کیسا نابغہ اور کیسا تر دماغ آدمی تھا جو ہم میں پیدا ہوا اور ہم کیسی خوش بخت قوم ہیں جس میں وہ پیدا ہوا اور جس سے اس نے خطاب کیا۔ کیسی مقبولیت کی گھڑی تھی جب اس نے یہ دعا مانگی تھی:
اے بادِ بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو/ خاموشی و دل سوزی سرمستی و رعنائی
میں نے پہلے بچپن میں اقبال کے شعر دہرائے۔ سکول کی اسمبلی میں سالہا سال 'لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ سب کے ساتھ ہم آواز ہوکر پڑھی۔ 'جگنو اور بلبل‘ کے ٹیبلو پیش کیے۔ وہ بچہ اب بھی یاد ہے جو 'ماں کا خواب‘ نامی نظم ٹیبلو کی صورت میں پیش کررہا تھا اور ماں سے خواب میں مخاطب ہوکر کہتا ہے:
سمجھتی ہے تو ہو گیا کیا اسے / ترے آنسوؤں نے بجھایا اسے
بچپن اقبال کو پڑھتے گزرا۔ نصاب میں ہو یا رسالوں میں یا گھر میں۔ ذرا بڑے ہوئے تو والد مکرم، صاحبِ دل صاحبِ کمال شاعر جناب زکی کیفی کو اقبال کے شعروں پر وجد کرتے پایا۔ ان کی زبان سے سنے ہوئے شکوہ اور جواب شکوہ کے اشعار اسی وقت ازبر ہوگئے تھے۔
پیر گردوں نے کہا سن کے کہیں ہے کوئی
بولے سیارے سرِ عرش بریں ہے کوئی
چاند کہتا تھا نہیں اہل زمیں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی
کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا
تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا
تا سر عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا
آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا
غافل آداب سے سکان زمیں کیسے ہیں
شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں
اپنے بڑوں کی والہانہ پسندیدگی دیکھتے ہوئے انہی کی رہنمائی میں ہمارے خاندان کے خوش گلو بچوں نے اقبال کا اردو اور فارسی کلام خوب صورت ترنم میں پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ راوی کی نرم رو لہروں کے کنارے وہ سبک خرام شام کیسے بھول سکتا ہوں جب والد مرحوم اور عم مکرم مولانا تقی عثمانی (اللہ انہیں لمبی عمر عطا کرے) کے گرد ہم بچے حلقہ بنائے بیٹھے تھے۔ ہم میں سے ایک بچہ ان کی پسندیدہ اقبال کی فارسی غزل ترنم سے سنا رہا تھا اور کچھ نہ سمجھنے کے باوجود ایسا لگتا تھا کہ شعر دل چیر کر اس کی تہوں میں اتر رہے ہیں۔
صورت نہ پرستم من بت خانہ شکستم من
آں سیل سبک سیرم ہر بند گسستم من
(میں صورت کی پوجا نہیں کرتا، میں نے بت خانہ توڑ دیا ہے۔ میں وہ تندوتیز سیلاب ہوں جس کے سامنے ہر بند ٹوٹ چکا ہے)
در بود و بنود من اندیشہ گماں ہا داشت
از عشق ہویدا شد ایں نکتہ کہ ہستم من
(میرے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بہت سے وہم و گمان تھے۔ ہاں پھر عشق سے یہ نکتہ ہویدا ہوا کہ میرا وجود ہے)
فرزانہ بگفتارم دیوانہ بکردارم / ازبادۂ شوق تو ہشیارم و مستم من
( گفتار کو دیکھو تو میں خردمند ہوں، کردار کو دیکھو تو دیوانہ ہوں۔ یہ تیری بادۂ شوق ہے جس کی بدولت میں ہشیار بھی ہوں اور مست بھی۔ مجھے دونوں کیفیات حاصل ہیں)
عجیب منفرد شعری ذوق ہے اقبال کا۔ خود اسی کے الفاظ میں:
عجم کا حسن طبیعت عرب کا سوز دروں
اور یہ حسن طبیعت، یہ سوز دروں اقبال کے علاوہ کس کو سج سکتا ہے۔
کتنی ہی ایسی محفلیں ہیں جن میں میری خوش آواز چچا زاد بہن نے اقبال کی وجد آفریں فارسی نظم ''نغمۂ ساربان‘‘سنائی۔ مترنم بحر میں یہ نظم بھی اقبال کی بے مثال نظموں میں سے ہے۔ اپنے بڑوں ہی سے سنی ہوئی بات یاد آئی کہ حدی عربی الاصل نغمہ ہے لیکن اگر فارسی میں ہوتی تو اسی طرح ہوتی جیسے اقبال نے کہی۔
ناقہ سیار من/ آہوئے تاتار من
درہم و دینار من/ اندک و بسیار من
دولت بیدار من/ منزل ما دور نیست
تیز ترک گام زن/ منزل ما دور نیست
(اے میرے ناقۂ رواں۔ اے میرے آہوئے تاتار۔ اے میرے درہم و دینار۔ اے میری غربت اور میری امیری۔ اے میری دولت بیدار۔ ہماری منزل دور نہیں ہے۔ ذرا تیز چل۔ ہماری منزل دور نہیں ہے)
اور اس کا یہ بند تو بھولتا ہی نہیں ہے:
نغمۂ من دل کشائے/ زیر و بمش جاں فزائے
قافلہ ہا را درائے/ فتنہ ربا فتنہ زائے
اے بہ حرم چہرہ سائے/ منزل ما دور نیست
تیز ترک گام زن/ منزل ما دور نیست
(میری حدی بہت دل کشا ہے۔ اس کا زیروبم ہر ایک کے لیے جاں فزا ہے۔ یہ قافلوں کے لیے کوچ کا اعلان ہے۔ نئے ہنگامے بپا کرنے کی بانگ ہے۔ اے وہ کہ جس کا رخ حرم کی طرف ہے۔ ہماری منزل دور نہیں ہے۔ ذرا تیز چل۔ ہماری منزل دور نہیں ہے)
پھر جب نصابی مطالعے کا دروازہ بند ہوا تو کئی در اور کھل گئے۔ اقبال کو ایک بار پھر اس وقت پڑھنا شروع کیا جب لکھنا شروع کردیا تھا۔ خود شعر کہے تو اقبال کی مزید فنی عظمتوں کا اندازہ ہوا۔ کتنے ہی شاعروں کے شعر اور نظمیں تنہائی کے موضوع پر پڑھ لینے کے بعد پیام مشرق میں اقبال کی فارسی نظم تنہائی پڑھی تو یہ نظمیں اقبال کی تنہائی کے مقابلے میں بچگانہ لگنے لگیں۔ پتہ چلا کیا تنہائی ہے اقبال کی جو نہ صرف پوری کائنات کو محیط ہے بلکہ انسان کی داخلی کائنات کو بھی لپیٹے ہوئے ہے۔
رہ دراز بریدم ز ماہ پرسیدم
سفر نصیب نصیبِ تو منزلے ست کہ نیست
جہاں ز پرتوِ سیمائے تق سمن زارے
فروغ داغ تو یک جلوہ دلے ست کہ نیست
سوئے ستارہ رقیبانہ دید و ہیچ نگفت
(پھر میں نے لمبی مسافت طے کی اور چاند سے پوچھا کہ اے سفر نصیب! تیرے نصیب میں کوئی منزل بھی ہے یا نہیں؟ تمام جہان تیری چاندنی سے منور ہے مگر کیا تیرے داغ میں کوئی دل کا جلوہ بھی ہے یا نہیں؟ چاند نے ستارے کی طرف رقیبانہ دیکھا لیکن کہا کچھ نہیں)
مسجد قرطبہ تو خیر اردو میں پابند نظم کی معراج ہے۔ اتنی بڑی، ایسی عظیم نظم اور کوئی نہیں۔ اور بھلا کیسے اس کی عظمت کا انکار کیا جاسکتا ہے۔
وادیٔ کہسار میں غرق شفق ہے سحاب
لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
میں اقبال کی زندگی کے آخری ایام یاد کرتا ہوں جب ان کی آواز بیٹھ گئی تھی اور یہ شعر پڑھتا ہوں تو ایک تیر جیسے دل چیر دیتا ہے:
سخن اندر گلوئے من گرہ بست/ تو احوالِ مرا ناگفتہ دانی
(سخن نے میرے گلو میں گرہ باندھ لی ہے لیکن تو مرا احوال بن بتائے بھی جانتا ہے)سچ یہ ہے کہ اقبال نہ ہوتا تو اردو تہی دامن ہوتی اور اردو دان مفلس اور قلاش۔ اردو نے بڑے شاعر پیدا کیے لیکن سچ یہ ہے کہ عظیم شاعر ایک ہی ہے‘ اقبال۔ جس کی شعری عظمت کے سامنے باقی بڑے شاعر بھی بونے لگتے ہیں۔