بچپن میں ایک دیو کی کہانی پڑھتے آئے تھے جو افق پر سیاہ آندھی کے ساتھ نمودار ہوتا تھا۔اسے دیکھتے ہی لوگ دروازے‘دریچے بند کرکے گھروں میں دبک جاتے تھے۔وہ جسے گھر سے باہر دیکھتا لے اڑتا تھااور اس کے پیارے چیختے چلاتے اور آنسو بہاتے رہ جاتے تھے۔ کووڈ19 کا دیو اِس داستانی دیو سے بھی زیادہ بھیانک عفریت نکلا جو گھروں اورپناہ گاہوں کے اندر بھی کسی کو پناہ نہیں دیتا ۔کسی برتن‘کسی کاغذ‘لباس کے کسی ٹکڑے پر سفر کرکے گھروں میں پہنچ جاتا ہے۔ہوا کے کسی جھونکے کے ساتھ بند دروازوں کی ریخوں اور جھریوں میں سے در آتا ہے۔کیسا عفریت ہے کہ روایتوں کے مطابق الٹے لٹکے ایک پرندے کے جسم سے نمودار ہوا‘ لیکن چرندوں ‘پرندوں ‘جانوروں کو کچھ نہیں کہتا ۔اسے آدمی کی تلاش تھی اور اس کی بے آوازصدا آدم بو ‘آدم بو پوری دنیا میں گونجنے لگی ۔اور آدم زاد اُکھڑتی سانسوں کے ساتھ اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔جو بچ گئے وہ خوبیٔ قسمت سے بچ گئے لیکن ہولناک تجربوں سے گزرنے کے بعد۔ جنوری 2020ء میں کیا تصور تھا کہ اندرون شہروں اور گنجان بستیوں کے گلیوں ‘محلوں میں سال ہا سال اور نسل در نسل سے آباد تھڑے ‘جہاں بیٹھکیں جمتی تھیں‘ اس طرح اجڑجائیں گے۔ قہوہ خانوں اور کافی شاپس کو ‘جہاں گپ شپ اور شطرنج کی بازیاں لگتی تھیں ‘ اس طرح شہ مات ہو جائے گی ‘لیکن یہ قاتل یہاں بھی نہیں رکا ۔ دنیا میں کسی نے یہ تصور کبھی نہیں کیا کہ جان سے زیادہ پیاروں کے بیمار ہوجانے پر ان کی عیادت کو بھی نہیں جایا جاسکے گا۔کیا قیامت تھی کہ اپنے پیاروں کا آخری لمحوں میں دیدار بھی ممکن نہ ہوسکا۔ہسپتالوں میں بیماروں کو ایک نظر دیکھنے کو بھی ترس گئے اور ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجانے پر ان کے جنازوں کو کندھا بھی نہیں دیا جاسکا۔داستانی دیو صرف داستانی نہیں عملی حقیقت بن چکا ہے۔
یہ تو قانونِ قدرت ہے کہ ہر سال بہت سے پیارے داغِ ہجر دے جاتے ہیں ‘لیکن اس سال داغِ ہجر کے ساتھ ایک دہشت ایسی منسلک ہوگئی جو اس سے پہلے نہ سنی تھی ‘نہ محسوس کی تھی ۔ 2020ء زندگی کی ایسی بے اعتباری اپنے ساتھ لیے آیا جس پر اعتبار کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔یہ نہیں کہ انسان کی فنا کا ادراک اس سال سے پہلے نہیں تھا۔یہ تو انسان پرشعور کی عمر سے بھی پہلے واضح ہونے لگتا ہے کہ منزل آخر کی طرف جانے کی نہ کوئی صنف متعین ہے نہ کوئی عمر طے ہے۔ شیر خوار‘بچہ‘ جوان‘ادھیڑ عمر ‘بوڑھا ‘مرد ‘عورت۔ کسی کا بھی نمبر کسی بھی وقت آسکتا ہے۔ لیکن ایسی دنیا کا کسی نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ جنوری میں ووہان اور کووڈ۔19دونوں کے نام اکٹھے سامنے آئے اور ان دونوں پر کسی نے توجہ نہیں دی ۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ سب کسی اور دنیا کی بات ہورہی ہے ‘لیکن ہزاروں میل فاصلے پر موجود ووہان ہوا کی تیزی کے ساتھ دنیا کے ہر شہر میں آپہنچا اور ہر بستی ‘گلی ‘محلے میں کسی عفریت کی طرح پھرنے لگا۔ سال2020 ء ایک طویل شب فراق کی طرح گزرا۔جو کاٹے نہیں کٹتی تھی۔ کوئی چیز کٹتی تھی تو وہ دل تھے۔ایسی شب ہجر تو نہ دیکھی تھی ‘نہ سنی تھی۔ ایسی شبِ ہجر کا ذکرصرف داستانوں میں سنااور پڑھا تھا۔لیکن سال 2020ء نے اسے مجسم کالی دیوی کی شکل میں لا کھڑا تھا ۔ داستان گوؤں اور قصہ نویسوں نے اس سال دن رات اس کا مشاہدہ کیا ۔یہ سال تو خود ایک پوری داستان تھاشاعروں نے شب ِہجر کی طوالت کی کیسی کیسی لمبی لمبی داستانیں بیان کی ہیں۔ اس کیفیت کو گرفت کرنے کی کوشش میں کتنے ہی شعر لکھے گئے جو کسی پیارے کے فراق میں دل پر گزرتی ہے ۔ اور ویسے کہاں گزرتی ہے ‘دل کاٹ کر گزرتی ہے ۔ رات تو اتنے ہی گھنٹوں‘ثانیوں پر محیط ہوتی ہے لیکن اصل طوالت تو اس کیفیت کی ہے ۔ وہ کیفیت جو صرف طوالت میں زیادہ نہیں ‘گہرائی میں بھی کوئی رات اس کی مد مقابل نہیںتھی۔کسی نے کہا
شبِ فراق تو کٹتی نظر نہیں آتی
کسی اور نے کہا ؎
شبِ فراق اچانک خیال آیا مجھے
کہ میں چراغ نہ تھا اس نے کیوں جلایا مجھے
اور کسی نے کہا ؎
شبِ فراق تجھے ایک بار پھر کہہ دوں
یہاں پہ کوئی مرے نام کا نہیں رہتا
لیکن اس رات کو اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ کوئی اسے کس نام سے پکارتا ہے یا اس سے بچنے کے جتن کیا کیا کرتا ہے۔وہ ہر چراغ کو بجھانے کے درپے تھی ۔اور اس میں بہت کامیاب بھی تھی ۔2020ء کا پہلا سورج نمودار ہوا تھا تو اس کا استقبال اسی طرح کیا گیا تھا جیسے ہر سال نو کا ہوا کرتا ہے
صبح بخیر روشنی‘ صبح روشنی
لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ ایک دن کا نہیں ‘ایک رات کا آغاز ہے ۔اب پلٹ کر دیکھیے تو یہ سال عمر ِعزیز کے گزشتہ سالوں سے الگ نکلا ۔اس کا آغاز ہی انجام صفت تھا۔ گزرنے والا ہر سال اپنے نقش قدم چھوڑ جاتا ہے اور اس کی بہت سی چیزیں ہمیشہ یاد آتی رہتی ہیں ؎
میں کیا کروں مجھے بے طرح یاد آتے ہیں
تمام سال گزشتہ گزشتگاں کی طرح
لیکن 2020ء کا سال بے شمار لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں داغ کی طرح رہے گا جسے کسی بھی طور مٹایا نہیں جاسکتا‘ اور اب ہم آخری مہینے کے آخری حصے میں آکھڑے ہوئے ہیں ۔ دسمبر کا وسط آلگا ہے لیکن یہ عفریت جاتے جاتے بھی جا نہیں رہا۔ مڑ مڑ کر وار کرتا جارہا ہے ۔ کہیں دوسری لہر اور کہیں تیسری لہر کی صورت ۔جیسے ایک مہیب سمندر میں رات کے وقت کی تیرگی ہو اور ایک موج ابھی گزری نہ ہو کہ پہاڑ جیسی دوسری موج سر پر آپہنچے ۔ بیس دن کے بعد ایک نیا سورج نمودار ہوگاجو نیا سال ساتھ لیے امیدوں اور خدشات کے ساتھ کرنیں بکھیرے گا۔ وہ ویکسین جو برطانیہ میں لوگوں تک پہنچ گئی ہے ۔دنیا کے دوسرے خطوں اور گوشوں تک پہنچے گی۔ امیر ملکوں تک جلد رسا ہوگی اور غریب ملک اس کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھیں گے کہ یہ کب ان کی دسترس میں آئے۔ ویکسین کی تاثیر تو ابھی دور کا مرحلہ ہے ۔ اس وقت تو لوگ کسی بھی طرح کے تریاق کی تلاش میں ہیں ۔ اس امید پر کہ دنیا اس بھیانک رات سے باہر نکل آئے گی لیکن ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ویکسین ہو یا نہ ہو‘اب دنیا پہلے جیسی نہیں ہوسکے گی ۔
جن کے پیارے اس سال ناگہانی طور پر بچھڑ گئے ‘ان کے لیے تو دنیا پہلے جیسی ویسے بھی نہیں ہوسکتی ۔جن کی سانس ہوک کے ساتھ آتی جاتی ہو‘ وہ نئے سال کا کیاخیر مقدم کریں۔پروین شاکر کا مصرع یاد آتا ہے ۔
کیسے کیسے چہرے نظر میں گھوم رہے ہیں
دسمبر میں وہ سب یاد آرہے ہیں جو سال کی ابتداپر ہمارے ساتھ تھے۔خوش وخرم ‘ہنستے بستے اور قہقہے لگاتے۔ ہم ان کے لیے کیا کرسکتے تھے کہ ہم بے بس تھے۔ہم تو خود اپنے بچاؤ کی فکر میں تھے ‘لیکن ہم تو ان کو یاد کرنے کا حق بھی ادا نہیں کرسکے ۔سو یہ تحریر‘یہ کالم انہی سب چہروں کے نام جو اس سیاہ رات میں بچھڑے ‘لیکن ان کے چہرے یادوں میں جگمگ کرتے رہیں گے۔