بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ بحیثیت قوم ہمارے اندر کوئی وائرس ہے جو ختم ہی نہیں ہوتا۔ وائرس بھی ذہنی اور نفسیاتی۔ ہم ہر حکومت کے خلاف بولنا، اسے طرح طرح سے ردّ کرنا اور الزام تراشی کرنا ہی انصاف سمجھتے ہیں اور اسے جمہوریت بھی گردانتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ اس مرض کی جڑیں کہیں انگریزوں کے دورِ اقتدار سے تو نہیں ملتیں جب ہم اپنے آپ کو محروم، مظلوم سمجھتے تھے۔ سمجھتے ہی نہیں تھے‘ تھے بھی۔ ہم سے بزور اقتدار چھینا گیا تھا۔ ہم غیر قوم کے حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کو اپنا مذہبی اور اخلاقی فرض سمجھتے تھے۔ جو شخص بدیسی حاکموں کی کسی اچھی بات یا اچھے کام کا ذکر کرتا تھا اسے نفرت اور حقارت سے دیکھتے تھے اور اسے انگریز کا پٹھو سمجھنے میں ایک لمحے کی دیر نہیں لگاتے تھے۔
73 سال کے بعد بھی اور الگ ملک حاصل کرنے کے باوجود ہر حکومت ہماری دشمن، ہر حکمران غیر قوم اور ہر منصوبہ سازش ہے۔ ہر وہ کام جو حکومت کر رہی ہے وہ دراصل ہمارے نقصان اور اس کے اپنے فائدے کا ہے۔ اور ہر وہ کہنے یا لکھنے والا جو کسی کام کی تعریف کرے، بکاؤ اور حکومت کا پٹھو ہے۔ اور یہ تاثر اتنا عام ہے کہ اس کے خلاف بولنا بھی ایک باقاعدہ جہاد ہے۔ مجھے تو کبھی یہ بات بھی سمجھ نہیں آ سکی کہ سیاسی پوزیشن لینے کا مطلب یہ کیوں ہے کہ اب مخالف کی ہر بات کی سخت الفاظ میں تردید کی جائے گی۔ اس سیاسی شرع میں جہاں مخالف کی ہر قسم کی تضحیک، تذلیل اور تمسخر میں کوئی قباحت نہیں ہے، کسی کے اچھے فیصلوں کی تائید یا مثبت نتائج کی تحسین کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس سیاسی شرع میں یہ حرام سے کم نہیں ہیں۔ اول تو مثالی رہنما ملے ہی نہیں، جو تھے ان کی خوبیوں پر ہم نے کیچڑ ملنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہم نے بہت سے اچھے کام بھی کیے تھے۔ بہت ترقی بھی ہوئی کئی شعبوں میں لیکن تعریف اور تنقیص‘ دونوں میں اتنی دھول اڑائی گئی کہ رستہ ہی چھپ گیا۔ اور یہ سب جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کے نام پر۔ یہ کون سا کیڑا ہے ہمارے ذہنوں میں جو اس پر یقین آنے ہی نہیں دیتا کہ ہم بھی ذہن اور دل رکھتے ہیں۔ ہم بھی ایسے کام کر سکتے ہیں جن کی دنیا میں تعریف اور تقلید ہو۔ ایک احساسِ کمتری ہر خود اعتمادی کو کیوں کھا جاتا ہے؟
کووڈ- 19 کے معاملے کو ہی لے لیجیے۔ کووڈ۔19 کی وبا نے نہ اپنے کو چھوڑا نہ غیر کو۔ نہ حاکموں کو، نہ حزب مخالف کو اور نہ عوام کو۔ کشتی میں سوار سب تھے۔ ڈوبتے تو سب ڈوبتے اور بچتے تو سب بچتے۔ لیکن اس خوف نے کشتی کے افراد کو لڑنے سے روکا نہیں۔ بے تعصب اور غیر جانبدار آنکھ سے دیکھیے تو پاکستان وائرس کی لپیٹ میں آکرسب سے ابتر صورت حال والے ملکوں میں ہونا چاہیے تھا، ملک کے کم وسائل اور آبادی کا بڑا بوجھ۔ بہت بڑی آبادی کی غربت۔ صفائی کی ناگفتہ بہ حالت۔ صحت کی کم سہولتیں۔ بے پناہ دیگر مسائل۔ دشمن کی ہمسائیگی۔ اور دہشت گردی کی ہر ممکنہ صورت۔ اگر وائرس بہت بڑی تباہی پھیلاتا تو کوئی تعجب کی بات نہ ہوتی۔ اس کے لیے زمین تو زرخیز تھی۔ اگر ترقی یافتہ ممالک‘ جہاں ان میں سے دس فیصد مسائل بھی موجود نہیں ہیں، لاکھوں کی تعداد میں افراد کو موت کے منہ میں جاتے دیکھ سکتے ہیں اور کچھ کر نہیں پاتے تو پاکستان میں تو خدا نخواستہ اس مرگِ انبوہ کی بہت گنجائش موجود تھی۔
لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اللہ کا کرم تو سب سے بڑی وجہ ہے لیکن ظاہری اسباب میں حکومتی اقدامات بھی اس کا ایک سبب ہیں۔ اور یہ محض ایک جذباتی رائے نہیں بلکہ بین الاقوامی طور پر اس کا اعتراف بھی ہو رہا ہے۔ حال ہی میں PSA Philippines Inc. کے بزنس انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر گریگ وائٹ (Greg Wyat) نے ایک ''ویبی نار‘‘ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کسی ملک کو بطور مثال دیکھنا اور سیکھنا چاہتے ہیں تو پاکستان سے سیکھئے۔ فلپائن اور پاکستان کی بہت سی مماثلتیں ہیں۔ کمزور طبقات کی تعداد، آبادی میں اضافے کا تناسب، صحت کی محدود سہولتیں وغیرہ۔ لیکن ان سب کے باوجود پاکستان کورونا مریضوں کی تعداد نیچے لے آیا ہے۔ پاکستان نے منتخب لوگوں کی ٹیسٹنگ اور سمارٹ لاک ڈاؤن سے یہ ممکن بنایا ہے‘‘۔
لیکن وال سٹریٹ جرنل کی تعریف زیادہ اہم ہے۔ یکم اگست کو اخبار نے لکھا کہ ''پاکستان صرف دو ماہ پہلے کورونا وائرس بے قابو ہو جانے کے خطرے سے دوچار تھا۔ بیس کروڑ آبادی کا ایسا غریب ملک جو صحت کی سہولتوں کا کمزور نظام رکھتا ہے، بظاہر تباہی کے دہانے پر کھڑا تھا۔ اس کا موازنہ برازیل سے کیا جا رہا تھا جو اتنی ہی آبادی اور ایسے ہی مسائل کا شکار ملک ہے اور جسے وائرس نے بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر پاکستان واپس لوٹا اور مریضوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔80فیصد کمی بہت بڑی کمی ہوتی ہے۔ بڑے شہروں حتیٰ کہ کراچی میں بھی یہ کمی نمایاں ہے جو سب سے زیادہ متاثرہ شہر ہے۔ اور یہ کمی اس دوران ہو رہی ہے جب پاکستان کے مشرق اور مغرب میں ہندوستان اور ایران سے مریضوں کی تعداد بڑھنے کی خبریں ہیں۔ یہ تبدیلی وزیراعظم عمران خان کے اس فیصلے کے بعد سے ہے جس میں انہوں نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی تجاویز سے اختلاف کیا تھا اور مئی میں کہا تھا کہ لاک ڈاؤن کی غریبوں کو بہت بڑی قیمت چکانا پڑتی ہے‘‘۔
اخبار نے یہ مزے کی بات لکھی ہے کہ ''پاکستان کے مخصوص حالات، نسبتاً جوان اوسط عمر اور دقیانوسی انداز کا مرد بالا دست معاشرہ بھی اس کی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ خواتین اس معاشرے میں عموماً گھروں سے باہر نہیں نکلتیں؛ چنانچہ مرد ہی گھروں سے نکلتے ہیں، جو نسبتاً زیادہ قوتِ مدافعت رکھنے والے اور نوجوان اوسط عمر (22 سال( کے حامل ہوتے ہیں‘‘۔
کل بل گیٹس نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کی کامیابیوں کی طرف توجہ دلائی اور بھارت کے مقابلے میں بہتر اقدامات کا ذکر کیا۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے نو منتخب صدر وولکان بوزکیر نے حالیہ دورۂ پاکستان میں حکومتی اقدامات اور نتائج کی تعریف کی ہے۔ لیکن یہ سب دوسروں کو نظر آتا ہے، ہمیں نہیں۔اب بھی یہ خطرہ بہرحال ہے کہ دوسری لہر بھی آئے‘ جیسے کئی ممالک میں آئی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ لہر آئی بھی تو اس کا زور بہت کم ہوگا۔ جب پہلی اور بڑی لہر میں ملک زیادہ تر بچا رہا تو ان شاء اللہ ممکنہ دوسری لہر‘ جب ہسپتال بہتر انتظام، طبی عملہ زیادہ تجربہ کار، لوگ زیادہ خبردار ہیں، زیادہ نقصان نہیں کرے گی۔
یہ سوال تو اپنی جگہ موجود ہے کہ حکومت کی پالیسیوں سے یہ کمی کس طرح واقع ہوئی؟ یعنی سائنسی لحاظ سے اس کی تشریح کیا ہے؟ خود عمران خان نے کہا کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ نمبر ایک دم اس طرح گر جائیں گے۔ لیکن جب تک کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی، بہرحال یہ کریڈٹ انہی اقدامات کو جائے گا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے حامیوں کے لیے تو یہ ایک بڑی سیاسی کامیابی ہے۔ اگرچہ ابھی مکمل کامیابی کی منزل دور ہے اور جشن منانے کا وقت نہیں آیا لیکن سکھ کا سانس لینے کا وقت ضرور آ گیا ہے۔ جہاں تک حزب مخالف جماعتوں کا تعلق ہے انہوں نے اس پر کسی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا جبکہ وائرس کے عروج کے دنوں میں ان کی طرف سے کڑی نکتہ چینی کی جا رہی تھی۔
کورونا کے آغاز سے اب تک بہت سی تحریریں چھپیں، بہت سے نظریے پیش کیے گئے۔ دانشوروں نے ا پنی اپنی دانش بگھاری۔ کوئی حکومت مخالف تھا تو کوئی مذہب مخالف۔ جی بھر کر ان کا مذاق اڑایا گیا۔ کوئی دوا ہاتھ میں نہیں تھی لیکن دعا کی بات کرنے سے پیشانیوں پر شکنیں پڑ جاتی تھیں۔ ایک سرنگ کا روشن کنارہ نظر آنے لگا ہے تو کیا یہ وقت نہیں کہ ہم خود سے ایک سوال پوچھیں۔ وہ سوال جو بہت بڑا ہے۔ اور بہت اہم...
اور وہ یہ کہ ہمارے لیے یہ سب کس نے کیا؟