اس سال یہ اکتوبر عجیب موسم لے کر آیا ہے۔ تمام گرمیاں اس طرح گزریں کہ سیاسی سرگرمیاں تقریباً سرد پڑی تھیں۔ کورونا بڑی وجہ تھا۔ لیکن اکتوبر آتے ہی گرماگرمی شروع ہوگئی۔ آخری بڑی ریلی اور دھرنا مولانا فضل الرحمن کا تھا‘ جس میں نون لیگ سمیت دیگر پارٹیاں بھی پرجوش طریقے سے شامل نہیں ہوئی تھیں۔ یہ جمعیت علمائے اسلام کا دھرنا تھا اور اس کے فوائد اور نقصانات سب اسی کے تھے۔ اس سے حکومت کو کوئی خاص دھچکا بھی نہیں پہنچا تھا۔ خیر! یہ اپنا اپنا نقطۂ نظر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد اور بڑی جماعتوں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی اس میں بھرپور شراکت کے بعد منظرنامہ بہت بدل گیا ہے۔
ویسے تو یہ منظرنامہ نیا نہیں ہے۔ پاکستان میں برسراقتدار جماعت کے خلاف ساری جماعتوں کا اکٹھا ہو جانا کوئی اچنبھا نہیں‘ نہ ان کی وزیر اعظم کو چلتا کرنے کی تحریک چلانا کوئی اچھوتی بات ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور اول یعنی ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے ہی سے ماضی کھنگالنا شروع کردیں تو یہی کچھ ملے گا۔ بھٹو کے خلاف بھرپور تحریک جس میں بالآخر پیپلز پارٹی کے پاؤں اکھڑ گئے اور مارشل لاء نافذ ہوگیا لیکن اپوزیشن کو اس کامیابی سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ پھر ان کی ساری جدوجہد مارشل لاء کے خلاف شروع ہوگئی اور دس سال تک یہی کچھ چلتا رہا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں آئی جے آئی کی تشکیل اور پھر مرکز اور پنجاب حکومت کی مسلسل محاذ آرائی بھی سب کو یاد ہے۔ زمانہ بدلا تو کردار بدل گئے۔ نواز شریف حکومت میں تھے اور پیپلز پارٹی ان کی بدترین مخالف۔ کون سا الزام تھا جو انہوں نے ایک دوسرے پر نہیں لگایا۔ منظر بدلتے رہے حتیٰ کہ پرویز مشرف کا دور آگیا۔ اس دور میں قاف لیگ ایک آمر کے تعاون سے برسراقتدار تھی۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں بڑی زخم خوردہ جماعتیں تھیں اور پھر انہوں نے میثاق جمہوریت کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال لیے۔ قاف لیگ اور پرویز مشرف کے خلاف یہ اتحاد یکجان تھا۔ ایک ابھرتی ہوئی نئی جماعت بھی ان کے ساتھ حکومت کے خلاف شامل ہوچکی تھی اور اس کا نام پاکستان تحریک انصاف تھا۔ کون سا الزام تھا جو ان دنوں سننے کو نہیں ملا۔ کون سی توپ تھی جو دونوں طرف سے داغی نہیں گئی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ایم ایم اے کے جھنڈے تلے مولانا فضل الرحمن (درپردہ) پرویز مشرف کے اتحادی تھے اور امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد ان کے طرز سیاست سے، فیصلوں پر عمل درآمد پر لیت و لعل سے، اور پرویز مشرف کی حکومت کو جا و بیجا سہارا دینے کے باعث شدید شاکی تھے۔ سب کو یاد ہوگاکہ قاضی صاحب کے شدید دباؤ کے باوجود کے پی کی صوبائی اسمبلی مولانا صاحب نے ٹوٹنے نہیں دی تھی اور اسی سہارے پر پرویز مشرف صدارتی انتخاب لڑسکے تھے۔ یہ دور ختم ہوا اور پیپلز پارٹی کو دوبارہ حکومت ملی تو ایک بار پھر یہی منظر دیکھنے کو ملا تھا۔ سڑکوں پر گھسیٹنے سے لے کر کرپشن تک کا کون سا الزام ہے جو ان دنوں نون لیگ کی زبانوں پر نہیں تھا‘ اور عمران خان بھی ان کے ساتھ یک زبان تھے۔
پردہ گر کر پھر اٹھا تو نواز شریف وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان تھے‘ اور پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی تھیں۔ اور یہ دور زیادہ دور کا نہیں۔ ملک کے دو تین بڑے مسئلے ہمیشہ سے ہیں۔ وہ مسئلے جن کی جڑیں عوام میں بہت گہری اتری ہوئی ہیں۔ مہنگائی، کرپشن، ادارے تباہ کرنا اور غیرملکی طاقتوں کے ایجنڈے پر کام کرنا۔ یہ تین چار سلگتے ہوئے مسائل ہمیشہ عوام میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ مہنگائی اور کرپشن چونکہ ہردور میں ہوتی ہے اور عوام اپنے آپ کو ان کے بوجھ تلے کچلا ہوا سمجھنے میں حق بجانب ہوتے ہیں‘ اس لیے ان نعروں کی پذیرائی کبھی کم نہیں ہوتی۔
آج پھر وہی منظر ہے۔ نعرے بھی کم و بیش وہی ہیں؛ اگرچہ کرپشن کی جگہ نااہلی کا الزام زیادہ لگایا جارہا ہے۔ تحریک انصاف‘ جو پہلی بار مرکز میں حکومت سنبھالے ہوئے ہے، کے لیے یہ پہلا بڑا چیلنج ہے۔ گوجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ کے بھرپور جلسوں، بیانات اور پریس کانفرنسوں نے وہ منظر بہت حد تک تخلیق کردیا ہے جو حکومت دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ یہ ادراک اور احساس حکومتی ایوانوں میں بھی ہے کہ ایک مضبوط متحدہ اپوزیشن یک نکاتی ایجنڈے یعنی موجودہ حکومت کی ہر قیمت پر رخصتی پر متفق ہوجائے تو وہ اقتدار کی صفوں میں بہت سے شگاف ڈال سکتی ہے۔ بہت سے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور اتحادی جماعتوں کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنی حیثیت کو تسلیم کروا کر من پسند شرائط منوا لیں۔ مثال کے طور پر آپ قاف لیگ والوں کے حالیہ بیانات دیکھ لیں۔ وہ کھل کر حکومت کا ساتھ نہیں دے رہے اور ساتھ کھڑے بھی ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ ریاست کے ساتھ ہیں۔ ہم نے بارہا وہ مناظر دیکھے ہیں کہ فصلی بٹیرے ہوا کا رخ بدلتے ہی پرواز کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ اب بھی اگر ان موقع شناسوں کو یہ علم ہواکہ حکومت جانے والی ہے تو وہ اپنا رنگ بدلنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ متحدہ اپوزیشن کے تینوں جلسے کامیاب تھے‘ اور انہوں نے حکومت پر دباؤ میں اضافہ کردیا ہے۔ خود حکومت کا حال یہ ہے کہ بوکھلاہٹ میں بہت سے فیصلے الٹے اسی کے گلے پڑرہے ہیں۔
نہ کریں ایسے۔ کون وزیر اعظم صاحب سے کہے کہ نہ کریں ایسے۔ مسائل حل نہیں ہورہے، نئے پیدا ہورہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اپوزیشن کے مقابلے میں جارحانہ انداز اختیار کرنا چاہیے۔ وہ خود بھی اس پر عمل پیرا ہوچکے ہیں اور اس میں ایسی باتیں بھی کہہ رہے ہیں جو اس منصب پر رہتے ہوئے زیب نہیں دیتیں۔ وزیروں کو بھی ان کی یہی ہدایت ہے کہ جارحانہ انداز اختیار کریں۔ وزیر بھی بوکھلائے ہوئے لگتے ہیں‘ انہیں سمجھ نہیں آرہا کہ یہ انداز کس طرح اختیار کریں۔ پرانے الزام زیادہ زور سے دہرائے جائیں یا مزید جیلوں اور مقدمات کا ہتھیار استعمال کیا جائے۔ سچ یہ ہے کہ پرانے الزام سن سن کر لوگ اکتا چکے ہیں۔ کراچی کا واقعہ اس بوکھلاہٹ اور غلط طریق کار کا ایک تازہ ثبوت ہے۔ کیپٹن (ر) صفدر کا مزارِ قائد پر سیاسی نعرے بازی یقینا غلط بات تھی‘ لیکن جس طریقے سے پولیس پر مبینہ دباؤ ڈال کر انہیں گرفتار کیا گیا‘ اس سے اربابِ اقتدار کو دہرے زخم لگے۔ ایک طرف تو سندھ پولیس کو اپنی عزتِ نفس مجروح ہونے اور استعمال کیے جانے کاشدید احساس ہوا‘ دوسری طرف کیپٹن (ر) صفدر کی چند ہی گھنٹوں کے بعد رہائی ہوگئی تو اس سے پی ٹی آئی کو رسوائی اور سبکی کے سوا کیا حاصل ہوا؟ سونے پر سہاگہ یہ ہواکہ جس معاملے کا آرمی چیف نے نوٹس لیا اور معاملے کی تفتیش کا حکم دیا، اس پر وزیر اعظم صاحب مکمل خاموش ہیں۔ ایسے جیسے یہ واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔ ادھر نون لیگ کے بڑے رہنماؤں میں سے کس پر اب تک کوئی جرم ثابت ہوا؟ کم از کم میرے علم میں نہیں۔ روز کی بات ہے کہ اخبارات میں ایک طرف یہ خبریں چھپتی ہیں کہ فلاں سیاسی رہنما کو فلاں مقدمے میں طلب کرلیا گیا ہے‘ اور دوسری طرف یہ اطلاع ہوتی ہے کہ فلاں رہنما پر فلاں مقدمہ واپس لیا جا رہا ہے؛ چنانچہ اس دور میں احتساب کے ادارے کی غیر جانبداری کا تاثر خراب ہوا ہے لیکن دونوں معاملات چلے جارہے ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ لوگوں کا تاثر یہ بنتا جارہا ہے کہ معاملہ احتساب یا انصاف کا نہیں، انتقام کا ہے۔ حکومت کے لیے یہ تاثر نہایت خطرناک ہے۔