"SUC" (space) message & send to 7575

چھ گھنٹے دہشت گرد کے چُنگل میں…(2)

بس چل پڑی تھی۔ٹھگنے نے مائیک پکڑا۔امریکن نیگرو لہجے میں آدھے سمجھ میں آنے والے اعلانات کئے جس میں ایک تو وائی فائی کنکشن کا پاس ورڈ تھا جو ہم نے نوٹ کرلیا۔دوسرے راستے کی کچھ معلومات تھیں۔مائیک پر اعلان ختم ہوا ہی تھا کہ ٹھگنے کی نظر رحمان فارس پر پڑ گئی جس نے ایک ٹانگ آرام کی خاطر درمیانی راہ داری میں پھیلا لی تھی۔''کیا تمہیں پتہ نہیں ہے کہ یہ راستہ ہے؟تم اپنی سیٹ پر ٹھیک سے بیٹھو ورنہ میں یہیں اتار دوں گا‘‘۔اس نے درشت لہجے میں کہا۔ٹانگ واپس سیٹ کے اندر جانے میں ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت لگا۔
غصہ‘ ہنسی‘سنجیدگی اور خوف۔یہ ساری کیفیات اب ہمارے ساتھ ساتھ سفر کر رہی تھیں۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس بندے کے ساتھ کیا بات کی جائے اور کیسے ؟رحمان فارس اب اُٹھ کر میرے ساتھ کی خالی سیٹ پر آ بیٹھے تھے۔''یار سعود بھائی ! یہ تو بڑا کمینہ آدمی ہے‘‘۔ ''انتہائی‘‘۔میں نے تائید کی۔''اور ساتھ ساتھ نہایت بدتمیز بھی‘‘۔ ہم دونوں اردو میں اور سرگوشیوں میں بات کر رہے تھے۔''اس سے کیسے نمٹا جائے ؟اور میرا تو وائی فائی بھی کنیکٹ نہیں ہورہا‘ فارس نے کہا۔ میرا بھی کنیکٹ نہیں ہورہالیکن یہ اس سے کیسے کہیں ؟‘ میری آواز میں بھی واضح خوف موجود تھا۔لیکن کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ گِٹّھو تک ہماری کھسر پھسر کی آوازیں پہنچ گئی تھیں۔''تم مسلسل باتیں کرکرکے پوری بس اور سب مسافروں کو پریشان کر رہے ہو۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اس پورے سفر میں میرے لیے مصیبت بننے والے ہو۔اگر میں تم لوگوں کو یہیں اتار دوں تو کیسا رہے ؟‘‘ اس نے ہماری طرف منہ کرکے کہا۔ یہ بالکل غلط الزامات تھے۔نہ ہم مسلسل باتیں کر رہے تھے‘نہ ہمارے قریب کوئی مسافر تھے۔ نہ مسافروں تک آوازیں جار ہی تھیں اور نہ کسی نے شکایت کی تھی۔ہمیں تو ایک دوسرے کی آوازیں بھی بمشکل سنائی دے رہی تھیں لیکن ٹھگنے کی اس دھمکی نے ہمیں بالکل ڈھیر کردیا۔چھوٹے تھے تو کلاس روم میں خاموشی کیلئے مس ہمیں منہ پر انگلی رکھ کر بیٹھنے کی تاکید کرتی تھیں‘سو ہم بچوں کی طرح منہ پر انگلی رکھ کر بیٹھ گئے۔خوشبیر سنگھ شاد پہلے ہی دم سادھ کر بیٹھ چکے تھے۔ دس پندرہ منٹ اسی طرح گزرے‘پھر میں نے ہمت بحال کی۔''وائی فائی تو کام نہیں کر رہا ہے‘‘۔ ''تو پھر میں کیا کروں۔میں نے پاس ورڈ بتا تو دیا تھا‘ٹھیک سے لگاؤ‘‘۔ اس نے بس چلاتے ہوئے گونج دار آواز میں کہا۔''پاس ورڈ بالکل ٹھیک ہے۔لیکن وائی فائی کام نہیں کر رہا ہے‘‘۔ تو پھر میں کیا کروں ؟خراب ہوگا۔ میں ڈرائیور ہوں‘کوئی ٹیکنیشن نہیں کہ خرابی دور کرتا پھروں‘‘۔میں نے ہمت نہیں ہاری‘ اسے بند کرکے دوبارہ چلا کر دیکھیں‘ میں نے کہا۔ ایک سیکنڈ کیلئے وہ چپ رہا۔ شاید اسے میری جرأت پر حیرانی ہورہی تھی۔''تم دیکھ رہے ہو کہ میں اتنی بڑی بس چلا رہا ہوں۔ اور تم مجھے مسلسل باتوں میں مشغول کیے ہوئے ہو۔اگر کوئی ایکسیڈنٹ ہوگیا تو پھر کیا ہوگا۔تم ہی اس کے ذمے دار ہوگے‘‘۔اس کا لہجہ بتاتا تھا کہ کلوٹا مجھے مجرم ٹھہرانے کیلئے ایکسیڈنٹ کردے گا لیکن وائی فائی ری سٹارٹ نہیں کرے گا۔مزید کیا بات کرتا؟اس سے آگے دو تین گھنٹے سفر کے احوال کیلئے منیر نیازی کا وہ مصرع پڑھ لینا چاہیے 
اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور
اس میں کیا شک تھا کہ ہم ایک دہشت گرد کے چنگل میں پھنس چکے تھے۔سوائے اس کے کہ دہشت گرد کا جو حلیہ ہمارے ذہن میں ہمیشہ سے تھا۔یہ کالااس سے مختلف تھا۔بم‘گن‘وغیرہ بھی اس کے پاس کوئی نہیں تھا لیکن مجھے آج بھی اس میں شک نہیں کہ وہ دہشت گرد کی ہر تعریف پر پورا اترتا تھا۔''سعود بھائی! اس بندے سے دوستی بناتے ہیں کسی طرح‘‘۔ فارس نے میرے کان میں تجویز کی سرگوشی کی۔ شاید یہ رام ہوجائے۔ اب جہاں بس دس پندرہ منٹ کے لیے رکے گی میں اس سے کہانی ڈالوں گا‘‘۔میں نے تجویز کی تائید کی۔ اور اقبال کا مصرع دل میں دہرایا۔
شاید کہ یہ شاطر اسی تدبیر سے ہو مات 
بس پندرہ منٹ کیلئے آرام گاہ پر رکنے لگی تو گِٹھّو نے پھر مائیک اٹھا لیا۔''اس وقت 9بج کر 45منٹ ہوئے ہیں۔دس بجے تک بس رکے گی۔ میں ٹھیک دس بجے بس چلا دوں گا۔مجھے پروا نہیں کہ کوئی مسافر رہ گیا ہے اور اس کا سامان بس میں ہے۔ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ کسی کو باتھ روم میں دیر ہوگئی ہے۔ جو رہ جائے وہ خود شکاگو پہنچ جائے۔اور میں یہ اعلان دہراؤں گا بھی نہیں۔سمجھ گئے یا نہیں‘‘۔ بس رکی تواچھی طرح سمجھے سمجھائے مسافرخوف کی حالت میں چھلانگیں مار کر اترے۔ باہر کافی سردی تھی لیکن کسی کو کانپنے کی فرصت بھی نہیں تھی۔دہشت گرد کی دسترس سے دور ایک کپ کافی اور سینڈوچ کی شدید طلب تھی۔اس لیے دوڑ کر بس سے دور چلے گئے۔لیکن فارس اپنے منصوبے پر عمل کا مکمل ارادہ رکھتا تھا۔میں نے دور سے دیکھا کہ وہ ٹہلتا ٹہلتا چہرے پر مسکراہٹ لیے ٹھگنے کے پاس گیا جو بس کے قریب کھڑا س وقت کافی پی رہا تھا۔دور سے یہی دیکھا جاسکتا تھاکہ ایک آدھ مکالمہ ہوا۔فارس فورا ہی واپس آگیا۔''کیا ہوا ؟‘‘ میں نے بے تابی سے پوچھا؟''کچھ نہیں۔ بہت ہی بد بخت ہے بھئی۔ کہنے لگا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ میں اس وقت بریک پر ہوں اور کافی پی رہا ہوں۔ابھی مجھ سے کوئی بھی بات نہ کرو‘‘۔ طے ہوگیا تھا کہ یہ مشن امپوسیبل ہے اور ہمارے بس سے باہر۔وہ ہمارے بس سے باہر تھا اور ہم خود اس وقت بس سے باہر تھے۔ اور یہ خوف طاری تھا کہ ایک سیکنڈ بھی دیر ہوگئی تو ہم یہیں دور سے جاتی ہوئی بس کا نظارہ کریں گے‘ لہٰذا وقت سے بھی تین چار منٹ پہلے پہنچ گئے۔
کافی‘ سینڈوچ‘ناامیدی‘باتوں پر پابندی‘ وائی فائی کی عدم دستیابی۔ نیند تو پھر آنی ہی تھی۔ اس بار جو ہم سوئے تو اس وقت آنکھ کھلی جب شکاگو کی سکائی لائن سامنے تھی۔کسی اغوا شدہ طیارے سے مسافروں کو رہائی کیس خوشی کیسی لگتی ہوگی‘اس وقت اس کا ٹھیک اندازہ ہوا۔ بس اپنے ٹرمینل پر رکی تو ہم ایک بار پھر چھلانگیں مار کر اترے۔ہماری پھرتی دیدنی تھی۔ اس بار ہم نے کسی کا انتظار کیے بغیر اور کسی سے پوچھے بغیر سامان لگیج کمپارٹمنٹ سے خود نکالنا شروع کردیا۔یہ اس لیے بھی جلدی ضروری تھاکہ دہشت گرد نے آخری اعلان یہ کیا تھا کہ اپنا سامان جلدی نکال لو ورنہ میں یہ بس لے جاؤں گا۔ مجھے آگے رپورٹ کرنی ہے۔چھ سوٹ کیس سڑک کنارے فٹ پاتھ پر ایک طرف ڈھیر کرکے ہم اس سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے۔ہمیں شکاگو کے میزبانوں کا انتظا رتھا جنہیں پہنچنے میں چند منٹ تھے۔ ٹھگنا ہمارے قریب سے گزرا۔وہ جب دو ڈھائی سو گز دور پہنچ گیا تو ہم نے چھ فٹے لحیم شحیم خوشبیر سنگھ شاد کا للکارا سنا۔ ''ابے جا ! بچہ سمجھ کے چھوڑ دیا تجھے۔ ورنہ ایسا ٹھیک کرتے تجھے کہ یاد کرتا‘‘۔ ہنسی کا ایک فوارا میرے اور فارس کے منہ سے چھوٹا۔پورے راستے ہماری بشمول خوشبیر سنگھ کی جو گم سم حالت تھی اس کے بعد یہ للکارا‘اتنا قہقہہ انگیز تھا کہ ہم ہنسے ہنستے سڑک پر ہی لیٹ گئے۔ سردار جی خود بھی ہنس رہے تھے کہ ویسے بھی ہم چھ گھنٹے بعد کھل کر بولنے اور ہنسنے کے قابل ہوسکے تھے۔چند منٹ بعد جب ہمارے میزبان ہمیں لینے پہنچے تو انہوں نے ہمیں اس حال میں پایا کہ ہم سڑک پراپنے سامان کے ساتھ ڈھیر ہوئے پڑے تھے۔پیٹ میں بل پڑ چکے تھے اور مزید ہنسنے سے درد ہوتا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں