کچھ کہنے کو دل چاہتا ہے‘ نہ بولنے کو‘ نہ لکھنے کو۔ جانے کیا ہے کہ ایک گہری، چپ کرا دینے والی اداسی نے ڈھانپ رکھا ہے۔ زندگی کے معمولات ساتھ ساتھ ہیں لیکن ایسا ہے کہ جیسے دل کسی نے بھینچ رکھا ہو۔ آپ پر بھی یہ موسم اور یہ کیفیت وارد ہوتی رہی ہو گی جب ہر چیز بے معنی اور لغو لگنے لگتی ہے۔ معلوم نہیں یہ حالات کا اثر ہے، موسم کی عطا ہے یا خبروں کی دین یا تینوں کا مجموعی رد عمل۔ اس کیفیت میں ہوتا یہ ہے کہ بری خبریں بری طرح اثر انداز ہوتی ہیں اور اچھی خبریں بے اثر ہو کر رہ جاتی ہیں۔
یکم جنوری 2020ء کا سورج طلوع تو اسی طرح ہوا تھا جس طرح نئے سال کے سورج طلوع ہوا کرتے ہیں۔ نئی امیدوں، نئی خواہشوں اور نئی تمناؤں کے ساتھ‘ لیکن کس کے سان گمان میں تھا کہ ایک عالمگیر وبا کا سایہ ساری دنیا کو لپیٹ میں لینے والا ہے اور بہت سے پیارے، بہت سے نامور لوگ بے گمان ہم سے بچھڑنے والے ہیں۔ دنیا میں پہلے ہی مہلک بیماریاں، جنگیں، قتل اور خونریزی کیا کم تھی کہ اس میں ایک ہلاکت خیز وائرس کا بھی اضافہ ہو گیا۔ ویسے تو کووڈ19 نہ ہوتا تب بھی دنیا اسی طرح چلتی آئی ہے کہ بے سان و گمان لوگ بچھڑتے ہیں لیکن کووڈ نے اس کی رفتار کئی گنا تیز کر دی۔ اس سال بہت سے وہ لوگ رخصت ہوگئے جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ تازہ ترین سانحہ علامہ خادم رضوی کا ہے۔ چند دن پہلے ان کا دوسرا فیض آباد دھرنا ختم ہوا تھا۔ قریب اور دور کے کسی شخص کو کیا گمان ہو سکتا تھاکہ ان کی زندگی کے چند ہی گھنٹے باقی ہیں۔ ان کے طریقے، انداز، زبان وغیرہ سے اختلاف بہت کیا گیا اور مجھے بھی ہے‘ لیکن یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ وہ خاص طور پر ناموسِ رسالت کے معاملے میں برہنہ تلوار تھے‘ اور ان کے لفظ پھیلتے اور دل میں گھر کرتے تھے۔ ان کے انتقال کا دکھ ہر طبقے میں محسوس کیا گیا۔ خطاؤں سے کوئی خالی نہیں ہوتا۔ جس کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے وہی دلوں کا حال جانتا ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، ان کی خطاؤں سے درگزر فرمائے اور اچھے اعمال قبول فرمائے۔ جانے والے کے لیے یہی دعا ہمارے بس میں ہے اور کسی پر بھی زبان طعن دراز کرنے سے پہلے یاد رکھیں کہ ہم بھی ایک دن اسی دعا کے محتاج ہوں گے۔
لیکن ایک اداسی ہے جو ہر ایسی خبر پر گہرے سرمئی غلاف کی طرح ڈھانپ لیتی ہے۔ وقت محدود ہوتا ہے اور جانے والے تیزی سے جا رہے ہیں۔ کسی بچھڑنے والے کا حق تو کیا ادا ہوتا، اتنی مہلت بھی نہیں ملتی کہ اس کے لیے چند حروف ہی ادا کیے جا سکیں۔ ہم اس زمانے کے بیچ سے گزر رہے ہیں جس کی خبر دی گئی تھی کہ ایک سال ایک مہینے کے برابر، ایک مہینہ ایک ہفتے کے برابر، ایک ہفتہ ایک دن کے برابر اور ایک دن ایک ساعت کے برابر ہوگا۔ جتنے لوگوں سے بات ہوتی ہے ان سب کا یہی احساس ہے کہ وقت ایسی زقند بھر کر گزرتا ہے کہ سات دن گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ ہمارے بالوں کا رنگ خاموشی سے سیاہ سے سرمئی، گرے اور سفید ہوتا جاتا ہے۔ خدوخال میں تبدیلی آتی جاتی ہے۔ چہرے اور جسم پر جھریاں پڑتی جاتی ہیں اور ہم سمجھتے رہتے ہیں کہ سب کچھ ویسا ہی ہے‘ لیکن سب کچھ ویسا نہیں ہوتا۔ ایک دن آئینہ ہمیں ہماری شکل دکھاتا ہے تو ہم ایک اجنبی کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ یہی اجنبی کچھ مدت بعد مانوس شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے عادی ہو جاتے ہیں لیکن پھر کچھ عرصے کے بعد ایک اور اجنبی دکھائی دیتا ہے اور پھر ایک اور اجنبی۔ زندگی کے آخری دن تک یہ صورتیں ساتھ چلتی ہیں اور پھر سب شکلیں گم ہو جانے کا وقت آجاتا ہے۔
کوووڈ 19 دوبارہ اپنی موجودگی منوا رہا ہے۔ کل 36 قیمتی جانیں اس کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ سمارٹ لاک ڈاؤن، شادی ہالوں پر جزوی پابندی، تعلیمی اداروں میں احتیاطی تدابیر کے باوجود روز انہیں بند کرنے کی خبریں مسلسل آرہی ہیں۔ شاید طبیعت کے اس بوجھل پن میں ان خبروں کا بھی اثر ہے۔ کیا ہوگا اگر شہر پھر مقفل ہوگئے؟ بازار پھر اجڑ گئے۔ سکول کالج پھر بے رونق ہوگئے۔ روزگار پھر بند ہوگئے۔ مزدور پیشہ لوگ پھر بیکار ہوگئے۔ اس وقت پھر یہ عالم ہے کہ لوگ گھروں سے نکلتے ڈر رہے ہیں۔ کسی سے ملتے ہوئے خوف ہوتا ہے کہ جانے اس کے سانس، اس کے لمس سے کون سا مہلک تیر جسم میں ترازو ہوجائے۔ وہی مہینے آگے نظر آنے لگے ہیں جنہیں پیچھے چھوڑ کر آئے تھے۔ ابھی تو لوگ اسی کی خوشیاں منا رہے تھے کہ رونقیں بحال ہوگئیں۔ کام کاج شروع ہوگئے۔ ملوں اور فیکٹریوں نے کام شروع کردیا۔ ابھی تو یہ خبریں آنا شروع ہوئی تھیں کہ ٹیکسٹائل ملوں نے پوری گنجائش پر کام کرنا شروع کردیا۔ وہ پاور لومز جو برسوں سے بند پڑی تھیں، ان میں جان پڑگئی۔ اس شعبے کے وہ کاریگر جو کام ڈھونڈتے پھرتے تھے، اب انہیں ڈھونڈا جارہا ہے۔ ٹیکسٹائل کے شعبے کو اتنے بیرونی آرڈرز ملے ہیں کہ ان کے لیے پورا کرنا مشکل ہورہا ہے۔ اب پھر لاک ڈاؤن ہوا تو ملک کیسے سہہ پائے گا؟ حکومت بھی کیا کرے؟ اس کے بس میں بھی زیادہ کچھ نہیں۔ اور یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ کیا ویکسین دستیاب ہونے تک؟ اور ویکسین کے معاملات بھی ابھی واضح نہیں ہورہے۔ حکومت پاکستان نے 100 ملین ڈالر ویکسین کی دستیابی کے لیے پیشگی رقم کے طور پر مختص کیے ہیں۔ یہ خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ حکومت نے چینی ویکسین کیلئے معاہدہ کرلیا ہے کہ وہ پاکستان میں بھی فراہم کی جائے گی۔ امریکی دواساز کمپنیوں کی ویکسین کی کامیابی کی خبریں بھی اخبارات میں زوروشور سے چھپتی رہی ہیں اور یورپی ممالک کی ویکسین کی بھی۔ ایک ویکسین کی کامیابی کا تناسب 90 فیصد اور ایک کا 95 فیصد بتایا گیا ہے لیکن اس ویکسین کے ذکر سے یاد آیا کہ پچھلے دنوں امریکہ کے شکست خوردہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الزام لگایا کہ فائزر کمپنی نے ان کے خلاف سازش کی ہے‘ اس طرح کہ اس نے ویکسین کی کامیابی کی خبر ان کے انتخاب کے بعد بتائی‘ ورنہ یہ خبر ان کی کامیابی کا ایک بڑا ذریعہ بن سکتی تھی۔ یاد رہے کہ امریکہ میں ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ لوگ اس وائرس نے موت کے گھاٹ اتارے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ کی شکست میں کرونا کی ان ہلاکتوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے لیکن اصل بات جو دلگیر کردینے والی ہے، یہ ہے کہ اس عالمگیر تباہی اور بربادی کے منظر میں، امریکہ جیسے شدید متاثرہ ملک میں بھی اس معاملے کو اپنی فتح اور شکست اور اقتدار کے پیمانے سے ناپا جاتا ہے۔ اسی لیے پوری دنیا ان ویکسینز سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔
زمینی حقائق بہرحال یہ ہیں کہ فی الوقت کوئی بھی ویکسین کسی بھی ملک میں ایسی نہیں جو بازار سے خرید کر لگائی جا سکے‘ بلکہ اس سے بھی آگے یہ کہ مختلف ممالک کی ڈرگ اتھارٹیز نے ویکسین کی منظوری بھی نہیں دی مثلا فائزر کمپنی کی ویکسین ابھی تک ایف ڈی اے سے منظور نہیں ہوئی۔ منظوری کے بعد تیاری اور ترسیل کے مراحل تو بعد کے ہیں۔ وہ جو فارسی کا مشہور محاورہ ہے تا تریاق از عراق آوردہ شود، مارگزیدہ مردہ شود۔ (جب تک عراق سے تریاق منگوایا جائے گا سانپ کا ڈسا جان دے چکا ہو گا) یہ اس ویکسین پر راست آتا ہے۔
خیر یہ دن بھی گزر جائیں گے۔ یہ کیفیت بھی ختم ہوجائے گی۔ ہاں یہ ہے کہ طبیعت کی شگفتگی ختم کرکے ختم ہوگی۔ ناصر کاظمی کا شعر ایسی کیفیت میں کام آتا ہے۔ آپ بھی سن لیں۔ شاید آپ کے کام بھی آجائے:
وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی