"SUC" (space) message & send to 7575

مٹھاس اور ٹھنڈک کی طرف ایک سفر

پابندی ہمیشہ بری لگتی ہے ‘چاہے وہ ہمارے فائدے کی ہی کیوں نہ ہو۔ کورونا میں لاک ڈاؤن کی پابندی ہی کو دیکھ لیں ‘لوگ اپنے بچاؤ اور تحفظ کے لیے گھروں میں قید تھے ۔پھر یہ کہ نکلتے بھی تو کہاں کے لیے؟ دوستوں رشتے داروں کے گھر تو الگ رہے ‘ریسٹورنٹ‘سیاحتی مقامات‘ ہوٹل‘ دکانیں‘ بازارسب بند‘جائیں تو جائیں کہاں؟
فروری سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور مارچ تک آتے آتے زمین آسمان بدل گئے ۔گھروں میں کتنا رہتے اور لکھنا پڑھنا بھی کتنا کرتے ؟ایسا لگتا تھا کہ اب زندگی ایسے ہی گزرے گی ۔ گھروں میں قید رہتے اور دوسرے شہروں میں جانے کو ترستے۔اس لیے جب اللہ نے کرم کیا اور پاکستان کورونا کی زد سے مجموعی طور پر بچ نکلا ‘لاک ڈاؤن پہلے نرم اور پھر ختم ہوا۔ ریسٹورنٹس اور ہوٹل کھل گئے اور لوگ دوسرے شہروں کو آنے جانے لگے تویہ ایک خواب جیسا تھا جس کا گزشتہ اپریل‘ مئی‘ جون‘ جولائی وغیرہ کے مہینوں میں صرف آنکھیں بند کرکے نظارہ کیا جاسکتا تھا۔
ستمبر ویسے تو ستم گر کہلاتا ہے لیکن اس بار یہ مہینہ مہربان تھا۔ دل نے سوچا دریاؤں ‘چشموں اور پہاڑوں سے مدت ہوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ یاد کرتے ہوں گے‘سو کچھ دن کیلئے سامان اور ارادہ باندھ لیا۔ زندگی کی بندشیں کھلتی ہیں نہ زنجیریں کٹتی ہیں۔ انہی کے ساتھ رہنا پڑتا ہے ۔انہی کے ساتھ سفر کرنا پڑتا ہے‘ سو انہی کے ساتھ نکلے اور شہر سرسبز ‘ کوئے دلدار ایبٹ آباد کا رخ کیا۔ یہ خوب صورت اور نسبتاً پرسکون شہر ہمیشہ سے مجھے پسند ہے اور میری بے شمار یادیں اس سے وابستہ ہیں ۔ہزارہ موٹروے اسلام آباد سے شروع ہوتی ہے اور اب تھا کوٹ تک جاتی ہے ۔میں نے اس کے افتتاح پر ایک تفصیلی کالم لکھا تھا۔اس سے پہلے پچھلے سال جب اس پر سفر کیا تھا تو ہری پور تک ہی سفرممکن تھا ‘آگے کام چل رہا تھا‘سو وہاں سے پرانی سڑک پر اتر کر دھکے کھاتے اور ٹریفک میں پھنستے ایبٹ آباد پہنچے تھے۔اس ٹکڑے پر سفر ایک مصیبت سے کم نہیں تھا اور چونکہ ایبٹ آباد اور مانسہرہ ‘کاغان وغیرہ جانے والی ہلکی اور بھاری تمام گاڑیاں اسی سڑک سے گزرتی تھیں ‘یہی واحد راستہ تھا اس لیے اس پرسالہا سال سے ہولناک ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اب یہ ہزارہ موٹر وے تھا کوٹ تک کھول دی گئی ہے اور بہت سہولت ہوگئی ہے ۔اگرچہ پرانی سڑک پر ٹریفک اب بھی ہے لیکن اب پچاس فیصد کمی ہوگئی ہے۔ حویلیاں اور ایبٹ آباد کے درمیان اس کے انٹر چینج سے نکل کر ایبٹ آباد کی پرانی سڑک پر پہنچے۔
ہزارہ موٹر وے بلاشبہ حسین موٹر وے ہے۔سرسبز پہاڑوں‘جنگلوں اور وادیوں سے گزرتی ہوئی موٹروے معیار‘سہولت اور منظر ہر اعتبار سے ملک کی خوبصورت ترین شاہراہوں میں ہے۔ ایبٹ آباد سے آگے دو سرنگیں‘ جن کی وجہ سے یہ حصہ کافی دن بعد کھولا گیا‘بہت اچھی اور جدید سہولیات سے آراستہ۔ ایک سرنگ تقریبا ڈھائی کلو میٹر لمبی ہے۔ موٹر وے کے معیار کو دیکھ کر تو خوشی ہوئی لیکن یہ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی کہ اس پر سہولتیں مثلاً پٹرول‘ریسٹورنٹس‘مساجد‘گاڑیوں کی ورک شاپس ‘مسافروں کے ضروری سامان کی دکانیں وغیرہ کسی بھی جگہ نظر نہیں آئیں۔ نہ صرف یہ کہ سہولتیں موجود نہیں بلکہ ایسی جگہیں بھی دکھائی نہیں دیں جو ان کیلئے مختص کی گئی ہوں۔ یہ بات اس لئے حیرت انگیز ہے کہ موٹرویز کے بین الاقوامی معیار میں سڑک کے معیار کے ساتھ یہ سہولتیں بھی لازماً شامل ہوتی ہیں‘ ان کے بغیر کوئی سڑک موٹروے نہیں کہلا سکتی ۔ مطلب یہ کہ ساری چیزیں مع وافر پٹرول اسلام آباد سے چلتے ہوئے اگر آپ کے ساتھ نہیں ہیں تو آپ سخت پریشانی کا شکار ہوسکتے ہیں اور اگر گاڑی کے ٹائر خراب ہوگئے یا انجن کی کوئی خرابی ہوگئی تو شاید اس ویرانے میں آپ ساری رات مدد کیلئے انتظار کرتے رہیں۔یہ بہت بڑا خلا ہے اور اس کا جواب موٹر ویز اتھارٹی کے ذمے ہے ۔
موٹروے پر وہ انٹر چینج جس سے ایبٹ آباد شہر جانے کیلئے نکلنا پڑتا ہے ‘اس سڑک پرلے آتا ہے جو حویلیاں اور ایبٹ آباد کی پرانی خراب حال سڑک ہے ۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ انٹر چینج ایبٹ آباد سے کافی دور واقع ہے اور پرانی سڑک پر کم و بیش پندرہ کلو میٹر طے کرکے آپ ایبٹ آباد میں داخل ہوتے ہیں ۔ موٹر وے اس پرانی سڑک کے متوازی اسی سمت میں چلتی رہتی ہے ۔ یہ پرانا راستہ آبادی اورٹریفک والاہے اور سڑک کی بری حالت اس پر مستزاد ۔نتیجہ یہ کہ شہر کے مرکز تک پہنچنے کیلئے مزید چالیس منٹ لگ جاتے ہیں ۔اگر موٹر وے پرانے راستے کے ساتھ ہی جانی تھی تو شہر کے قریب انٹر چینج بن سکتا تھا جس سے لوگوں کو بہت سہولت ہوتی ۔ اس پر شاید ایک پل تعمیر کرنے کی ضرورت ہوتی ‘لیکن یہ شہر کے بالکل قریب نکالا جاسکتا تھا۔ ایسا کیوں نہیں ہوا؟اس کا جواب معلوم ہونا چاہیے۔ ایبٹ آباد شہر کی سڑکوں کا بھی برا حال ہے ۔ بیس منٹ کا سفر پون گھنٹے میں طے ہوتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ جوڑ جوڑ ہل جاتا ہے ۔اس خوبصورت اور سرسبز شہر پر ان سڑکوں کی وجہ سے گرد اور مٹی کا بادل چھایا رہتا ہے۔ خدا جانے کرتا دھرتا کتنی لمبی نیند لے رہے ہیں اور کب بیدار ہوں گے۔
ایبٹ آباد سے اتنی یادیں وابستہ ہیں جنہیں گنا بھی نہیں جاسکتا۔یہ چھوٹا سا خوبصورت شہر سربن نامی پہاڑی سلسلے کے دامن تلے ‘خوشگوار موسم‘ٹھنڈی سڑکوں اور صحت افزا پانی کا مسکن ہے ۔ اور اگر آپ خوش قسمتی سے کہیں شملہ پہاڑی یا اس کے اطراف میں قیام پذیر ہیں تو گویا روکش جنت کوچے میں رہتے ہیں ۔ بلندی سے شہر کو دیکھیں تو زمین پر اور پہاڑیوں پر ستارے پڑے نظر آتے ہیں ۔ستارے بھی رنگ رنگ۔ دل نے کہا
جیسے زمین پر ہوں ستارے پڑے ہوئے 
اک رنگ میں بھی رنگ ہیں سارے پڑے ہوئے 
میرے لیے ایبٹ آباد کا اصل چہرہ تو میرے دوست ہیں ۔ لفظ اور ہنر کے وارث اور علم بردار۔شعر‘ نثر ‘تنقید‘علم ‘فنون ۔ یہ شہر بہت سے بڑے شہروں پر بھاری پڑتا ہے ۔کوئی ایک نام ہے بھلا۔جناب محمد ارشاد‘سلطان سکون ‘ واحد سراج‘عامر سہیل‘ احمد حسین مجاہد‘ڈاکٹر ضیا الرشید‘نسیم عباسی ‘قمر زماں‘پرویز ساحراور بے شمار پیارے لوگ۔لالہ حنیف شنکیاری سے ہیں لیکن میں انہیں اسی شہر میں گنتا ہوں۔ ایبٹ آباد جاؤں تو ممکن نہیں کہ ان سے ملاقات نہ ہو ‘لیکن اس بار دل پر قدم رکھ کر گزرنا پڑا کیونکہ وقت کی کمی اور ہمراہیوں کے اپنے پروگرام کو ملحوظ رکھتے ہوئے وقت نکالنا ممکن نہیں تھا۔
ایبٹ آباد سے پرانی سڑک پر مانسہرہ جائیں تو موٹروے کا اگلا انٹر چینج قلندر آباد ہے یعنی اگر اس پر موٹر وے سے باہر نکلیں تو واپس ایبٹ آباد پرانی سڑک پر آنا ہوگا۔یاں بھی یہی صورت نظر آئی کہ اسے اس طرح بنایاجاسکتا تھا کہ یہ ایبٹ آباد شہر سے قریب تر ہوجائے۔مانسہرہ والی پرانی سڑک بھی خستہ حال‘بعض مقامات پر بہت تنگ اور ٹریفک کے سخت دباؤ کا شکار ہے۔ زمانہ گزر گیا کہ اس کی بہتری کے لیے اس پر سفر کرنے والوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔مانسہرہ ‘ایک خوبصورت پہاڑی بستی ‘ماضی کی طرح ترقیاتی کاموں کی سخت کمی کا شکار ہے۔شہر کے نواح سے مرکز تک پہنچنا اور ان راستوں سے گزرنا ایک مسافر کے لیے کٹھن ہے تو مقامی باشندے کتنی تکلیف سے گزرتے ہوں گے۔مانسہرہ سے بالاکوٹ تک کا راستہ مزید سرسبز ہوگیا ہے ‘اس میں حالیہ بارشوں اور شاید کے پی حکومت کی توجہ کا بھی دخل ہے ۔ بالاکوٹ سے میری دیرینہ محبت ہے۔ یہی ہے گنجِ شہیداں ‘یہی ہے مشہد ِگل ۔کیسے کیسے بے لوث انفاس نے حضرت سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی رہبری میں یہیں آخری معرکہ لڑا تھا۔ یہ شہر وادیٔ کاغان کا دروازہ بھی ہے اور یہیں دریائے کنہار سے ایک بار پھر برسوں کے بعد ملاقات ہوئی ۔ جیسے ایک محبت بھرا دوست ایک زمانے کے بعد مل کر سیراب کردے۔اس دن کنہار سے واپسی ہوئی تو اس کی مٹھاس اور ٹھنڈک میرے رگ و ریشے میں دوڑتی تھی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں