۔ اس منصوبے کا خاکہ کیا ہے؟ یہ اس علاقے کو کس طرح متاثر کرے گا۔ اس کی تفصیلات آئندہ کبھی۔ ابھی تو چراغ حسن حسرت کا یہ گیت دہرا لیں اور زیادہ لطف لینا ہو تو استاد برکت علی خان کی آوازمیں سن لیں۔ ہر بار اس کا لطف الگ ہے:
باغوں میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو، ہم تم کو نہیں بھولے
راوی کا کنارا ہو
ہر موج کے ہونٹوں پر، افسانہ ہمارا ہو