"SUC" (space) message & send to 7575

اے شرلاک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن! دہائی ہے

ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں بانی متحدہ خود کو اچھی طرح گرم لباس میں پیک کیے پانی کا پائپ ہاتھ میں لیے بظاہر اپنے گھر کے بیرونی فرش کی صفائی کر رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد صفائی کی مشقت سے تھک کر وہ کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں اور بالآخر بیٹھے بیٹھے خراٹے بھرنے لگتے ہیں۔ کیا صفائی کرتے ہیں وہ۔ یہ صفائی، یہ مشقت اور یہ خراٹے دیکھ کر کتنی ہی باتیں اور یادیں ذہن میں گھوم گئیں جو بھلائی نہیں جا سکتیں۔
بہت دنوں کی بات نہیں ہے بھئی۔ ہمارے بچپن اور لڑکپن کو ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔ خیر دن جتنے بھی ہوں اصل بات یہ کہ ہم سکاٹ لینڈ یارڈ، شرلاک ہومز اور ہرقل پائرو کے ملک برطانیہ عظمیٰ کی پولیس، سراغ رسانی اور فوری انصاف سے شدید متاثر رہے ہیں۔ ہر داستان گو سکاٹ لینڈ یارڈ کی پولیس کی شان میں قصیدے پڑھتا برآمد ہوتا تھا۔ لندن پولیس اور اس کی آہنی گرفت کی تعریف سفرنامہ نگاروں کا محبوب مشغلہ تھی۔ اس زمانے میں ہمارا خیال تھا کہ دراصل یہ پولیس سکاٹ لینڈ کی ہے جو اپنی فرض شناسی اور مستعدی کے باعث پورے ملک میں بھاگی پھرتی ہے‘ اور ہر مجرم کو جیل بھجوا کر واپس سکاٹ لینڈ پہنچ جاتی ہے۔ بہت بعد میں علم ہواکہ لندن کی میٹروپولیٹن پولیس (MPS) کا صدر دفتر جس عمارت میں واقع تھا، اس کی عقبی گلی کا نام سکاٹ لینڈ یارڈ تھا۔ عمارت کے عقبی دروازے ہی سے عام لوگوں کی آمدورفت تھی۔ زمانہ گزرا تو اس گلی کا نام اور پولیس سٹیشن کا نام لازم و ملزوم ہوگئے اور اسے سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کہا جانے لگا۔
پولیس ہی پر کیا موقوف ہر لمبا، فلیٹ ہیٹ پہنے، پائپ پیتا انگریز شرلاک ہومز، ذرا پیچھے ٹہلتا، کوئی متجسس شخص ڈاکٹر واٹسن، موٹی گھنی مونچھوں والا ہر شخص ہرقل پائرو تھا۔ بات دراصل آرتھر کانن ڈائل اور اگاتھاکرسٹی کے انداز بیان کی نہیں، دیسی احساس مرعوبیت کی تھی۔ تصور ہی نہ تھا کہ کوئی شخص جرم کرکے لندن میں ایک دن بھی رہ سکتا ہے۔ یقین تھا کہ قمیص کا بٹن، سگار کی راکھ اور سگریٹ کا ٹکڑا بھی بول اٹھیں گے۔ مجرم بچ کے جائے گا کہاں؟
لیکن ذرا ایک قصہ اور سن لیں۔ 2004 کی بات ہے‘ ہم جشن بہار بین الاقوامی مشاعرے میں شرکت کیلئے دہلی پہنچے۔ ایک عرب دوست بھی مدعو تھے، جو اردو شاعری کرتے ہیں۔ دہلی پہنچے تو اگلا جمعہ کا دن تھا۔ ہم جمعہ کی نماز پڑھنے کناٹ پیلس کی طرف جارہے تھے۔ عرب دوست پہلی بار ہندوستان آئے تھے۔ وہ گاڑی میں آتے جاتے راستے بھر لوگوں کے چہرے، ٹریفک، صفائی کے حالات وغیرہ دیکھتے رہے۔ پھر آخر کار بولے: سعود صاحب‘ اگر یہ ہندوستان ہے تو وہ کیا ہے جو ہم ہندوستانی فلموں میں دیکھتے ہیں اور اگر فلموں والا ہندوستان اصل ہے تو پھر یہ کون سا ہندوستان ہے؟‘‘ تو حضور! برطانیہ کی جس پولیس، سراغ رسانی اور عدل و انصاف کے اتنے چرچے کیے جاتے ہیں وہ کون سا انگلستان ہے ؟
ہمارے یہاں عام شخص یہی جانتا ہے کہ کمزور ملکوں کے قاتلوں، لٹیروں کو ان ملکوں میں بہت آسانی سے سیاسی پناہ مل جاتی ہے۔ سیاسی پناہ کے اصول پر بھی بات کی جا سکتی ہے لیکن اسے مان بھی لیا جائے تو کیا اس کی آڑ میں قاتلوں کے سر پر ہاتھ رکھنا سمجھ آسکتا ہے؟ دوسرے ملکوں کو چھوڑیے پرانی ایم کیو ایم کی قیادت کا معاملہ ہی دیکھ لیجیے۔ جب انہیں شہریت ملی اس وقت ان پر قتل، دہشتگردی، بھتہ خوری وغیرہ کے ان گنت مقدمات درج تھے۔ سیاسی پناہ پر غور کرتے ہوئے کیا اس شخص کا ریکارڈ نہیں دیکھا جاتا؟ کیا لاتعداد مقدمات کو سرے سے نظر انداز کردیا جاتا ہے؟ کیا سفارت خانہ تمام واقعات سے نابلد ہوتا ہے؟ کیا کوئی تفتیش نہیں ہوتی اور کیا کسی بھی تفتیش کے نتائج ایسے شخص کی شہریت کے حق میں ہوسکتے ہیں؟
چلیے کسی ہمدردی کی وجہ سے شہریت دے بھی دی گئی۔ ایک زمانے تک برطانوی ہوکر وہ پاکستان میں ایک سیاسی جماعت کی قیادت کرتے رہے۔ متنازعہ خطاب کر تے رہے۔ گھیراؤ جلاؤ کی کالیں اور دھمکیاں دیتے رہے۔ یہ سب لندن سے ہوتا رہا اور پولیس کو پچیس سال تک کانوں کان خبر نہیں ہوئی کہ اس کی ناک تلے کیا چل رہا ہے۔ ذرا سوچیے کہ پاکستان میں تشدد کے واقعات ہورہے ہیں۔ چیخ و پکار مچی ہوئی ہے اور پاکستان میں سفارتی عملے کو کچھ محسوس نہیں ہو رہا۔ کیا کچھ سمجھ میں آنے والی بات ہے؟ سوال یہ ہے کہ انہیں از خود اس کا نوٹس لینے کی توفیق کیوں نہیں ہو سکی؟
اس سے بھی زیادہ عبرتناک مثال عمران فاروق کا قتل ہے۔ وہ تو اسی زمین پر ہوا تھا۔ ایجور روڈ لندن پر ستمبر 2010 میں ہونے والا یہ مشہور قتل سب کو یاد ہو گا اور اس کے پس منظر کا بھی علم ہو گا۔ ننانوے فیصد لوگوں کو کوئی شک نہیں ہوگا کہ اصل قاتل کون ہے۔ 11 سال گزر چکے۔ کیا کسی کو پتہ چلا کہ اس کیس کا کیا بنا؟ قتل کیسے ہوا؟ قاتل کون تھے اور ان کے پیچھے کون تھا؟ کئی لوگوں کے نام پاکستانی اخبارات میں آ چکے لیکن برطانیہ سے کوئی خبر نہیں آتی۔ خبر آتی ہے تو یہ کہ پاکستان سے معلومات کا تبادلہ کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ کبھی کبھار ایسی کوئی خبر بھی آ جاتی ہے کہ پولیس اور عدالت فلاں نتیجے پر پہنچ گئیں۔ کتنے سال گزر چکے۔ اب کتنے اور گزریں گے علم نہیں۔ 
2013 کے انتخاب کے دن اور وہ تقریر یاد ہو گی جس کے رد عمل میں سینکڑوں کالیں لندن پولیس کو موصول ہوئیں۔ اس تقریر کو نفرت انگیز(Hate speech) قرار دے کر اس پر کارروائی کی درخواست کی گئی تھی۔ کافی عرصے بعد لندن پولیس نے فرمایا کہ تقریر میں کوئی غلط بات نہیں پائی گئی اور وہ موصوف کے خلاف کسی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتی۔
یا د آیا کہ جولائی 2013 میں جب لندن پولیس نے اعلان کیا کہ وہ منی لانڈرنگ کے الزام میں بانی ایم کیو ایم سے تفتیش کر رہی ہے تو ایک معروف ٹی وی اینکر فرما رہے تھے کہ یہ انتہائی سخت الزام ہے۔ یہ صاحب بچتے نظر نہیں آتے۔ بچنے کا سوال تو الگ، کیا 11 سال گزرنے کے بعد بھی کچھ پتہ چلا کہ اس منی لانڈرنگ کیس کا کیا بنا اور الزام غلط تھا یا درست؟ 
کچھ عرصے پہلے پھر ان صاحب کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ معلوم ہوا کہ 2016 یعنی 5 سال پہلے کی ایک تقریر کے بارے میں پولیس نے تفتیش شروع کی ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ تفتیش کچھ جلدی شروع نہیں ہو گئی۔ کم از کم 11 سال تو گزرنے دیتے۔ خیر پولیس نے زیادہ زحمت نہیں دی اور وہ بھلے مانس چند دن بعد رہا ہو کر گھر چلے گئے۔ یہ کیس کب تک چلے گاپتہ نہیں‘ لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ سلمان بٹ‘ محمد آصف اور محمد عامر پر میچ فکسنگ کا کیس بہت جلد مکمل ہو گیا تھا‘ اور پولیس نے اس کے سارے سراغ بھی فوراً ڈھونڈ لیے تھے۔
چند سال پہلے کا وہ واقعہ بھی یاد کیجیے اور ذرا تصور کیجیے کہ قذافی سٹیڈیم لاہور میں انگلینڈ اور آسٹریلیا کا ورلڈ کپ کا اہم میچ ہو رہا ہو۔ اس میں انگلینڈ کے حامی تماشائیوں پر حملے کیے جائیں۔ کھلاڑیوں پر حملے کی کوشش کی جائے۔ اوپر ایک جہاز پرواز کر رہا ہو جس پر انصاف برائے آئرلینڈ (Justice for Ireland) کا بینر لہرا رہا ہو۔ جب ان سب کی شکایت کی جائے تو پولیس یہ کہے کہ کچھ گڑبڑ تو ہوئی تھی لیکن حملے کی ہمیں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ ہمیں تو ویڈیو فوٹیج سے علم ہوا ہے۔
اگر یہ سب انگلینڈ کے خلاف اور پاکستان میں ہوا ہوتا تو ایک کہرام مچ گیا ہوتا۔ نا اہلی اور دہشت گردی کے الزامات کی بوچھار ہو چکی ہوتی۔ ان سب کے پیچھے کسی کا کردار ڈھونڈا جا چکا ہوتا اور دیسی لوگ اس میں سب سے آگے آگے ہوتے۔ جرم ضعیفی کے ساتھ مخالفت میں تعصب اور بے انصافی شامل ہو جائے تو یہی تصویر نظر آتی ہے۔
سواے پیارے شرلاک ہومز! اے موسیو ہرقل پائرو! آپ کہاں سو رہے ہیں کہ ایک سرزمین جرم سے بھر دی گئی ہے۔ ڈاکٹر واٹسن! آپ ہی کچھ مدد کریں۔سر آرتھر کانن ڈائل اور میڈم اگاتھا کرسٹی! آپ کچھ سفارش کر سکتے ہیں؟ آپ کچھ مدد کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں