2018ء میں منظرنامہ بدلا اور پوسٹل سروسز کے وزیرکے طور پر مراد سعید صاحب براجمان ہوئے۔ اس وقت جو صورتحال تھی اس کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ 2017-18ء میں محکمے کو 10.5ارب روپے کا ہولناک خسارہ درپیش تھا۔ مراد صاحب کو اس خسارے سے نکلنے کا یہی حل سوجھا کہ ہر چیز کی قیمت دگنی تگنی کردی جائے۔ ڈاک خرچ ایک دم آسمان کو چھونے لگا۔ جو رجسٹرڈ خط 28 روپے میں ملک کے طول و عرض میں بھیجا جاتا اور دوسرے تیسرے دن مل جاتا تھا‘ اس پر 50 روپے خرچ آنے لگا۔ وی پی پی جسے اب COD (Cash on Delivery) کہا جانے لگا‘ تین گنا خرچ پر جانے لگی۔کتابوں کا معاملہ پہلے ہی دگرگوں تھا‘ اب یہ اضافہ کتاب کی پیٹھ پر وہ آخری تنکا ثابت ہوا جس نے یہ کمرتوڑ کررکھ دی ۔ٹکٹ کے علاوہ ڈاک خانے نے مزید خرچ بھی شامل کردیے‘ جو بہرحال خریدار کو ہی ادا کرنے پڑتے ہیں۔
چلئے یہ سب کچھ بھی ہوا ہوتا لیکن نظام میں بہتری آئی ہوتی اور ڈاک جلد ملنے لگتی تو لوگوں کو صبر آجاتا ‘لیکن ڈاک کی ترسیل کا نظام مزید ابتر ہوگیا ۔ایک مثال سے اندازہ کیجئے کہ جی پی او لاہور سے کراچی کے لیے ایک پیکٹ 19 نومبرکو رجسٹرڈ کروایا گیا ‘اس پر 250روپے ڈاک خرچ لگا‘مزید50روپے پیکٹ پر کپڑا چڑھانے کے وصول کیے گئے۔ 2018ء سے پہلے یہ خرچ 150 روپے کے قریب ہوا کرتا تھا۔ کارکردگی ملاحظہ ہو کہ دگنی رقم لے کر بھی یہ پیکٹ 23نومبر کو کراچی میں وصول ہوا۔ اس وقت یہ پانچ دن لے چکا تھا جو عام طور پر دوسرے ‘تیسرے دن مل جایا کرتا تھا۔ یہ تو محض ایک مثال ہے میں روز اس طرح کی مثالوں سے گزرتا ہوں۔ پچھلے سال فیجی آئی لینڈ کیلئے ایک پیکٹ بک کرایا اورطویل مدت تک پچھتاتا رہا کیونکہ وہ لگ بھگ 40دن کے بعد متعلقہ پتے پر وصول ہوا۔ اور آپ جس سے پوچھئے یہی کہانیاں سننے کو ملیں گی یعنی قیمتیں بھی دگنی اور ترسیل کا وقت بھی دگنا ۔ گویا ادارہ تمام خسارہ عوام کی جھولی میں ڈال کر خود اس سے باہر نکلنے کا تہیہ کرچکا ہے اور کارکردگی یہیں تک محدود ہے ۔
پوسٹل سروسز کا محکمہ بنیادی طور پر منافع کمانے کاادارہ نہیں ہے ‘عوام کی خدمت اور رابطے کا ادارہ ہے ۔اسے نفع نقصان سے جوڑنا غلط حکمت عملی ہے۔یہ تو ضرور ہے کہ ایسے اقدامات ہوں جو اسے خسارے سے نکال سکیں ‘لیکن یہ لوگوں کے لیے مشکلات کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے ۔ اس ادارے کو بہت سے وہ وسائل میسر ہیں اور بہت سا وہ انفرا سٹرکچر انگریزوں کے دور سے نصیب ہے جو کسی اور ملکی یا عالمی کورئیر کے حصے میں آ ہی نہیں سکتا۔جو خسارہ اس ادارے کو درپیش ہے اس کے ذمے دار عوام نہیں ہیں‘ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسے تباہ کیا‘ لیکن محکمہ ڈاک سزاہمیں دے رہا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ نظام میں بہتری صفر ۔
ذرا ایک نظر پوسٹل سروسز کے وسائل پر ڈالئے اور ان کا موازنہ پرائیویٹ کورئیر سروسز سے کیجئے۔ پاکستان پوسٹل سروسز کے سربراہان کے مطابق ان کے پاس پورے ملک میں اس وقت 13000دفاتر ڈاک خانوں کی صورت میں موجود ہیں۔ ان کے مقابلے میں پوسٹل سروسز کی سب سے بڑی حریف کمپنی کے پاس محض 900شاخیں ہیں اور ان میں اکثر شاخیں ایک کاؤنٹر سے زیادہ کی جگہ پر نہیں ہیں۔ محکمہ ڈاک کے 67 فیصدڈاک خانے دیہات میں ہیں جہاں کسی بھی پرائیویٹ کورئیر کمپنی سے اس کی سرے سے کوئی مسابقت ہی نہیں ہے۔ ان علاقوں میں محکمہ ڈاک سے منافع کمانے کے امکانات بھی بہت کم ہیں ۔ اسی سے اندازہ کیجیے کہ ان 67 فیصدمیں سے 87 فیصد ڈاک خانے نقصان میں چل رہے ہیں ۔ان ڈاک خانوں کو بند بھی نہیں کیا جاسکتا کہ یہی ان علاقوں میں ڈاک کا واحد ذریعہ ہیں ‘لیکن اسی کے ساتھ ان ڈاک خانوں کو نظام بدل کر کئی ایسی خدمات کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جن سے ان کی افادیت اور منافع میں اضافہ ہوسکے۔ اس وقت ڈاک خانے کئی قسم کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ یہ ڈاک کی ترسیل کے ساتھ ساتھ سیونگ بینک‘ پوسٹل لائف انشورنس‘یوٹیلٹی بلز کی وصولی ‘بین الاقوامی رقوم کی ترسیل ‘ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس کی فروخت کے کام بھی انجام دے رہے ہیں۔پاکستان پوسٹل سروسز کے سربراہان کے مطابق انہیں دیگرکورئیر کمپنیز کے مقابلے میں ٹیکنالوجی میں پیچھے ہونے کی وجہ سے بہت مسائل کا سامنا ہے۔موٹرکار اور ٹرکوں کے معاملے ہی کو لے لیجئے‘یہ فوری ڈیلیوری کے لیے بہت ضروری ہیں اور حریف کمپنیاں اس معاملے میں پوسٹل سروسز سے کہیں آگے ہیں ۔ اسی طرح کسی خط یا پارسل کو ٹریک کرنے کے لیے کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں ڈاک خانہ مقابلہ نہیں کرپاتا۔محکمہ ڈاک کے 13000 باقاعدہ ملازمین ہیں جبکہ 17000 ملازمین جز وقتی ملازمت پررکھے گئے ہیں ۔ 25000 پنشن یافتہ ملازمین ان کے علاوہ ہیں ۔ ان سب کی تنخواہوں اور پنشن کا بوجھ بھی اچھا خاصا ہے ۔
2019ء میں پوسٹل سروسز کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا تھا کہ انہوں نے ایک سمارٹ فون ایپلی کیشن بھی لانچ کی ہے جس سے کسی پارسل کا ڈاک خرچ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے اور ٹریک بھی کیا جاسکتا ہے ۔(یہ ایپلی کیشن پاکستان پوسٹ کے نام سے موجود ہے اور یہ عوام کے فائدے کا کام ہے)۔بقول اُن کے ‘ انہوں نے 27شہروں میں ایک ہی دن میں ڈلیوری کا انتظام بھی کیا اور گیارہ شہروں میں گھروں سے ڈاک لے جانے کا بھی بندوبست کیا۔ اب ان دعوووں میں کتنی صداقت ہے اس کی ایک مثال تو میں اوپر پیش کرچکا ہوں کہ ایک دن تو درکنارپانچ دن میں پیکٹ لاہور سے کراچی پہنچتا ہے۔ ایسی بکثرت مثالوں کے ہوتے ہوئے پاکستان پوسٹ کے دعوووں پر اعتبار کون کرے اور کس حد تک کرے؟
مجھے یہ بھی یقین ہے کہ باقی سروسز کا معیار بھی اسی طرح کا ہوگا اور عملی طور پر ان سے استفادہ ممکن نہیں ہوگا۔سچ یہ ہے کہ یہ جو 13000ڈاک خانے ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں ان کا بہت بڑا فائدہ پوسٹل سروسز اٹھا سکتی ہے مثلا تھوڑے خرچ سے انہیں اسی طرح کی نقد رقم کی ترسیل میں استعمال کیا جاسکتا ہے جس طرح آج کل آن لائن ایپلی کیشنز کا کاروبار زوروں پر ہے اور وہ کمپنیاں اس سے خوب کما رہی ہیں۔رقم کی ترسیل چھوٹے شہروں اور دیہات میں ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ بہت سی ایسی جگہوں پر بینک موجود نہیں ہیں ۔اگر پرائیویٹ کمپنیاں چھوٹے چھوٹے دیہات میں چھوٹے دکانداروں کو اس مقصد کے لیے فرنچائز دے سکتی ہیں تو پوسٹل سروسز میں یہ کیوں نہیں ہوسکتا؟اسی طرح موبائل سروسز کمپنیوں سے بیلنس اور ٹاپ اپ کے معاہدے کیے جاسکتے ہیں اور ان ڈاک خانوں میں ایک کاؤنٹر اس کے لیے شروع کیا جاسکتا ہے ۔
اس وقت آن لائن کاروبارمسلسل اضافے پر ہے۔ بہت سی خریداریاں اور ان کی ترسیل کورئیر سروسز کے ذریعے ہورہی ہیں۔ پرائیویٹ کورئیر کمپنیز کے نرخ زیادہ ہیں اور وہ چھوٹے شہروں اور دیہات میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ آن لائن سامان بیچنے والے بڑے پاکستانی اور بین الاقوامی برانڈز سے پوسٹل سروسز معاہدے کرکے اس دوڑ میں شریک ہوسکتا ہے۔ ان کاموں کے لیے انتظام ضرور کرنا پڑے گا‘ لیکن یہ ایسا مشکل کام نہیں ہے اور پوسٹل سروسزاپنے13000پوائنٹس کی طاقت کو استعمال کرکے اپنے دائر ے کو بہت بڑھا سکتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پوسٹل سروسزاپنے مقاصد‘ اپنی حقیقی طاقت اور اہمیت سے پوری طرح واقف نہیں ہے اور بہتری کے پہلے قدم کے طور پر انہیں اس کا ادراک ضروری ہے ‘لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ جناب مراد سعید ان معاملات کی طرف توجہ دیں جن کی بہتری کے بغیر محض بیانات لوگوں کا دل نہیں جیت سکتے۔ (ختم)