''اور میں پھر قفس کو دیکھنے لگا‘ اندر سے وہ ایک چھوٹا سا قیصر باغ محسوس ہورہا تھا۔ فرش پر سنگ سرخ کی بجری بچھی ہوئی تھی، بیچ میں پانی سے بھرا ہوا حوض جس میں چھوٹی چھوٹی سنہری کشتیاں تیررہی تھیں اور ان کشتیوں میں بھی تھوڑا تھوڑا پانی تھا، فرش پر لال، سبز چینی کی نیچی نیچی ناندوں میں پتلی لمبی شاخوں والے چھوٹے قد کے درخت تھے، دیواروں سے ملی ملی بسنت مالتی، بشن کانتا، جوہی کی بیلیں تھیں، ان میں ٹہنیوں سے زیادہ پھول تھے اور انہیں اس طرح چھانٹا گیا تھا کہ قفس کی خوبصورتی ان میں چھپ جانے کے بجائے اور اُبھر آئی تھی، جگہ جگہ ستاروں کی وضع کے آئینے جڑے تھے جن کی وجہ سے قفس میں جدھر دیکھو پھول ہی پھول نظر آتے تھے۔ پانی کے کاسے، دانے کی کٹوریاں، ہانڈیاں، چھوٹے چھوٹے جھولے، گھومنے والے اڈے، پتلے پتلے مچان اور آشیانے ہر طرف تھے اور انہیں سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ جگہ پرندوں کے لیے ہے‘‘۔
یہ اقتباس نیر مسعود کے افسانے طاؤس چمن کی مینا کا ہے۔ آج پتہ نہیں کیوں نیر مسعود بہت یاد آئے۔ دل چاہا انہیں یاد کرنے کو۔ وہ تین دن یاد آئے جولکھنؤ میں گزرے تھے۔ گومتی کنارے ایک نادر شہر لکھنؤ۔ وہ واحد ملاقات یاد آئی جس پر فخر بھی کیا جاسکتا ہے اور افسوس بھی کہ ایک باکمال کی صحبت کیلئے وقت بہت کم ملا۔ وقت ویسے بھی اپنی مرضی کا ملتا ہی کہاں ہے‘ اور مل بھی جائے تو تشنگی کی پپڑیاں یہاں وہاں چھوڑجاتا ہے۔
وہ 23/24 دسمبر1997 کی یخ بستہ رات بلکہ عرفان صدیقی کے الفاظ میں ''شبِ درمیاں‘‘ تھی جو ہم پر دہلی اور لکھنؤ کے درمیان ٹرین میں اتری تھی۔ بڑے گرم کمبل نے دو مسافروں کو لپیٹ رکھا تھا۔ میں پہلی بار ہندوستان کا سفر کر رہا تھا اور میرے ساتھ میرے ہندوستانی عزیز فرحان تھے۔ دھند اتنی تھی کہ ریل گاڑی ہر پندرہ بیس منٹ کے بعد دم سادھ کر کھڑی ہوجاتی۔ خدا خدا کرکے گزشتہ شام پہنچنے والی گاڑی علی الصبح لکھنؤ کے سٹیشن پر پہنچی۔ پلیٹ فارم پر اترے تو کمبل سے نکلتے ہی سردی اور دھند نے کمبل کی طرح ہمیں لپیٹ لیا۔ سائیکل رکشا میں ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے تو بہت تھے لیکن یہ فائدہ بھی تھا کہ لکھنؤ کے بند بازاروں اور دکانوں کو دیکھتے ہوئے اپنے ہوٹل پہنچے۔ یہ لکھنؤ تھا۔ دریائے گومتی کے کنارے بسا تاریخی، تمدنی، تہذیبی‘ ادبی وراثتوں سے چھلکتا ہوا شہر۔ واجد علی شاہ کا اودھ۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی کا لکھنؤ۔ قرۃ العین حیدر کا لکھنؤ۔ رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے۔
لکھنؤ دیکھنے کا شوق اپنی جگہ لیکن میں دراصل باکمال شاعر عرفان صدیقی سے ملنے لکھنؤ پہنچا تھا جو اپنی طرز کے واحد غزل گو تھے اور انہیں میں دہلی سے اپنے لکھنؤ آنے کی اطلاع دے چکا تھا۔ عرفان صاحب بہت تپاک سے ملے۔ بہت اپنائیت کا مظاہرہ کیا۔ عرفان صدیقی پر میں برادرم عزیز نبیل کی کتاب میں‘ جو دہلی سے شائع ہوئی ہے، ایک الگ مضمون لکھ چکا ہوں لیکن اس وقت اصل بات یہ کہ انہوں نے کہا کہ کل ہم نیر مسعود کی طرف چلیں گے۔ وہ آپ سے مل کر خوش ہوں گے اور آپ کا ان سے ملنے کا بھی نادر موقع ہوگا۔ سچ یہ ہے کہ میرے ذہن میں نیر مسعود صاحب سے ملاقات تھی ہی نہیں بلکہ مزید سچ یہ کہ یہ بھی یاد نہیں تھا کہ وہ بھی لکھنؤ میں رہتے ہیں۔ باکمال نثر نگار اور ادیب نیر مسعود کا بہت نام پہلے سے سن رکھا تھا۔ مسعود حسن رضوی ادیب کے فرزند نیر مسعود اردو نثر میں بذاتِ خود اپنا نام بنا چکے تھے اور اہلِ علم ان کا نام دل گداز افسانوں‘ مٹتے کرداروں اور اجڑتے اودھ کو محفوظ کرنے والے نیّر مسعود کے نام سے جانتے تھے۔ اب یاد نہیں کہ ان کی معرکہ آرا تحریر 'طاؤس چمن کی مینا‘ اس وقت چھپ چکی تھی یا نہیں۔ بہرحال ان سے ملنا خوش بختی تھی۔ میں نے سوچا کہ میں تو صرف عرفان صدیقی سے ملنے آیا تھا‘ یہ تو ایک اور بے بدل شخصیت سے ملاقات کا موقع نکل آیا۔ دیہاتی کو گھی چپڑی اور دو دو مل جائیں تو اور کیا چاہیے۔
اگلے روز دن چڑھے ہم عرفان صاحب کی ہمراہی میں جناب نیر مسعود کے گھر جا پہنچے۔ ایک سادہ سا صاف ستھرا گھر۔ یوپی کے متوسط، وضع دار اور سفید پوش گھرانوں کی نمائندگی کرتا ہوا۔ جناب نیر مسعود نے دروازے پر ہمارا خیر مقدم کیا۔ دروازے کے بعد نیم پختہ صحن جس میں شاید جامن کا گھنا پیڑ کھڑا تھا۔ پیڑ کے اطراف کی زمین کچی تھی۔ ایک طرف اینٹوں کا فرش تھا جس پر جھاڑو اپنے تازہ تازہ پھیرے جانے کی مشقّت کے بعد بے دم ہوکر ایک طرف پڑی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ایک ڈول نما بالٹی جس میں غالباً پونچھے کے لیے بھیگی ٹاٹ پڑی ہوگی۔ ہم اینٹوں کے فرش سے ہوکر بیٹھک کی طرف بڑھے۔ بیٹھک بھی سادگی، سلیقے، سجاوٹ اور سفید پوشی کے چاروں ''س‘‘ سے سجی ہوئی تھی۔ ایک طرف ایک دیوان بچھا ہوا اور لکڑی کے فریم اور بید کی نشست اور پشت والا صوفہ اور کرسیاں۔ دو دیواری الماریاں جنہیں سگھڑاپے کے پانچویں ''س‘‘ نے پھولدار پردے کی صورت ڈھانپا ہوا تھا۔ پردے کا ذرا سا کونا ہٹا کر چینی کی پیالیاں اور کتابیں پردہ نشین بیبیوں کی طرح ملاقاتیوں کو جھانک رہی تھیں۔ نیرمسعود سانولے رنگ کے قدرے لانبے اور قدرے دبلے شخص تھے۔ عرفان صدیقی اور نیّر مسعود میں بہت سی اقدار مشترک تھیں۔ ذہنی، تمدنی، ادبی، ثقافتی اور اسلامی اقدار؛ چنانچہ دونوں گہرے دوست تھے اور ان کا بکثرت ملنا جلنا تھا۔ دونوں ایک مٹتی ہوئی تہذیب کے دکھ دیکھنے والے تھے اور دونوں اس خرابے کے نگہبان۔ ایک نثر میں دوسرا شعر میں۔ عرفان صدیقی نے جو کہا تھا وہ دونوں پر صادق آتا تھا۔
میں طلب گار بھی تھا کام کی آسانی کا
حکم ہے مجھ کو خرابوں کی نگہبانی کا
اس طلب میں کہ مرے ہاتھ نہ خالی رہ جائیں
کتنا نقصان ہوا ہے مری پیشانی کا
میں ان دونوں باکمال ادیبوں کے درمیان گنگ سا بیٹھا تھا۔ مجھے احساس تھاکہ یہ دونوں صاحبانِ کمال اپنا وقت مجھے عنایت کر رہے ہیں اور اس احساس نے ہی بات کرنا مشکل بنایا تھا‘ لیکن جناب نیّر مسعود گفتگو کا سرا مجھے تھماتے رہے‘ اور رفتہ رفتہ اجنبیت زائل ہوتی گئی۔ پاکستان کا حال احوال، پاکستانی ادیبوں شاعروں کی خیر خبر، ہندوستان کا ادبی منظر نامہ۔ سب باری باری گفتگو کے موضوع بنے۔ چائے اور لوازمات کے ساتھ گفتگو جاری رہی۔ میں زیادہ تر ان کی گفتگو سنتا رہا۔ کچھ کچھ رئیس فروغ کے مصرعے والا حال۔
کہ درمیاں میں کہیں بولتا تو میں بھی ہوں
میں لکھنؤ کی تہذیب اور حالیہ تبدیلیوں کے بارے میں جاننے کا خواہش مند تھا جو یہ حضرات مجھے بتاتے رہے۔ عمومی گفتگو کی قوس ایک موڑ کاٹ کر شاعری کی طرف آئی اور مجھ سے غزلوں کی فرمائش کی گئی۔ میں نے جھجکتے ہوئے چند غزلیں سنائیں اور سخن شناسوں سے خوب داد پائی لیکن اصل انتظار عرفان صدیقی سے کلام سننے کا تھا۔ نیرمسعود بھی عرفان صاحب کے مداح تھے؛ چنانچہ عرفان صاحب سے تادیر ان کا کلام سنا گیا۔نیّر مسعود صاحب کی بیٹھک، گھر کے آنگن، اور پیڑ تلے میں نے اپنے کیمرے سے کئی تصویریں کھینچی تھیں۔ افسوس ایک کے سوا سب ضائع ہو گئیں۔ میں لکھنؤ میں تین دن رہا لیکن جناب نیر مسعود سے وہ یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد تو بس خبریں تھیں اور بس۔لیکن ان سے ملاقاتیں تو جاری رہیں گی۔ ان کا افسانہ 'طاؤس چمن کی مینا‘ ان کا شاہکار افسانہ ہے۔ ان سے ملاقاتیں تخلیق میں بھی ہوسکتی ہیں، تحقیق میں بھی اور تنقید میں بھی۔ طاؤس چمن کی مینا، دس افسانے، عطرِ کافور، سیمیا، گنجفہ، رجب علی بیگ سرور حیات اور کارنامے، تعبیر غالب، شفاء الدولہ کی سرگزشت، انیس ادبستان، منتخب مضامین، یگانہ احوال و آثار۔ یہ سب ان سے ملاقات کے دروازے ہیں۔ انسان کو بھیجنے اور اٹھا لینے والے نے عجیب نظام بنایا ہے کہ اس کے جانے کے بعد بھی اس سے ملاقاتیں جاری رہتی ہیں۔