"SUC" (space) message & send to 7575

پہلی محبت‘ پہلی برف باری

پہلی محبت اور پہلی برف باری بھلا کون بھول سکتا ہے۔ ناقابل فراموش اور کسے کہتے ہیں؟
کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہے‘ اور کیوں نہ ہو، لاہور کی سردی مشہور ہے اور دسمبر تو سرد ترین مہینوں میں ہے‘ اور لاہور تو پھر نسبتاً کم ٹھنڈے علاقوں میں ہے۔ جیسے جیسے شمالی علاقوں کی طرف جائیں دسمبر اور سردی کھل کر سامنے آتے جاتے ہیں۔ پہلے سطح مرتفع پوٹھوہار اپنے نیلگوں سرمئی غلاف میں لپیٹتی ہے پھر چڑھائی اور برف کے خطے استقبال کرتے ہیں۔ محاورہ ہے کہ ہڈیوں کا گودا جم گیا‘ لیکن اگر اس محاورے کو حقیقی معنوں میں چکھنا اور پرکھنا ہے تو سات آٹھ ہزار فٹ کی بلندیوں پر جانا پڑے گا۔ ویسے تو پاکستان میں پہاڑی بستیاں اور انسانی آبادیاں دس ہزار فٹ سے اوپر بھی ہیں لیکن میں نے قصداً ان کا ذکر نہیں کیا۔ اس موسم میں یا تو ان کے مکین میدانی اور کم بلند علاقوں کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں‘ یا پھر چھ ماہ کی ہائبرنیشن کا لحاف اوڑھ کر سوجاتے ہیں۔ میدانی علاقوں کے رہنے والوں کیلئے برف گرتے دیکھنا ایک مزے کی تفریح ہے اور بلندیوں کے مکینوں کیلئے ایک پُر صعوبت موسم کا آغاز۔ ہم جو میدانی علاقوں کے رہنے والے اور یہیں عمریں اور نسلیں بسر کردینے والے ہیں اپنی خواب ناک دنیا میں جائیں تو جھیل، سمندر، سبزہ زار کے ساتھ پہاڑ اور برف کا تصور لازمی ہے۔ برف زاروں کے مکین کیسے خواب دیکھتے ہیں؟ کیا گرم اور معتدل بستیوں کے خواب،گرم سمندروں، ہرے جنگلوں اور نم آلود جھونکوں کے خواب؟ وہ دنیا جو اتنی سرد مہر نہ ہو اور جہاں زمہریری ہواؤں کے تھپیڑے تھپڑ نہ مارتے ہوں؟
بات لاہور کی ہو رہی تھی۔ ہمارے کراچی کے عزیز رشتے دار دسمبر جنوری میں لاہور آتے ہیں تو اتنی سردی ان سے برداشت نہیں ہوتی۔ ویسے تو وہ سرد لہر جسے کراچی میں کوئٹہ کی ہوا کہا جاتا ہے، اپنا رنگ جماتی ہے تو خون بھی جما دیتی ہے۔ وہ موسم بھی کئی بار چکھنے کا موقع ملا اور سچ یہی ہے کہ بعض اوقات وہ لاہور کی سردی بھی بھلا دیتی ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ لاہور میں سردی ہوتی ہے لیکن سرد ہوا کم کم۔ کراچی میں یہ ترتیب معکوس ہے۔ لاہور کی سردی تر ہے اور کراچی کی خشک؛ چنانچہ کچھ ہی دنوں میں جلد کا رنگ کالا پڑ جانا اور خشک ہوکر جلد پھٹ جانا کراچی کی سردی کی خصوصیت ہے۔ 
پہلی محبت اور پہلی برفباری ساری زندگی یاد رہ جانے والے تجربے ہیں۔ صرف یاد رہنے والے ہی نہیں اپنی تمام خوبصورتیوں اور رنگوںکے ساتھ امر ہو جانے والے تجربات۔ پہلی محبت کا ذکر تو شاعری میں کرتے ہی رہتے ہیں‘ آج اس براق منظر کو یاد کریں جو ہر رنگ کوڈھانپ کر فرشتہ پر بنا دیتا ہے۔ تیس برس پہلے کی بات ہے۔ مہینہ یہی دسمبر یا جنوری کا تھا جب مری کیلئے عازم سفر ہوئے۔ بات ان دنوں کی ہے جب مری ایکسپریس وے نہیں بنا تھا اور پرانا راستہ ہی اختیار کیا جاتا تھا۔ سچ یہ ہے کہ اس راستے کے مسائل اپنی جگہ لیکن اس کی خوبصورتیوں کو مری ایکسپریس وے نہیں پہنچتا‘ اس لیے کہ اس میں چیڑ اور دیودار کے وہ سر بلند درخت آپ کا استقبال کرتے ہیں جو مری اور گلیات کی شناخت ہیں۔ اسلام آباد سے مری جاتے ہوئے چھرہ پانی مری سے پہلے وہ پوائنٹ تھا جہاں پہاڑی کی سمت ایک گرتے چشمے کے پاس رک کر ان پرانی گاڑیوں کے انجن ٹھنڈے کیے جاتے تھے جو مسلسل چڑھائی سے آگ بگولا ہورہے ہوتے تھے۔ ایک دو جنرل سٹور اور ایک پکوڑوں سموسوں کی دکان گھاٹی کی طرف موجود تھی‘ جہاں مسافر کچھ دیر کے لیے سستا لیتے تھے۔ ہم چھرہ پانی پر کھڑے تھے اور وہاں سخت ٹھنڈ کے باوجود برف کے کوئی نشان اور آثار نہیں تھے۔ اتنے میں ایک جیپ مری سے واپس آتی دکھائی دی اور اس کے سر پر برف اس طرح لدی ہوئی تھی جیسے کسی کسان نے کپاس کی گٹھڑی اٹھا رکھی ہو۔ مسافروںکی تو جیسے خوشی سے چیخیں نکل گئیںکیونکہ وہ ایسے ہی کسی منظر کی تلاش میں دور سے آئے تھے اور دل میں یہ اندیشہ دھڑکتا تھا کہ سفید پوش منظر ملے گا بھی یا نہیں لیکن چھرہ پانی سے اوپر چڑھتے گئے اور سبز منظر سفید رنگ میں بدلتے گئے۔ دیو قامت درختوں کی پھنگیں سفید ہونے لگیں اور ہرا رنگ غائب ہوتا گیا۔ مری کے خاص پرندے اور بھاری بیٹھی ہوئی آواز والے کوے بھی نہ دکھائی دے رہے تھے اور نہ سنائی پڑتے تھے۔ ہر سمت ایک براق سکوت اور سفید سناٹا ہمار امنتظر تھا۔ وہ سناٹا جس کے سکوت پر ہزار کلام قربان ہوں۔ مری کی مال روڈ پہنچنے تک منظر بالکل بدل چکا تھا۔ درخت اور عمارتیں تو ایک طرف، بجلی اور ٹیلیفون کے تاروں پر بھی برف اس طرح جمی تھی جیسے لمبے لمبے سفید سیخ کباب آویزاں ہوں۔ دھوپ وقفے وقفے سے چند منٹوں کے لیے دکھائی دیتی لیکن ایسے جیسے شکیب جلالی نے کہا تھا: 
یوں آئنہ بدست ملی پربتوں کی برف
شرما کے دھوپ لوٹ گئی آفتاب میں 
مال روڈ پہنچے تو اکثر ریسٹورنٹ اور ہوٹل بند تھے۔ مال روڈ پر خال خال لوگ تھے لیکن تیز کاٹ دار ہوا کے جھونکے چہل قدمی کرتے تھے۔ کولونیل دور کی یادگار اور میرا پسندیدہ لنٹوٹ ریسٹورنٹ کھلا تھا اور یہی اس سرد خانے میں واحد گرم جگہ دکھائی دے رہی تھی۔ ابھی کافی کا آرڈر سرو نہیں ہوا تھا اور یخ بستہ شیشے کی دیوار کے ساتھ رکھی میز سے سگریٹ کے مرغولے اٹھنے شروع ہی ہوئے تھے کہ روئی کے گالے آسمان سے اترنا شروع ہوگئے۔ بارش کی آواز سب سنتے اور پسند کرتے ہیں لیکن برف کی خاموش چاپ اور آہستہ رو دستک کی بات کم ہی ہوتی ہے۔ 
ہم مال روڈ پر آگئے۔ سفید کبوتروں کے پر ہمارے گالوں، بالوں اور کپڑوں پر اترتے گئے اور جمتے گئے۔ اس خنکی اور سردی میں ایک آگ تھی جو جوانی کی آگ کے ساتھ مل کر دو آتشہ ہوتی تھی اور اس کے نارنجی شعلے جسم کی رگ رگ میں بھڑکتے تھے۔ یہ ہماری زندگی کی پہلی برف باری تھی۔ خالص، بے لوث اور بے حد خوبصورت محبت کی طرح۔ ایک سفید رنگ میں کتنے ہی رنگ تھے جو ہمارے اندر بکھرتے تھے۔ مری کا درجۂ حرارت منفی 9 تھا اور اس سردی کی شدت میں بھی ایک حدت موجود تھی۔ مری میں اچھے ہوٹلوں کی کمی ہمیشہ سے ہے۔ اس زمانے میں تو شاید مرحبا کے علاوہ کوئی بہتر ہوٹل تھا ہی نہیں۔ جو ہوٹل دستیاب تھے وہ ہیٹر کی سہولت سے محروم تھے اور اس قیامت کی سردی میں جسم کی حدت کافی نہیں تھی۔ کسی طرح ایک ہیٹر دستیاب ہوا لیکن گرمی سے محروم۔ ہیٹر جلتا تھا لیکن یقین ہی نہیں آتا تھا کہ یہ جل رہا ہے۔ بس ایک نفسیاتی تسلی تھی ورنہ اس کا ہونا نہ ہونا برابر تھا۔ صبح اٹھے اور کمروں سے باہر نکلے تو کنواری برف ہر چیز کو اپنا لباس پہنا چکی تھی۔ ایسا لباس جس کے سامنے سب رنگ ہیچ ہیں۔ تیس سال سے زیادہ مدت گزر چکی لیکن یہ سفر، یہ منظر، یہ موسم آج تک دل میں ٹھہرا ہوا ہے۔ 
اس کے بعد زندگی نے برف باری سے لطف اندوز ہونے کے بہت سے مواقع دئیے۔ مری کے علاوہ دیگر جگہوں پر بھی۔ پاکستان میں بھی اور پاکستان سے باہر بھی لیکن وہ تجربہ، وہ موسم دل سے کبھی رخصت نہیں ہوا‘ اور شاید ہمیشہ تروتازہ رہے گا۔
برف باری کے دن ہیں۔ یخ بستگی کے دن ہیں۔ ہم کسی شعبے سے بھی ہوں۔ کیا کچھ دیر کے لیے ان سب مکروہات سے منہ موڑ کر اس موسم کو نظر جما کر نہیں دیکھ سکتے جو آپ کو جما دینے والا ہے؟ یاد رکھیے پہلی محبت کی طرح پہلی برف باری مبہوت کن تجربہ ہے۔ انہیں مہمان بنا کر ان کا احسان اٹھا کر دیکھیے۔ کوئٹہ کے مرحوم شاعر عطا شاد سے ان کے دفتر میں سنے ہوئے دو شعرسناتا ہوں۔ شاید یہ آپ کی زندگی کا تجربہ بھی بن جائیں گے: 
یک لمحہ سہی عمر کا احسان ہی رہ جائے 
اس خلوت یخ میں کوئی مہمان ہی رہ جائے 
مجھ شاخ برہنہ پہ سجا برف کی کلیاں 
پت جھڑ پہ ترے حسن کا احسان ہی رہ جائے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں