"SUC" (space) message & send to 7575

ہوش ترمذی

پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ کینٹ کے آڈیٹوریم میں مشاعرہ جاری تھا۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا، وہی کچھ جو کل پاکستان اور اچھے مشاعروں میں ہوا کرتا ہے۔ لیکن اچانک میں مشاعرہ گاہ میں بیٹھا ہوا منجمد سا ہوگیا۔ ایک دیکھا بھالا جانا پہچانا زمانہ ماضی سے مجھے ڈھونڈتا آیا اور جگنو کی طرح جلنے بجھنے لگا۔ مائیک پر ہوش ترمذی کھڑے تھے۔ وہی لانبا قد، تیر کی طرح سیدھا ستواں جسم۔ قدرے گہرا رنگ، بھاری مردانہ لہجہ۔ مرکیاں لیتی کھرج دار آواز۔ غزل کا مخصوص ترنم، چھوٹی بحر کی غزل۔ وہ غزل سرا تھے۔ انہی سب کچھ کے ساتھ جو میرے بچپن کے حافظے میں محفوظ تھا۔
لیکن یہ ہوش ترمذی کیسے ہو سکتے ہیں؟ ان کا تو 17اکتوبر 1970 کو انتقال ہوگیا تھا۔ میرے والد سے بھی پانچ سال پہلے۔ تو پھر یہ 2003 میں واہ کینٹ کے مشاعرے میں کیسے ہو سکتے ہیں؟ اور ان کی عمر بھی لگ بھگ وہی ہے جس میں ان کا انتقال ہوا تھا۔ کوئی ہے جو مجھے برف سے دوبارہ جسم میں تبدیل کرے؟ کوئی ہے جو یہ گتھی سلجھائے؟
ساٹھ کی دہائی میں لاہور کے چار باکمال شاعر بہت قریبی دوست تھے۔ میرے والد زکی کیفی، ہوش ترمذی، کلیم عثمانی اور نظر امروہوی۔ ہر روز یا دوسرے دن ملاقات ہوتی، اکٹھے محفلوں اور مشاعروں میں شرکت کرتے اور ہمیشہ توجہ کا مرکز بنے رہتے۔ ماہرالقادری نے ایک جگہ ان کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ شاعری کے عناصر اربعہ کا اتحاد تھا۔ ہوش ترمذی گہرے سانولے رنگ اور چھریرے بدن کے تھے۔ سگریٹ بھی بہت پیتے تھے (اور'' بھی‘‘ کا لفظ یہاں بہت ضروری ہے)۔ آواز بھاری اور سوز سے چھلکتی تھی اور نسبتاً کم گو تھے۔ جناب نظر امروہوی کا یہ بے تکلفانہ قطعہ بھی ان چاروں سے متعلق سنتے جائیے جو نظر صاحب ہی سے سنا تھا اور شاید کسی جگہ درج بھی نہ ہو۔
یہ جو ہے ہوش ترمذی سا کچھ/ یہ بھی ہے آدمی سا کچھ/ ایسا بگڑا کلیم عثمانی /بن گیا ہوبہو زکی سا کچھ
ہوش ترمذی کرشن نگر (اسلام پورہ) میں رہتے تھے اور ناصر کاظمی کے گھر کے قریب ہی ان کا بھی گھر تھا۔ شاید محکمہ اطلاعات میں کام کرتے تھے۔ میں نے انہیں اپنے گھرمیں اور اپنے والد کے ساتھ بہت دیکھا۔ اس بچے کی آنکھوں کے ویڈیو کیمروں نے ہر فلم الگ خانے میں بہت حفاظت سے سنبھال لی۔ بہت بار سنا‘ اور حافظے کے ٹیپ ریکارڈر نے وہ گھمکتی آواز مرکیوں سمیت محفوظ کرلی۔ ہوش صاحب غزل کے بہت عمدہ شاعر تھے۔ وقت ایسی سفاک چیز ہے کہ بہت سے باکمال صرف تذکروں اور گنے چنے حافظوں میں رہ جاتے ہیں۔ متاع جنوں ان کا شعری مجموعہ تھا جو لاہور کے ایک ناشر نے چھاپا تھا۔ کیسے کیسے شعر کہے انہوں نے، ابھی ان کا دھیان آیا تو ان کی غزل انہی کے ترنم میں گونجنے لگی۔
عرض غم کو ہنر چاہیے ؍ دل کی صورت نظر چاہیے
ایک دیوار ہے زندگی ؍ کوئی شوریدہ سر چاہیے
واعظو! ناصحو! دوستو!؍پہلے اپنی خبر چاہیے
آفریں ہو کہ دشنام ہو ؍ ان لبوں سے مگر چاہیے
ہوش دو دن کی ہے زندگی ؍ بات بھی مختصر چاہیے
جدید غزل کے بڑے شاعر جناب ظفر اقبال کبھی کبھار بہت مہربانی فرماتے رہے ہیں۔ زبانی بھی‘ محفلوں میں بھی اور تحریری بھی۔ کئی کالموں میں میرا محبت سے ذکر کیا اور میری شاعری شامل کی۔ اپنی کوتاہی کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ان کی عنایتوں کے باوجود اور لاہور میں رہنے کے باوجود میری ملاقاتیں اتنی نہیں جتنی ممکن تھیں اور ہونی چاہئے تھیں۔ اس کوتاہی کی ذمے داری مجھ پر عائد ہوتی ہے لیکن دراصل مجھ پر بھی نہیں، میرے مزاج پر ہے جو مجھ سے الگ ایک شخص ہے۔ یادداشت سے اندازاً سال لکھ رہا ہوں۔ 2003 کی بات ہوگی کہ جناب ظفراقبال نے فون کیا اور کہا کہ پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ کینٹ میں ایک کل پاکستان مشاعرہ ہے اور تم نے ضرور شریک ہونا ہے۔ میں نے شکریے کے ساتھ ہامی بھری۔ روانگی سے پہلے میرے کرمفرما جناب شہزاد احمد مرحوم کا فون آیا۔ انہوں نے پوچھا: تم کب اور کیسے واہ کینٹ جاؤ گے؟ میں نے بتایا کہ اپنی گاڑی سے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ہو سکے توساتھ چلتے ہیں، مجھے ساتھ لے لینا۔ یہ سفر بھی الگ پُر لطف داستان ہے۔ شہزاد صاحب کے ساتھ بہت یادیں وابستہ ہیں۔ کئی سفر اور بہت سے مشاعرے ان کا حصہ ہیں لیکن یہ سفر وہ ہے جس میں بس وہ اور میں تھے اور بہت مزیدار واقعات ان سے سننے کو ملے۔ اس کی داستان شہزاد صاحب کے ذکر کے ساتھ سہی۔
اور پھر اس مشاعرے میں وہ لمحہ آیا جس نے منجمد کرکے رکھ دیا۔ مائیک پر ہوش ترمذی کھڑے تھے۔ وہی غزل کا مخصوص ترنم، چھوٹی بحر کی غزل۔ وہ غزل سرا تھے۔ انہی سب کچھ کے ساتھ جو میرے بچپن کے حافظے میں محفوظ تھا۔ ذرا ہوش آیا تو ادھر ادھر پوچھا۔ معلوم ہوا کہ یہ ہوش صاحب کے بڑے صاحبزادے ندیم حیدر ترمذی ہیں جو واہ کینٹ فیکٹری میں ملازمت کرتے ہیں اور وہیں مقیم ہیں۔ مشاعرے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ زکی کیفی صاحب کا حوالہ انہیں یاد تھا سو محبت سے ملے اور شاعر دوستوں کی دوسری شاعر نسل کا ایک بار پھر رابطہ ہوگیا۔
ہوش صاحب 1921 میں انبالہ میں پیدا ہوئے تھے اور 60 کی دہائی کے مقبول شعرا میں سے ایک تھے۔ ان کو جس طرح یاد رکھنا چاہیے تھا، اس طرح یاد رکھا نہیں گیا اور یہ تحریر اور یہ انتخاب انہیں یاد کرنے ہی کی ایک کوشش ہے۔ اور یہ تو ممکن نہیں کہ انہیں یاد کریں اور ان کے شعر یاد نہ آجائیں۔ صرف شعر نہیں! مجھے تو اب تک بعض غزلیں پوری کی پوری یاد ہیں۔
یادیں چلیں، خیال چلا، اشکِ تر چلے
لے کر پیامِ شوق کئی نامہ بر چلے
دل کو سنبھالتے رہے ہر حادثے پہ ہم
اب کیا کریں کہ خود ترے گیسو بکھر چلے
ہر گام پہ شکست نے یوں حوصلہ دیا
جس طرح ساتھ ساتھ کوئی ہمسفر چلے
شوقِ طلب نہ ہو، کوئی بانگِ جرَس تو ہو
آخر کوئی چلے، تو کِس اُمید پر چلے
اب کیا کرو گے سیرِ سمن زارِ آرزو
رُت جا چُکی، چڑھے ہُوئے دریا اُتر چلے
راہوں میں ہوش سنگ برستے ہیں ہر طرح
لے کر یہ کاروانِ تمنّا کدھر چلے
......
دیکھے ہیں جو غم دل سے بھلائے نہیں جاتے
اک عمر ہوئی یاد کے سائے نہیں جاتے
اشکوں سے خبردار کہ آنکھوں سے نہ نکلیں
گر جائیں یہ موتی تو اٹھائے نہیں جاتے
ہم بھی شب گیسو کے اجالوں میں رہے ہیں
کیا کیجیے، دن پھیر کے لائے نہیں جاتے
یہ سطریں لکھتے لکھتے ایک دم دل گرفتہ ہوگیا۔ کیا لوگ تھے کہ عمر شعروادب کے لیے وقف کردی ۔ ہنروری میں اپنی مثال آپ بنے اور زمانہ انہیں فراموش کرکے آگے بڑھ گیا۔ اور یہ تو رہا الگ۔ وہ لوگ بھی جنہوں نے وہ دنیا دیکھی تھی۔ وہ سب لوگ، وہ ہنرور دیکھے تھے، ایک اور دنیا میں منتقل ہوگئے جو پرانی دنیا سے متصل تو ہے لیکن ہے بہت مختلف، بہت الگ۔ ریاض خیر آبادی نے کہا تھا ؎
ہر شام ہوئی صبح کو اک خواب فراموش
دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں