ایک کشادہ، روشن راہداری میں شفاف شیشے کے شوکیس میں پتھر کی یہ سل اس طرح رکھی گئی ہے کہ اسے چاروں طرف سے گھوم پھر کر دیکھا جاسکے۔ روزیٹا سٹون کے بارے میں کافی کچھ پڑھا تھا اور تصویریں بھی دیکھی تھیں۔ دیکھنے میں ایک ٹوٹا ہوا عام سیاہ پتھر، جس پرکچھ عبارتیں کندہ ہیں اور جس پرایک عام آدمی دوبارہ نظر نہ ڈالے‘ لیکن آثارِ قدیمہ کے ماہرین اور محققین کیلئے خزانے کی کنجی۔ سب سے پہلے تو اس کا نام روزیٹا؟ یہ وادیٔ نیل مصر میں اس جگہ کا نام ہے جہاں اس پتھر کی دریافت ہوئی تھی۔ مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا تھا کہ مصرکے کسی شہر یا گاؤں کا نام یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ بعد میں ایک کتاب میں پڑھاکہ گاؤں کا نام رشید (یا رشیدیہ) تھا جسے اس زمانے میں فرانسیسی قابضین روزیٹا کہتے تھے۔
15جولائی 1799 کی بات ہے فرانسیسی فوج کا لیفٹیننٹ پیری فرانکوئیس، رشید نامی مصری گاؤں کے قریب فورٹ جولین نامی قلعے کی فصیلیں مضبوط کروا رہا تھاکہ اس نے پتھر کی یہ سل دیکھی جو اس کے سپاہیوں نے زمین سے کھود کر نکالی تھی۔ سل پر تین قدیم زبانوں کی عبارتیں درج تھیں۔ سب سے اوپر مصر کی قدیم مذہبی ہیروغلیفی زبان میں۔ وسط میں مصرکی مروج عوامی، قبطی زبان میں اور سب سے نیچے قدیم یونانی زبان میں۔ پیری فرانکوئیس اور اس کے افسران کو لگا‘ یہ کوئی مختلف اور اہم چیز ہے۔ متعلقہ لوگوں تک خبر پہنچائی گئی۔ خود نپولین بھی یہ سل دیکھنے آیا۔ اس زمانے تک ہیروغلیفی زبان جو قدیم مصری مقبروں، سنگی سلوں، ستونوں اور دستاویزات میں ہر جگہ موجود تھی، کبھی پڑھی نہیں جاسکی تھی۔ یہ تصویری زبان جس میں کہیں الو، کہیں بگلے، کہیں انسان، کہیں سانپ، کہیں آنکھ کی شکلیں تھیں، ایک معمہ تھی۔ یہ کیا علامتیں اور کیا حروف ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ دنیا بھر میں یہ تحریر پڑھنے لکھنے اور جاننے والا کوئی تھا ہی نہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ مصرپر قبضے کے بعد رومن سردار تھیوڈوسیس نے اس زبان کو بے دینوں کی زبان کہہ کر قانونی طور پر ممنوع قرار دے دیا اور پروہتوں کو ملک بدر کردیا تھا۔ سو زبان معدوم ہوگئی۔ روزیٹا سٹون ملا تو اندازہ کیا گیاکہ یہ ایک ہی تحریر تین مختلف زبانوں میں لکھی گئی ہے۔ اگر ایسا ہوتو پھر ہیروغلیفی زبان کی کلید مل جاتی تھی کیونکہ باقی دو زبانیں جاننے والے لوگ موجود تھے۔ یہ خیال درست نکلا۔ یہ ایک ہی فرمان کے تین روپ تھے۔ اگرچہ یہ پتھر بڑی سل کا محض ایک ٹوٹا ہوا بڑا ٹکڑا تھا؛ تاہم اس خیال کی تصدیق کے بعد محققین ہیروغلیفی زبان کو ڈی کوڈ کرنے میں جت گئے۔ یہاں بہت تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ کتابوں میں سب روداد اوراس معاملے میں علمی بددیانتیوں کی تفصیل بھی موجود ہے؛ تاہم ڈی کوڈنگ کا سب سے اہم کام فرانسیسی محقق جین فرانکوئس شمپولین نے 1822 میں کیا۔ اس نے سنگی سل اور دیگر ہیروغلیفی آثار کے موازنے کے بعد ہیروغلیفی زبان کے حروف تہجی، ان کی آوازیں اور گرائمر متعین کی؛ تاہم تفصیلی کتاب شمپولین کے مرنے کے بعد 1832 میں شائع ہوسکی۔ انگریزوں نے فرانس کو شکست دے کر مصرپر قبضہ کیا تو یہ سل ان کے ہاتھ لگ گئی اور اس وقت سے برٹش میوزیم کی زینت ہے۔
مصری فراعنہ کے آخری زمانے میں پی ٹولیمی (بطلیموس؟) پنجم نامی ایک غیراہم فرعون کی تخت نشینی کے بعد یہ سنگی فرمان مصری کیلنڈر کے مطابق 27مارچ 196قبل مسیح کو کندہ کیا گیا تھا۔ یہ فرمان کچھ اس دور حکومت کے ریکارڈ اور کچھ پروہتوں سے متعلق ہے۔ نہ فرمان کوئی خاص اہم ہے اور نہ وہ فرعون‘ لیکن یہ سنگی سل مصریات میں نہایت اہم اور بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ روزیٹا سٹون برٹش میوزیم میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے عجائبات میں پہلے نمبر پر ہے۔
یہ بات بھی یہاں قابل ذکر ہے کہ حالیہ زمانے میں شمپولین کی ڈی کوڈنگ سے کچھ محققین نے اختلاف کیا ہے۔ خاص طور پر مصری ماہرین نے۔ ان کے مطابق شمپولین نے جو غلطیاں کیں ان وجہ سے بہت سی جگہوں پر معانی ہی بدل جاتے ہیں۔ خیر یہ محققین کا دائرہ ہے اور یہاں ہمارے پر جلتے ہیں لیکن بات یہ ہے کہ اگر یہ سل نہ ملتی تو کیا ہیروغلیفی زبان دنیا پر نہ کھل پاتی؟ یا کھلتی تو بہت زمانے کے بعد؟ آخر ہمارے یہاں وادیٔ سندھ کی گمشدہ تہذیب میں ہڑپہ اور موہنجودڑو کی مہریں بھی تو اب تک پڑھی نہیں جاسکی ہیں۔ یہ زبان بھی تو ابھی پردہ اٹھنے کی منتظر ہے۔ شاید اس لیے کہ کوئی روزیٹا سٹون دستیاب نہیں ہوا۔
اسلامی، یونانی، افریقی، عراقی گیلریاں بھی کمال ہیں۔ کیا کیا بیان ہو۔ انڈیا آفس لائبریری کے دیدار سے محرومی کی تلافی یوں ہوئی کہ انڈیا گیلری میں وہ نوادرات دیکھے جو دل کو سیپارہ کرتے تھے۔ یہ نوادرات کم ازکم اسی شکل میں تو ہیں اور دیکھے بھی جاسکتے ہیں۔ ظالموں نے دنیا کے قیمتی ترین کوہ نور ہیرے کے تو واقعی ہمارے دل کی طرح ٹکڑے بھی کردئیے اور نظروں سے چھپا بھی لیا۔ کیا دنیا میں ایک نایاب، یکتا، عدیم النظیرہیرے کو اس طرح برباد کرنے کی کوئی اورمثال ہے؟ کیا یہ انسانی تاریخی ورثے کو دانستہ خراب کرنا نہیں تھا؟ اور اس عجوبے کو خراب کردینے پر کہیں شرمندگی ہے؟ تاج برطانیہ کیلئے توکوئی بھی چھوٹے ہیرے استعمال کیے جاسکتے تھے۔ اگر برصغیر کی اقوام صرف اس گیلری کی چیزوں پرملکیت کا دعویٰ کریں تو صرف خالی شوکیس بچیں گے اور یاد رہے کہ برٹش میوزیم تنہا نہیں، صرف پہلا ہے۔
میں ہر ہر چیز پر ٹھٹکتا، رکتا، چلتا آگے بڑھتا رہا۔ اچھا یہ ہے رنجیت سنگھ کا وہ طلائی تخت جو ایک مسلمان کاریگر حافظ محمد ملتانی نے بنایا تھا‘ اور خاص خاص موقعوں پر استعمال ہوتا تھا۔ اور یہ سرسوتی دیوی کی سنگ مرمر کی نادر اور بیش قیمت مورتی۔ اور یہ سلطان گنج کا بدھا کا دھاتی مجسمہ۔ کہتے ہیں کہ 500 کلوگرام وزنی یہ مجسمہ ہندوستان میں پایا جانے والا سب سے بڑا مکمل دھاتی مجسمہ ہے۔ اور یہ سبز قیمتی پتھر جیڈ کا جام جو شاہ جہاں کی طرف منسوب ہے۔ یہ اماروتی کی سنگ مرمر کی نازک کام والی الواح۔ اور وہ 89 قیراط کا ہیرا جو مہاراشٹرا کے ناشک مندر سے منسوب تھا۔ ناشک ہیرا۔ مسلمانوں کے سارے ادوار میں مندر میں آویزاں یہ ہیرا محفوظ رہا۔ انگریزوں نے مرہٹوں کو شکست دیتے ہی اس پر قبضہ کرلیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ برطانوی جوہریوں کو بہت مہنگے داموں فروخت کیا اور جوہریوں نے اس کے ٹکڑے کرکے بیچ ڈالے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
لیکن ٹیپو سلطان کی انگوٹھی نے قدم ہی نہیں دل بھی پکڑلیا۔ اللہ اللہ۔ چھوٹی سی طلائی انگوٹھی جس پر اللہ کندہ ہے۔ ٹیپو کی تلوار وہاں نظر نہیں آئی جبکہ سنا تھاکہ وہ بھی ان اثاثوں کے ساتھ میوزیم میں موجود ہے؛ البتہ وہ ساز وہیں ہے جس میں عام زندگی کے سائز کا ایک جوان شیر یورپی لباس میں ملبوس ایک فرنگی کے سینے پر چڑھا بیٹھا ہے۔ شیرکے اندر ایک باجا ہے۔ کل مروڑیں تو فرنگی کی چیخیں سنائی دیتی ہیں اور ایک بازو اٹھتا گرتا ہے۔
کبھی وہ تفصیل پڑھیے جو اس میوزیم اور مختلف اقوام کے درمیان دعویٰ، ردِ دعویٰ، قانونی موشگافیوں اورحیلوں بہانوں پر مشتمل ہے۔ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات تو ہم مانتے بھی ہیں اور بھگت بھی رہے ہیں لیکن کیا ہم وہ سب کہنے کی ہمت رکھتے ہیں جو کہنے کو دل چاہتا ہے؟ ہم جیفرے رابرٹسن بھی تونہیں کہ کھلے عام یہ کہہ سکیں کہ یہ چوری شدہ مال کا آخری ٹھکانہ ہے۔
شام گئے میں برٹش میوزیم سے نکلا۔ دل خوش بھی تھااور اداس بھی۔ ایک پیاس بجھ گئی تھی لیکن کچھ اور تشنگیاں جلا کر۔
دہکتا چھوڑ گیا دل بھی تنگ آکے مجھے
چراغ بجھ تو گیا ہے مگر جلا کے مجھے
میں ایک کیفیت میں پیدل چلتا رہا اور میوزیم میں گزرا ہوا سارا دن میرے اندر چہل قدمی کرتا رہا۔ گھر جانے کے بجائے میں مشرقی لندن کے لٹل الفورڈ پارک میں بیٹھ گیا۔ شاید یہ درخت، یہ پودے، یہ سبزہ میری وحشت کچھ کم کرسکیں۔
لیکن بھئی کچھ وحشتیں موسمی بخار کی طرح ہوتی ہیں۔ اپنا وقت گزار کر ہی کم ہوتی ہیں۔