"SUC" (space) message & send to 7575

قفل ٹوٹا خدا خدا کرکے

محاورہ تو اس مصرعے کے مطابق ہے کہ
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے 
لیکن یہاں معاملہ کفر کا نہیں‘ قفل کا ہے۔ اور قفل بھی ایک دو نہیں‘ کئی ایک۔ آخرکار میاں صاحب بول پڑے۔ وہ جو ایک طویل خاموشی تھی‘ ٹوٹ گئی، جس میں یہ بھی پتا نہیں چل رہا تھا کہ نواز شریف آخر ہیں کہاں؟ صحت کیسی ہے؟ اور جو مہم انہوں نے 'مجھے کیوں نکالا‘ اور 'ووٹ کو عزت دو‘ کے نعروں کے ساتھ شروع کی تھی‘ اس کا کیا بنا؟
محترمہ مریم نواز ہمیشہ اپنے والد کی ہم آواز رہتی ہیں۔ میاں نواز شریف نے ملک سے باہر جاکر چپ کی چادر اوڑھ لی تو وہ کیسے پیچھے رہتیں؟ خاموشی میں بھی ہم آواز ہوگئیں۔ وہ بولے‘ تو یہ بھی بول پڑیں۔ بیماری کے دنوں اور یوکے منتقلی کے بعد کچھ مدت کے لیے مخالفین کو بھی چپ لگ گئی تھی۔ ملکی سیاسی میدان بھی صاف نظر آنے لگا اور محاذ آرائی کا سمندر جو ہمہ وقت ہلچل میں رہتا ہے‘ پُرسکون نظر آنے لگا تھا۔ چپ کا روزہ لمبا ہوا تو پہلے دبی دبی آوازیں اٹھیں‘ پھر انگلیاں بھی اٹھنے لگیں۔ اس دوران میاں نواز شریف کی لندن میں چہل قدمی کرتے، چائے یا کافی پیتے تصویریں بھی گاہے سامنے آتیں اور اخبارات میں کم اور سوشل میڈیا پر زیادہ پھیلتی رہیں۔ ہر ایسی تصویر کے بعد شور بلند ہونے لگتا۔ایک طبقہ وہ تھا بلکہ ہے جو یہ سمجھتا اور سمجھاتا رہتا ہے کہ میاں نواز شریف ایک ڈیل اور ایک معاہدے کے مطابق ملک سے باہر گئے ہیں۔ فریقین اپنے اپنے سیاسی مفاد کے بیان دے رہے ہیں لیکن دونوں جھوٹ بول رہے ہیں۔ نواز شریف کی یہ خاموشی اس معاہدے کا لازمی جزو ہے۔ اب میاں صاحب عملی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے ہیں اور ان کی پُرشور دور سیاست ختم ہوگیا ہے۔
ایک گروہ پہلے بھی تھا اور اب اس میں مزید لوگ شامل ہوتے جا رہے ہیں، جو سمجھتے اور باور کرواتے ہیں کہ میاں! بیماری اور پلیٹ لیٹس کی خطرناک کمی کچھ بھی نہیں تھی‘ محض ڈرامہ رچایا گیا‘ عدالتیں اور حکومت اس چکر میں آ گئی۔ شکنجے اور جیل سے باہر جانا مقصد تھا‘پلیٹ لیٹس رپورٹ نے وہ پورا کر دیا۔ یہ کیسا مریض تھا جو پاکستان کے ہسپتالوں میں جاں بلب تھا، لیکن لندن پہنچتے ہی صحت یاب ہوگیا اور اسے کسی ہسپتال میں داخلے کی ضرورت بھی نہیں پڑی؟ ان کے خیال میں نون لیگ کا پروگرام پہلے سے یہی تھا کہ یہ مقصد پورا ہو جائے۔ پھر صحت کے حقیقی مسائل ٹھیک ہوں اور اس تمام مدت میں خاموشی اختیار کرکے سیاسی معاملات پر تبصروں سے گریز کیا جائے۔ حکومت کو مزید غیر مقبول ہونے دیا جائے۔ عوام کی طرف سے آوازیں اٹھنے دی جائیں۔ حالات کاجائزہ لیا جاتا رہے اور اس آخری حد پر بات کی جائے جب مزید چپ رہنا ممکن نہ رہے۔ سو وہ حد اب آن پہنچی ہے‘ جب اپوزیشن یکجا ہو رہی ہے۔ اس کا پیمانہ صبر بھی لبریز ہو چکا ہے اور اسے میاں نواز شریف کی شدید ضرورت ہے۔ یہ ضرورت اب اتنی شدید ہے کہ اپوزیشن کیلئے مزید صبر اور میاں صاحب کیلئے مزید چپ ممکن نہیں۔
نون لیگ کے ہمدرد اور میاں صاحب کے مداح ہر حال میں ان کے ساتھ ہیں۔ وہ نہ بیماری کو ڈرامہ سمجھتے ہیں، نہ کسی ڈیل اور معاہدے کے قائل ہیں۔ میاں صاحب کی اے پی سی میں سخت تقریر اور بعد کے بیانات سے اس گروہ میں جان پڑ گئی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب یہ تمام جماعتیں متحد ہوکر حکومت کے خلاف ایک بھرپور تحریک چلا سکتی ہیں۔ ان کے خیال میں لوگوں کے سنہرے خواب ٹوٹ چکے ہیں اور اب اس حکومت سے انہیں کوئی توقع نہیں رہی؛ چنانچہ پی ٹی آئی کی حکومت کو گرایا جا سکتا ہے۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں‘ اور ان میں یہ کالم نگار بھی شامل ہے‘ کہ میاں صاحب کی بیماری اور گرتی ہوئی صحت ڈرامہ نہیں تھا۔ ان کی اس زمانے کی تصویریں دیکھیں تو واضح طور پر ایک بیمار نواز شریف نظر آتے ہیں۔ پھر میڈیکل رپورٹس اور ڈاکٹروں کے معائنے‘ جن میں حکومتی ڈاکٹرز اور شوکت خانم ہسپتال کے ماہرین بھی شامل تھے‘ اس خطرے کی نشاندہی کرتے تھے جو میاں صاحب کو لاحق تھا۔ خود یاسمین راشد‘ جو ایک تجربہ کار ڈاکٹر ہیں‘ کی گواہیاں آج بھی موجود ہیں کہ رپورٹس خطرناک تھیں۔ ایسے حالات میں اگر انہیں باہر بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تو وہ غلط نہیں تھا۔ لندن پہنچنے کے بعد وہ فطری طور پر قید و بند، شدید ذہنی دبائو سے باہر نکل آئے۔ اپنے بچوں اور عزیزوں میں رہنا بذات خود ایک صحت بخش بات ہے۔ ان کے گھر کے ایک کمرے کو ہی ہسپتال کا روپ دے دیا گیا اور وہیں ان کا علاج ہوتا رہا۔ ان کی نئی تصویریں اور وڈیوز دیکھیں تو ان کی صحت بہتر نظر آتی ہے اور وہ خود اعتمادی سے بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سو بظاہر یہ سب ایک فطری نظام کے تحت ہوا جس میں رپورٹس اور ڈاکٹرز کی جعلسازی شامل نہیں۔ ایسی جعل سازی زیادہ معائنوں میں چل بھی نہیں سکتی تھی۔
میں ان لوگوں میں ہوں جو نواز شریف اور شہباز شریف کو آج بھی الگ الگ نہیں سمجھتے۔ ایک کا سخت مؤقف اور ایک کا مفاہمتی رویہ‘ بذات خود سوچا سمجھا اور باہمی طے شدہ معاملہ ہے۔ اس طرح دونوں دروازے کھلے رہتے ہیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ میاں صاحب نے اس وقت طویل چپ کا روزہ کیوں توڑا‘ اور یہ سخت تقریرکیوں کی جس نے اے پی سی کے باقی معاملات اور تقاریر کو پس منظر میں دھکیل دیا۔ میرے خیال میں نون لیگ میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ نواز شریف اب ملک واپس نہیں آئیں گے۔ کم از کم موجودہ صورتحال میں۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً یہ بیانات آتے رہیں گے کہ وہ صحت بحال ہوتے ہی واپس آکر عدالتوں اور مقدمات کا سامنا کریں گے لیکن عملاً ایسا نہیں ہوگا۔ انہیں کئی طرح کے فائدے حاصل ہوئے ہیں۔ حکومت اور اداروں کے بارے میں سخت مؤقف اختیار کرکے ایک طرف ان کی ملکی سیاست میں بھرپور واپسی ہوگئی ہے۔ دوسری طرف انہوں نے برطانیہ میں اپنے طویل قیام کا جواز فراہم کر لیا ہے اور ممکنہ سیاسی پناہ کے لیے زمین تیار کر لی ہے۔ اپنی طویل چپ میں اٹھنے والی آوازیں چپ کروا دی ہیں ڈیل یا معاہدہ کرکے باہر جانے کی بولیوں کو خاموش کر دیا ہے۔
یہ ہر خاص و عام کو علم ہے کہ جارحانہ بیانات، سخت باتیں حزب اختلاف میں رہ کر زندہ اور مقبول رہنے کا آسان راستہ ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں بھی ایسی باتوں کو توجہ دی جاتی ہے، بین الاقوامی اور ملکی میڈیا بھی انہیں اچھالتا ہے ۔ یہ کام میاں نواز شریف پہلے بھی کرتے رہے ہیں اور یہ کام انہیں آتا ہے۔ اقتدار کی کرسی سے اتر کر نظام کی وہ تمام خامیاں نظر آنے لگتی ہیں جو ایک دو سال پہلے اقتدار میں رہتے ہوئے انہیں دور دور دکھائی نہیں دیتی تھیں۔ اور یہ محض انہی کا طریقہ نہیں ہے۔ خان صاحب کو بھی دیکھ لیجیے۔ اقتدار سے دور رہ کر وہ اصول پسندی کی باتیں کرتے تھے۔ کیا دورِ اقتدار میں اس کا دس فیصد بھی نظر آتا ہے؟ ان کے حامی بھی ان کا دفاع کرتے کرتے اب اس نظریے کے قائل ہو گئے ہیں کہ اقتدار سے باہر کی حکمت عملی اور ہے اور اقتدار میں رہنے کی اور۔
لیکن نواز شریف کے سکوت کا قفل ٹوٹنے کا ایک ردعمل یہ سامنے آیا ہے کہ وزیراعظم بھی بول پڑے ہیں ۔ انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں اور بھارت کی منشا کو پورا کر رہے ہیں۔ 
کچھ بھی ہو، اور کوئی بھی عذر پیش کیا جائے۔ نواز شریف فی الحال ملک واپس آتے نظر نہیں آتے اور یہ بھی ممکن نظر نہیں آتا کہ برطانیہ سے ان کی واپس بہ جبر کروائی جا سکے۔ اس لیے میرے خیال میں ایک دوسرے کی گزند سے دور رہ کر مورچوں میں بیٹھے ہوئے گولہ باری چلتی رہے گی۔ بیان بازی اور الزامات در الزامات شامل ہوتے رہیں گے۔ ان پلندوں کی اونچائی میں اضافہ ہوتا رہے گا جو پہلے ہی میناروں کی طرح بلند ہوچکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں