''خلائی مخلوق‘‘ کا ان دنوں بہت چرچا ہے۔ پہلے تو یہ ذکر صرف سائنس دانوں اور کائنات کے اسرار و رموز سے دل چسپی رکھنے والوں کے درمیان تھا‘ اب ہماری سیاست کی اصطلاحات میں بھی یہ لفظ شامل ہے۔ لیکن ابھی اسے چھوڑیے۔ سچ یہ ہے کہ انسان نے جب سے اس زمین سے باہر سر نکالا اور اسے اس بیکراں کائنات کا کچھ کچھ اندازہ ہوا، یہ سوال اس کے ذہن کے مدار میں سیارے کی طرح گردش کرتا رہا ہے کہ آیا اس کائنات میں کسی اور جگہ بھی زندگی موجود ہے؟ کسی بھی قسم کی زندگی؟ کسی بھی شکل کی مخلوق؟ (ذہین مخلوق کی بات تو اس سے آگے ہے)۔ یا انسان اس بے کراں دشت میں تنہا ہے؟ وہ جو اقبال کا احساس ہے ؎
یہ گنبدِ مینائی، یہ عالمِ تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
تو اس سوال کا جواب ہمیشہ تلاش کیا جاتا رہا ہے۔ میری طرح بہت سے لوگوں کو اس تلاش اور اس سے متعلقہ خبروں سے دل چسپی ہے۔ اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ ایک چونکا دینے والے انکشاف کے مطابق چاند کی سطح سے پانی کے بخارات فضا میں بلند ہو رہے ہیں تو آپ اس بات کو یقینا غلط سمجھیں گے لیکن یہ بات غلط نہیں ہے۔ چاند کی سطح کے نیچے ایک بہت عظیم سمندر موجود ہے اور سطح پر ایک جگہ ایک شگاف سے اس سمندر کا پانی بخارات کی شکل میں سینکڑوں میل تک فضا میں بلند ہو رہا ہے۔ سائنس دان توقع کر رہے ہیں کہ ان بخارات تک پہنچ سکیں تو اس زیرِ سطح سمندر میں ممکنہ طور پر پائے جانے والی زندگی کے شواہد مل سکیں گے۔
آپ بھی میری طرح چونک گئے نا؟ بات چونکنے کی ہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ چاند زمین کا چاند نہیں، نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری کا چاند ''یوروپا‘‘ ہے۔ یہ بات 1997 کے اواخر کی ہے جب ناسا کا خلائی جہاز ''گلیلیو‘‘ مشتری سیارے کے چاند یوروپا کے قریب دو سو کلو میٹرکے فاصلے سے گزرا تھا اور اس کی تصاویر کھینچی تھیں۔ اس وقت بخارات کے اس بادل کی تصویریں بھی زمین پر بھیجی گئی تھیں‘ جس سے یہ خلائی جہاز گزرا تھا، لیکن ایک سرسری نظردیکھ کر اس کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ 15 مئی 2018 کو اس پرانے ذخیرے کا جائزہ لیتے ہوئے کسی سائنس دان کی نظر اس پر مرکوز ہو گئی۔ ہوا یہ کہ حال ہی میں ''ہبل‘‘ دوربین نے 2012 میں، پھر دوبارہ 2014 میں، اور پھر 2016 میں ایسے سگنلز بھیجے جن سے بخارات کا فوارہ ظاہر ہوتا تھا۔ ہبل ہی نے یوروپا کے مقناطیسی میدان میں ایک معمولی سا خم محسوس کیا؛ چنانچہ پرانے ذخیرے نکالے گئے اور تمام تجزیوں کے بعد یہ اندازہ قائم کیا گیا کہ یوروپا کی سطح پر ایک شگاف سے زیر زمین پانی کا ایک فوارہ بخارات کی شکل میں سینکڑوں میل فضا میں بلند ہو رہا ہے۔ یہ تحقیق کچھ عرصہ قبل ''نیچرل اسٹرانومی‘‘ (Natural Astronomy) نامی فلکیات کے رسالے میں شائع ہوئی اور دنیا کے بڑے بڑے اخبارات نے اس پر مفصل خبریں اور مضامین شائع کیے ہیں‘ لیکن ٹھہریے پہلے یہ دیکھ لیں کہ یوروپا نامی یہ چاند ہے کہاں اور اس کی خصوصیات ہیں کیا۔
نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری کو اردو محاورے کے مطابق چار چاند لگے ہوئے ہیں‘ یعنی مشتری کے گرد چار چاند گھومتے ہیں۔ ان چار چاندوں میں سے یوروپا سب سے چھوٹا چاند ہے۔ نظام شمسی کے جتنے چاند ہیں ان میں یہ چھٹا بڑا چاند ہے۔ 3100 کلومیٹر نصف قطر والے اس چاند کی عمر کم و بیش اتنی ہی ہے جتنی مشتری کی عمر یعنی ساڑھے چار ارب سال۔ مشتری سے اس کا فاصلہ سات لاکھ کلو میٹر ہے۔ یہ مشتری کا ایک چکر زمینی وقت کے مطابق ساڑھے تین دن میں لگا لیتا ہے اور اپنا ایک ہی رخ مشتری کی طرف رکھتا ہے۔ زمین سے اس کا فاصلہ 628.3 ملین کلو میٹر ہے۔ ''گلیلیو گلیلی‘‘ نے 1610 میں یہ چاند دریافت کیا اور کریٹ کے شاہ ''مینوس‘‘ کی مشہور زمانہ ماں یوروپا کے نام پر اس چاند کا نام رکھا۔ زمین کے چاند سے یہ چاند قدرے چھوٹا ہے۔ بظاہر لوہے اور دھات سے بنی ہوئی سطح پر 15 سے 25 کلو میٹر موٹی برفانی تہہ ہے۔ اس کی فضا میں آکسیجن نمایاں اور غالب عنصر ہے۔ نظام شمسی میں موجود اجرام میں یوروپا کی سطح سب سے ہموار ہے اور اس میںگڑھے کم پائے جاتے ہیں۔ کاربن بھی یوروپا میں اہم عنصر ہے۔ یوروپا کی فضا اور زمین میں وہ اجزا موجود ہیں جن کی موجودگی میں زندگی ممکن ہو سکتی ہے؛ چنانچہ ان ممکنہ سیاروں میں‘ جن پر زندگی ایک امکان رکھتی ہے، یوروپا بہت پہلے سے اہم مقام رکھتا تھا۔ بہت سے شواہد مل کر سائنس دانوں کو اس نظریے کی طرف لے گئے کہ اس موٹی برفانی تہہ کے نیچے ایک عظیم سمندر موجود ہے اور چونکہ یہ سمندر یوروپا کا وہ حصہ ہو گا جہاں درجہ حرارت بہتر ہے اس لیے وہاں زندگی بھی موجود ہو سکتی ہے۔ اندازہ ہے کہ زمین پر عظیم ٹیکٹونک پلیٹوں کی طرح یوروپا پر بھی برفانی تہہ میں جنبش ہوتی رہتی ہے اور ایسے ہی ایک شگاف سے سمندر کا پانی گیزر یا فوارے کی شکل میں بخارات بن کر سو کلو میٹر تک فضا میں بلند ہو رہا ہے۔
یوروپا کے اس سمندر کی گہرائی چالیس سے سو میل کے درمیان ہو سکتی ہے۔ یہ بات قطعیت کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ اس سمندر میں زندگی موجود ہے لیکن یہ بہت امکان ہے کہ جیسے ایک نظریے کے مطابق زمین پر موجود گہرے سمندروں میں زندگی کا آغاز ہوا تھا، ویسے ہی یوروپا کے سمندر میں‘ جس میں پانی کی مقدار زمین پر موجود تمام سمندروں کے پانی سے زیادہ ہے، زندگی پل رہی ہو یا برف کی نچلی تہہ سے چمٹی ہوئی شکل ہو جیسے زمین کے قطبین میں بیکٹیریا اور کائی (algae) کی طرح کی شکل میں ہو۔ یوروپا کے سمندر کے علاوہ اس کی سطح پر جھیلوں کے بھی شواہد ملتے ہیں اور یہ بھی زندگی کی کسی شکل کی نرسریاں ہو سکتی ہیں۔
2010 میں یونیورسٹی آف اری زونا کے ڈاکٹر رچرڈ گرین برگ نے یوروپا کا ایک ماڈل بنایا تھا۔ جس کے مطابق ''ہائیڈروجن پر اوکسائیڈ‘‘ (Hydrogen peroxide)، جو بالآخر آکسیجن میں تبدیل ہو جاتی ہے، اور ٹیکٹونک پلیٹس کے تعامل سے صورت حال کم و بیش ویسی ہی ہو گی جیسے بارہ ملین سال پہلے زمین کی تھی اور جس میں خوردبینی اور مالیکیولر زندگی کا آغاز ممکن ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ستمبر میں مشن مکمل کرنے والے ناسا کے خلائی جہاز ''کیسینی‘‘ (Cassini) نے 2010میں زحل کے چاند ''انکلاڈس‘‘ (Enceladus) کی بھی تصاویر بھیجی تھیں جن میں اس کی سطح پر کرسٹل کی شکل میں گیزرز کا مشاہدہ کیا گیا تھا اور یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ انکلاڈس کی سطح کے نیچے سمندر موجود ہے۔
یہ ساری باتیں ہم جیسے دور سے دیکھنے والے کے لیے دل چسپ ہیں تو سائنس دانوں کی بے تابی کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں؛ چنانچہ جون 2022 میں ''یوروپا کلپر‘‘ (Europa clipper) کے نام سے ایک خلائی جہاز بھیجنے کی تیاری ہو رہی ہے جو بہت قریب سے ان بخارات کا مشاہدہ اور تجزیہ کرے گا اور کیا نتائج نکلیں گے؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اقبال ہی کا شعر یاد آتا ہے؎
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا