متعدد نوکوں والے مہلک ہتھیار کو کیا کہتے ہیں؟پتہ نہیں۔ زیادہ سے زیادہ تین نوکوں والے ترشول کا پتہ ہے جو ہندوستان بلکہ قدیم جنوبی ہندوستان کا ہتھیار ہے۔ ہندو داستانوں اور مجسموں میں یہ ہتھیار ابھی تک زندہ ہے۔ترشول کا سنسکرت میں مطلب ہے تین نیزے ‘لیکن کسی خونیں ہتھیار کی تین سے زیادہ نوکیں ہوں تو اسے کیا کہیں گے ؟ پتہ نہیں۔پتہ بس یہ ہے کہ ایک ویڈیو اپنی تیز برچھیوں اور کھب جانے والی نوکوں سمیت ہوا میں اڑتی ہوئی معاشرے کے سینے میں پیوست ہوئی ہے اور نہ خون ا ُبلنا بند ہوا ہے نہ درد میں کمی ہورہی ہے۔ یہ وائرل ویڈیو گردش میں ہے اور اس کے بارے میں ہر قسم کی بولیاں بولی جارہی ہیں۔ لیکن جنہیں یہ ویڈیو دراصل کھب جانی چاہیے تھی وہ سب محفوظ ہیں۔ وہ فنڈ ریزنگ اور براڈ شیٹ کے معاملات سے فرصت پائیں تو ادھر دیکھیں۔
اسلام آباد کے ایک متمول علاقے میں واقع کیفے کی یہ ویڈیو مختصر ہے۔ کیفے کی مالک دو خواتین مرکزِ نگاہ ہیں۔ متمول گھرانوں کی دو اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین‘اور اعلیٰ تعلیم یافتہ کا مطلب وہی ہے جو اب ہمارے معاشرے میں سمجھا جاتا ہے ‘یعنی غیر ملکی لہجے میں فرفر انگریزی بولنا خواہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔وہ اپنے ملازم سے مخاطب ہیں جو کیفے کا منیجرہے۔ اسے آواز دے کر بلاتی ہیں ‘بتاتی ہیں کہ کیفے میں یہ ان کا پہلا ملازم تھا۔وہ ناظرین سے اپنا تعارف کرانے کو کہتی ہیں ‘منیجرکیمرے کی طرف رخ کرکے غلط انگریزی میں اپنا نام اور کیفے میں منیجر ہونے کے بارے میں بتاتا ہے۔بتاتا ہے کہ وہ نو سال سے کیفے میں اسی جاب پر ہے۔سوال کرنے پرٹوٹے پھوٹے لہجے میں بتاتا ہے کہ وہ انگریزی زبان سیکھنے کے تین کورسز کرچکا ہے جن میں ہر ایک کا دورانیہ چھ ماہ تھا۔خواتین اس سوال جواب کے بعد ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ اس منیجر کی بڑی اچھی تنخواہ ہے۔ (لیکن صورتحال یہ ہے)۔اور ویڈیو اس کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔وہ واضح طور پر اس شخص کا پوری ویڈیو میں مذاق اڑا رہی ہیں۔اصل مقصد اس ملازم کے غلط انگریزی بولنے پر طنز کرنا ہے۔
یہ ویڈیو وائرل ہوگئی۔کچھ ٹی وی چینلز نے بھی اسے دکھایا۔ لوگوں نے اس ملازم کو اس طرح کیمرے کے سامنے مضحکہ بنانے کا بجا طور پر برا مانا۔ یہ معاملہ اس حد تک بڑھا کہ خواتین کواپنے کیفے کی طرف سے اس معاملے پر معذرت کرنا پڑی اگرچہ یہ معذرت بھی نیم دلانہ ہے اور کہا گیا ہے کہ دراصل یہ سب ہنسی مذاق کی بات تھی اور کسی کی دل آزاری مقصود نہیں تھی۔ اور اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ معذرت خواہ ہیں۔ لیکن اس وضاحت کو قبول نہیں کیا جارہا۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ سب اپنی اور کیفے کی مشہوری کا طریقہ ہے۔ جو انہیں اور کیفے کو نہیں جانتے تھے اب وہ بھی جان گئے ہیں ‘لیکن معاملہ یہ ہو یا نہ ہو ‘سچ یہ ہے کہ یہ ویڈیوہمارے مختلف طبقات کی سوچ اور ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔اور مزید بدقسمتی یہ کہ کوئی ایک ذہنیت بھی ایسی نہیں جس پر خوش ہوا جاسکے۔ بڑے شہروں میں رہنے والا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جس کا باقی ملک اور باقی طبقات کے رہن سہن‘لباس اور زبان سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ان کی تعلیم کا معیار صرف انگریزی زبان ہے اور بہت سی صورتوں میں وہ بھی غلط سلط۔ اس میں مزید بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ برطانوی یا امریکی لہجہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یونیورسٹیاں اور کالج تھوک کے حساب سے وہ مخلوق پیدا کررہے ہیں جو اپنے فن میں کوری ہوتی ہے لیکن بات انگریزی میں کرنا ہی پسند کرتی ہے۔ لباس سے لے کر خوراک تک ملکی اور غیر ملکی برانڈز کے گرد اُن کی زندگی گھومتی ہے کیونکہ اعلیٰ طبقات کی یہی نشانیاں ہیں۔ اس طبقے کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ اس سے اردو کے بارے میں پوچھا جائے تو غرور سے کہا جاتا ہے کہ ہمیں اردو نہیں آتی یا بظاہر اس معذرت خواہانہ جملے میں جس کے پیچھے فخرگونج رہا ہوتا ہے ‘ کہا جاتا ہے کہ معاف کرنا میری اردو کمزور ہے۔ کیا ان میں سے کوئی کبھی انگریزی زبان کے بارے میں یہ کہنے کی غلطی بھی کرسکتا ہے کہ میری انگریزی کمزور ہے؟ جب اردو کا یہ حال ہے تو دیگر پاکستانی زبانوں پنجابی ‘ پشتو‘بلوچی ‘ سندھی‘ سرائیکی اور ہندکو وغیرہ کے بارے میں آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔
ان خواتین نے کئی سوال اپنے منیجرسے کیے۔میرے خیال میں اس منیجر کا بھی ان سے کچھ سوال کرنا بنتا ہے جو کہ اس نے نہیں کیے۔ اس کی تو یہ مجال نہیں ہوگی لیکن ہم جو ان خواتین کے ملازم نہیں ہیں‘ یہ سوال پوچھ لیتے ہیں؟ مثلا یہ کہ اسلام آباد کے اس کیفے میں فرفر انگریزی بولنا منیجر کیلئے کیوں لازمی ہے۔ کیا اس شہر میں کوئی اردو نہیں سمجھتا؟ اور کیا کسی کیفے میں اچھے انتظام‘ اچھی سروس‘اچھی کافی ‘چائے‘کیک اور سنیکس کی کوئی اہمیت نہیں؟ صرف زبان کی اہمیت ہے؟ اگر یہ شخص نو سال سے اس جگہ پر کام کر رہا ہے جو اچھی خاصی مدت ہوتی ہے اور اس عرصے میں اسے نوکری سے نکالا نہیں گیا توکیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی کارکردگی اطمینان بخش ہے؟ تو پھر اس کارکردگی کی تعریف کہاں ہے؟اور اگر وہ تعریف کے قابل نہیں ہے تو کیا صرف تضحیک کے قابل ہے ؟
خواتین نے اپنے معذرتی بیان میں کہا ہے کہ یہ صرف ہنسی مذاق کی بات تھی۔ جس کسی نے وہ ویڈیو دیکھی ہے وہ جان سکتا ہے کہ اس میں تمسخر اڑانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ لیکن مان لیجیے کہ یہ مذاق ہے۔یہ سوال بھی بنتا ہے کہ جس طبقے سے آپ کا تعلق ہے کیا وہ اپنے ملازمین سے ہنسی مذاق کا رشتہ رکھتا ہے؟ یہ طبقہ تو اگر ملائم لہجے میں اپنے ماتحتوں سے بات کرلے تو وہ بھی بڑی غنیمت کی بات ہے‘کجا بے تکلفی۔ او رپھر یہ کیسی بے تکلفی اور مذاق جو صرف یک طرفہ ہے؟ منیجر کی مجال نہیں کہ جوابی مذاق کرتے ہوئے پوچھ لے کہ خواتین! آپ اچھی اردو میں اپنے تعارف کا ایک جملہ بول دیں تاکہ آپ کی زبان دانی کا علم ہو۔یا کسی اور پاکستانی زبان کا جملہ ٹھیک سے ادا کردیں۔ زبان تو صرف زبان ہے انگریزی ہی کیوں ؟ اردو کیوں نہیں ؟اور مان لیجیے کہ کوئی ملازم نا اہل بھی ہے‘ آپ کی مرضی کا بھی نہیں اور تعلیم میں بھی کورا ہے۔یہ بھی مان لیجیے کہ آپ کسی مجبوری یا غلطی کی وجہ سے نو سال سے اسے برداشت کر رہی ہیں۔ تب بھی آپ کوزمانے میں اس کا تماشا بنانے کا کیا حق ہے ؟ اس کے ماں باپ ‘بہن بھائی‘بیوی بچے ‘ دوست احباب کے سامنے لفظی طمانچے مارنے کااستحقاق کیسے ہے آپ کے پاس؟ کیا ان کے دل نہیں ہوتے یا وہ جذبات سے عاری ہوتے ہیں؟ معاشی مجبوری بہت سی کڑواہٹیں برداشت کرواتی ہے جو ان خواتین کے ہاتھوں اس شخص کو پہلے بھی پیش آتی رہی ہوں گی لیکن سارے سوال خواتین سے کرنے کے نہیں ان صاحب سے بھی کرنے کے ہیں۔ اگر ڈیڑھ سال انگریزی زبان کے کورسز کرنے کے بعد ایک جملہ بھی ادا کرنا نہیں آسکا تو اس کا حاصل؟ تو سیکھا کیا آپ نے؟ پھر اس بے معنی مشقت کی ضرورت؟ بہتر نہ ہو کہ کسی ایسے ریسٹورنٹ میں ملازمت ڈھونڈ لی جائے جہاں اردو میں بات کرنا عیب نہ ہو؟
اور آخر میں ایک سوال انگریزی زبان سکھانے والے اداروں اور اکیڈمیوں سے جو کھمبیوں کی طرح ہر سڑک ‘ہر فٹ پاتھ پر اُگی ہوئی ہیں۔ یہ آپ کے سامنے آپ کی تعلیم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ شخص اپنی قابلیت ہی نہیں بتا رہا‘ آپ کے پردے بھی چاک کر رہا ہے۔ تین کورسز پاس کرکے آنے والا آپ کا یہ شاگرد اگر ان اداروں کے نام بھی بتادے تو آپ کی مشہوری بھی ہوجائے۔ کیا خیال ہے ؟ خون اُبلنا بند نہیں ہورہااور درد میں کمی نہیں ہورہی۔ نوکیں بری طرح کھبی ہوئی ہیں۔ متعدد نوکوں والے مہلک ہتھیار کو کیا کہتے ہیں ؟آپ کو پتہ ہو تو مجھے بھی بتائیے۔