مولانا مودودی سے یہ قصہ منسوب ہے کہ ان سے کسی نے ایوب خان کے دور حکومت کے بارے میں پوچھا کہ مولانا! یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ مولانا نے جواب دیا: بات یہ ہے کہ یہ اونٹ ہے ہی نہیں‘ یہ ہے گدھا‘ اور گدھا بیٹھتا نہیں بلکہ لوٹتا ہے۔ یہ جملہ مجھے امریکہ کے حوالے سے یاد آیا، جہاں آج کل ہاتھی اور گدھے کی لڑائی چل رہی ہے اور دنیا دم بخود ہے کہ آخر ہوتا کیا ہے۔ شکست خوردہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نظام کے خلاف اور انتخابی نتائج کے خلاف کھلم کھلا بغاوت پر اتر آئے ہیں۔ انتخابی عمل پر سنگین الزامات لگا کر سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کیا اور اپنے حامیوں کو سڑکوں پر بھی لے آئے۔ آج تک امریکہ کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ ہارنے والے مگر وائٹ ہاؤس میں بیٹھے صدر نے رخصت ہونے سے انکار کردیا ہو۔ دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں کیا ہورہا ہے۔
لیکن پہلے ہاتھی اور گدھے کا قصہ سن لیں۔ امریکہ میں دو ہی سیاسی جماعتیں ہیں۔ ری پبلکن پارٹی جو برسراقتدار ہے اور جس کے نمائندے ڈونلڈ ٹرمپ ہیں اور جس کا نشان ہاتھی ہے۔ دوسری ڈیموکریٹک پارٹی جو حالیہ انتخاب جیتی ہے۔ جو بائیڈن اس کے نمائندے ہیں اور اس کا نشان گدھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے وسیع عالم الاشیا میں سب چیزوں کو چھوڑ کر جانور ہی کیوں؟ اور پھر سارے جانور چھوڑ کر ہاتھی اور گدھا ہی کیوں؟ یہ نشان کیسے ان جماعتوں نے منتخب کیے، یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے۔
گدھے کا معاملہ 1828 سے شروع ہوتا ہے۔ ڈیموکریٹس کی طرف سے اینڈریو جیکسن صدارتی انتخاب لڑ رہے تھے۔ اس مہم کے دوران ان کے نام کی مناسبت سے اس کے مخالفوں نے اسے جیک ایس (Jackass) یعنی گدھے کا لقب دیا۔ جیکسن 1812 کی جنگ کا ہیرو تھا، اور بعد میں ایوان نمائندگان اور سینیٹ کا رکن بھی رہ چکا تھا، اس نے اس لقب کو رد کرنے کے بجائے قبول کر لیا اور انتخابی مہم کے پوسٹرز میں یہ نشان بھی شامل کردیا۔ بالآخر وہ پہلے امریکن ڈیموکریٹک صدر کی حیثیت میں منتخب ہوئے۔ 1870 کے انتخاب میں ایک کارٹونسٹ تھامس نسٹ نے گدھے کا نشان پوری ڈیموکریٹ پارٹی کے لیے بنا کر اسے مقبول بھی بنا دیا۔
ہاتھی کا نشان ابتدائی طور پر امریکہ کی خانہ جنگی کے دنوں میں سپاہیوں کی طرف سے اختیار کیا گیا تھا‘ جسے جنگی طاقت اور فتح کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ ری پبلکن پارٹی نے بعد کے دنوں میں یہی مقبول نشان اختیار کرلیا اور سیاسی کارٹون بنانے والوں نے اسے پوسٹروں میں بھی اس طرح شامل کردیا کہ یہ اور ری پبلکن پارٹی لازم و ملزوم ہوکر رہ گئے۔
سو اب ہاتھی اور گدھے کی لڑائی ہے۔ ہاتھی سفید محل میں فی الحال موجود ہے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ سڑکوں پر بھی کررہا ہے۔ آج ہی کی خبر ہے کہ واشنگٹن میں ٹرمپ کے حامیوں اور مخالفوں میں سڑکوں پر جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ری پبلکن پارٹی ٹرمپ کی پشت پر کھڑی ہے جبکہ ڈیموکریٹس کے مقبول اور معروف رہنماؤں نے شکست نہ ماننے کو ٹرمپ کی ذاتی انا کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔ 18 نومبر کی بات ہے‘ ٹرمپ نے سائبر سکیورٹی اور انفراسٹرکچر سکیورٹی ایجنسی کے سربراہ کرسٹوفر کربس کو ملازمت سے نکال دیا۔ وجہ یہ کہ کرسٹوفر کربس نے حالیہ انتخابات کے حوالے سے ٹرمپ کے مؤقف کے بالکل برعکس بیان میں انتخاب کے نظام کو شفاف اور درست‘ اور ووٹنگ مشینوں میں خرابی کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔ اس پرٹرمپ نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹویٹس کیں اور کربس کو اپنی ملازمت سے فارغ ہو جانے کی اطلاع ملی۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں کہ ٹرمپ نے بڑے عہدیداروں کو برطرف کیا ہے۔ ایک طویل فہرست موجود ہے۔ ابھی 9 نومبر کو سیکرٹری دفاع مارک ایسپر کو بھی نکالا گیا‘ اور اطلاعات ہیں کہ پینٹاگون چیف کی وفاداری بھی مشکوک سمجھی جارہی ہے۔ وہ تمام لوگ جو ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر میں وفادار نہیں، ان میں بہت سے ملازمت سے فارغ ہوچکے ہیں اور اس فہرست میں ناموں کا اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ معاملہ کس طرف جارہا ہے۔ ہاتھا پائی، ٹکراؤ اور سخت بیانات کی جنگ تو پہلے ہی شروع ہے‘ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ جن کی صدارت کی مدت 20 جنوری 2021 کو ختم ہورہی ہے، کیا آسانی سے وائٹ ہاؤس سے نکل جائیں گے؟ کیا تصادم کی یہ لہر واشنگٹن سے نکل کر باقی ریاستوں اور دیگر شہروں میں پھیلے گی؟ اگر یہ معاملہ مزید گرم ہوا تو اسے ٹھنڈا کون اور کیسے کرے گا کیونکہ تمام ملک دو پارٹیوں کی حمایت یا مخالفت میں منقسم ہے۔ کوئی ری پبلکن کسی ڈیموکریٹ کی بات کیوں سنے گا‘ خاص طور پر اس وقت جبکہ پارٹی کی پوری سپورٹ بھی اسے حاصل ہو۔ دوسری طرف کورونا کی جو شدید ترین لہر امریکہ میں پھیلی ہوئی ہے‘ یہ جلسے‘ جلوس اور ریلیاں اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ ہلاکتیں جو اس وقت سینکڑوں میں ہیں، ہزاروں تک پہنچ جائیں گی‘ لیکن اس سے بھی زیادہ امریکہ میں نسلی فسادات کا خطرہ ہے۔ سفید فام نسل کے علاوہ کالی، گندمی اور زرد نسلوں کے بارے میں ٹرمپ کے خیالات واضح ہیں۔ وہ گوری چمڑی کو برتر سمجھتے ہیں۔ وہ اس فکر میں اکیلے نہیں، ایک بہت بڑا طبقہ ان کے ساتھ ہے۔ ٹرمپ کو2020 کے انتخاب میں بھی بہت بڑی تعداد میں ووٹ پڑے ہیں اور وہ کم پڑھا لکھا، نسل پرست اور کم شعور والا طبقہ جو ہے بھی اکثریت میں ان کی پوری حمایت کرتا ہے۔ یہ طبقہ جسے عرف عام میں ریڈ نیکس بھی کہا جاتا ہے، اگر مارنے مرنے پر اتر آیا تو امن و امان کا بڑا مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔ امریکہ کی قریبی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ جب کبھی امن و امان یا نظم و نسق کی صورت حال خراب ہوتی ہے، جرائم پیشہ گروہ جو اس کی تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں، جتھوں کی شکل میں نکل کر لوٹ مار اور توڑ پھوڑ شروع کردیتے ہیں۔ کیا امریکہ اب اسی طرف جارہا ہے؟
طاقت کا نشہ، دولت کا نشہ، کامیابیوں کا نشہ، مزاج کے گھمنڈ اور تکبر کے ساتھ شامل ہو جائے تو کوئی معقول بات نہ سنائی دیتی ہے، نہ سجھائی دیتی ہے۔ 2017 کے بعد اس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے معاملے میں اقتدار کا نشہ بھی شامل ہو چکا ہے۔ سو یہ سارے نشے مل کر انہیں اس موڑ پر لے آئے ہیں کہ ان سے اختلاف کرنے والا ہر شخص غلط ہے اور ان کا ذاتی مخالف ہے۔ وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ وہ کبھی ہار بھی سکتے ہیں، ناکام بھی ہوسکتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ زندگی میں کسی مرحلے پر انہوں نے کبھی کسی معاملے میں شکست تسلیم کی یا نہیں۔ کیا کبھی یہ اعتراف کیا کہ وہ فلاں معاملے میں درست نہیں تھے۔ غالبا کبھی نہیں۔ وہ اس تجربے سے عاری ہیں اور زندگی کے اس مرحلے پر، عمر کے اس حصے میں یہ نیا تجربہ کرنا اور نیا مزاج بنانا ان کے بس میں ہرگز نہیں ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بہت سے معاملات میں مختلف ہونے کے باوجود بہت سے معاملات میں مشترک ہیں۔ ان دونوں کا بطور سربراہ انتخاب ان ملکوں کے باشعور طبقات کیلئے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ اور اسی کے ساتھ بے لگام جہوریت کے حامیوں کیلئے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بھی۔ یہ راستے اختیار کرکے اگر یہ لوگ سب سے بڑے عہدے تک پہنچ گئے ہیں تو آئندہ بھی ہر ایک کے لیے یہ راستہ کھلا ہے۔ ان ملکوں میں اس فکر اور ان لوگوں کا کیا ہوگا جو نسل پرستی اورتشدد پر یقین نہیں رکھتے؟
لیکن ابھی تو سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر ہوگا کیا؟ ہاتھی سفید محل خالی کیسے کرے گا؟ اور یہ کام کون کروائے گا؟ کیا عدالت عظمیٰ؟ کیا سپریم کورٹ آف امریکہ تمام متعلقہ گواہیوں کے باوجود انتخابی دھاندلی کے الزامات کو وقعت دے گی؟ سوال یہ ہے کہ امریکی عوام ہاتھی پر سوار ہوں گے یا گدھے پر؟