دل شکن اور برے حالات میں بھی کوئی شخص ایسا جملہ سنا دیتا ہے کہ ایک لمحے کے لیے ساری تلخیاں بھول کر ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والا ایسا ہی ایک جملہ آپ بھی سن لیجیے۔ کہنے والے نے کہا: میرا مشورہ ہے‘ ایک پاکستانی کے ناتے سینیٹ کا نام تبدیل کر کے کون بنے گا کروڑ پتی رکھا جائے۔ اور اس جملے کے ساتھ انور مسعود کا وہ شعر بھی شامل کر لیں جو برسوں پہلے اسی قسم کی صورت حال پر کہا گیا تھا:
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
گھوڑوں کی طرح بکتے ہیں انسان وغیرہ
سنتے ہیں کہ اس بار چھانگا مانگا کا جنگل بہار میں ہرا ہو گیا۔ اس بار سب سے اونچے ایوان میں معرکہ بپا ہوا اور اس وقت اسی کی گونج ہر طرف ہے‘ لیکن یہ معرکہ اگلے معرکے کا پیش خیمہ نکلا۔ جب تک یہ سطور آپ تک پہنچیں گی قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لیے جانے کا مرحلہ طے ہو چکا ہوگا‘ اور بظاہر عمران خان اس میں سرخرو ہوجائیں گے‘ لیکن کوئی ہارے یا جیتے، ہار تو دراصل میری اور آپ کی ہوتی ہے۔ وہ ہم اور آپ‘ جو توقع کرتے ہیں کہ اتنے بڑے عہدوں پر وہ لوگ پہنچیں گے جو ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوں، ترغیب اور خوف سے بالا ہوں اور پیسے کے لیے اپنی رائے نہ بیچتے ہوں۔ دراصل ہار تو میری اور آپ کی ہوتی ہے۔ ہماری یہ شکست مسلسل ہے، حالیہ موجودہ سینیٹ کا انتخاب تو اس تسلسل کی ایک کڑی ہے اور بس۔
کہتے ہیں کہ حمام میں سب ننگے ہیں‘ لیکن اب اس برہنگی کے لیے حمام کی شرط بھی نہیں رہی کہ کم از کم حمام میں برہنگی کا کوئی جواز تو ہوتا ہے۔ کیا انتہا ہے کہ ایک امیدوار کے بیٹے کی ویڈیو وائرل ہوتی ہے۔ وہ اس ویڈیو میں اپنی موجودگی کا اقرار کرتا ہے لیکن کہتا ہے کہ ووٹ مانگنا ہمارا حق ہے جبکہ ویڈیو میں ووٹ مانگنے کی بات نہیں ووٹ خراب کرنے کی بات ہورہی ہے۔ دین، اخلاقیات، قواعد، اعلیٰ روایات سب ایک طرف دھر کر اس بات پر خوشی منائی جارہی ہے کہ ہم نے مخالف امیدوار کو ہرا دیا۔ حکومتی ارکان ہم نے توڑ لیے۔ کیسے توڑے؟ یہ وہ راز ہے جو ہر ایک کو معلوم ہے اور جس کی دہائی دہائیوں سے جاری ہے۔ نہ اس بات پر شرمندگی کہ ہم نے ارکان کی بولیاں لگائیں، نہ اس کا قلق کہ آخری نتیجہ ہر اخلاقی اصول کو پاؤں تلے روند کر حاصل کیا گیا ہے۔ ذہن بس وہی ہے کہ جائز یا ناجائز ہر طریقے سے جیتنا ہے خواہ اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ اگر جیت گئے تو بس یہ کامیابی جشن منانے کی ہے۔ اخلاقیات کون سی ایسی چیز ہیں جن کا ماتم کیا جائے۔ ماتم کرنے کے لیے بائیس کروڑ لوگ جو ہیں۔
اور یہ ذہنیت کسی ایک جماعت کی بھی نہیں۔ ہماری جمہوریت نے یہی سبق دیا ہے امیدواروں کو، کہ اس میں سب کچھ جائز ہے۔ جب 2018 کے انتخاب سے قبل عمران خان الیکٹ ایبلز کو جہانگیر ترین کے ذریعے کھینچ رہے تھے تو کیا امیدوار اصولوں کی بنیاد پر ان کے ساتھ شامل ہورہے تھے؟ سینیٹ کے انتخاب میں جو کچھ پہلے ہوتا رہا‘ کیا وہ اخلاقیات کی پاسداری تھی؟ بائیس سالہ جدوجہد کے بعد جب پارٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ روم میں وہی کرو جو رومن کرتے ہیں‘ جیتنے والے گھوڑے شامل نہ کیے تو مزید پچاس سال بھی باگ ڈور سنبھالنے کا کوئی امکان نہیں تو یہ سب کچھ تو ہونا تھا۔ جو لوگ کسی چمک، کسی اثرورسوخ، کسی دباؤ کے تحت آپ کے ساتھ شامل ہوتے ہیں، ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ بعد کی کسی چمک سے آنکھیں پھیر لیں گے اور وفاداری نبھائیں گے، ایک عبث توقع ہے۔ سو یہ وہی تیر ہے جو ہر پھینکنے والے کو خود بھی آلگتا ہے۔
سب جانتا ہوں پھر بھی کتنا دکھ ہوا اس صورتحال کے بعد کامیابی کا جشن منانے والوں کو دیکھ کر۔ اس میں پیپلز پارٹی بھی ہے، نون لیگ بھی اور جے یو آئی (ف) بھی۔ ایک سے ایک اصولوں کی پاسداری کے دعوے دار اور ان کے درس دینے والے۔ ہر ایسے نازک مرحلے میں سب کی قلعی کھل جاتی ہے۔
اور یاد رہے کہ یہ سب لوگ قانون ساز ادارے کا انتخاب لڑ رہے تھے۔ جیت کر یہ وہ قوانین بنائیں گے جس کا بائیس کروڑ لوگوں پر نفاذ ہوگا۔ آپ اور ہم سب جانتے ہیں کہ ہر قابل سزا جرم میں مجرم اور وکیل‘ دونوں ایسے سقم تلاش کرتے پھرتے ہیں جن کے ذریعے وہ صاف بچ نکلیں۔ بہت سی جگہوں پر یہ سقم مل بھی جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان بنیادوں پر بھی بری ہو جانے والے جشن منایا کرتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کر وہ کیسے جرم میں ملوث تھے اور درحقیقت مجرم بھی تھے۔ راستہ انہیں مل گیا اور وہ باہر نکل آئے تو بس یہ بات جشن کے لیے کافی ہے۔ کیا ان لوگوں کے جشن اور پیسہ لگا کر ووٹ خریدنے والوں کے جشن میں کوئی فرق ہے؟
خان صاحب کا بنیادی مؤقف اس بار درست تھا۔ پیسہ لے کر ووٹ بیچنے والوں کا راستہ بند ہونا چاہیے۔ قانون جو بھی ہو، یہ مؤقف بالکل ٹھیک ہے‘ لیکن جن جماعتوں کے لوگ خان صاحب نے توڑے اور ان کے یہ زخم ابھی تازہ ہیں، ان کے پاس یہی دلیل ہے جو بلا جواز بھی نہیں کہ یہ مؤقف پی ٹی آئی کے مفاد میں ہی کیوں درست ہے۔ دوسری جماعتوں کے لیے کیوں نہیں؟ یہ جوڑ توڑ جب اور معاملات میں ہورہا ہوتا ہے تب غلط کیوں نہیں ہوتا؟ اب یہ تازہ زخم کھاکر خان صاحب نے جو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس پر مختلف تبصرے ہورہے ہیں۔ کوئی اسے عجلت میں کیا فیصلہ سمجھتا ہے اور کوئی پارٹی مشورے کے بغیر خان صاحب کا ذاتی فیصلہ۔ بہرحال یہ ایک غیر متوقع قدم ہے جس سے اپوزیشن کی یہ کامیابی نہ صرف برابر ہو جائے گی بلکہ پی ڈی ایم کی طرف سے ممکنہ تحریک عدم اعتماد (جس کی باتیں پی ڈیم ایم کے پلیٹ فارم سے ہوتی رہی ہیں) کا راستہ بھی بند ہو جائے گا۔
لیکن معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ خان صاحب کے یہ ووٹ ان کے مخالف کیمپ میں کیوں گئے؟ یہ بات سوچنے کی ہے۔ اصل بات وہی چمک ہے جس کی بات اوپر ہوچکی ہے لیکن یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان کے کچھ ارکان اسمبلی ان سے فاصلے پر چلے گئے ہیں۔ یہ شکایت عام ہے کہ وزیر اعظم سے ملنا ان کے ارکان اسمبلی کے لیے ممکن ہی نہیں رہا اور وہ ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ کو وہ اہمیت ہی نہیں دیتے جو انہیں اس نظام میں رہتے ہوئے دینی چاہیے۔ یہ شکایت جائز نظر آتی ہے۔ ایک اور سبب امیدوار کی نامزدگی ہے۔ فرض کیجیے کہ میں پی ٹی آئی کا رکن اسمبلی ہوں اور میرے سامنے یہ امتحان آپڑتا ہے کہ وزیر اعظم نے جو امیدوار نامزد کیا ہے، اسے میں اس عہدے کے لیے نااہل سمجھتا ہوں یا اس سے بے شمار شکایات ہیں، تب پارٹی کی ہدایت کے باوجود میں اسے ووٹ کیسے دوں گا؟ اگر نااہل امیدوار ہو تو کسی چمک، اثرورسوخ اور دباؤ کی موجودگی نہ ہو لیکن ضمیر کی موجودگی ہو تو اسے ووٹ کیسے دیا جائے؟ میں اس کی مثال ایسی سمجھتا ہوں کہ خان صاحب کے وزرا میں کئی ایک نام ایسے ہیں جنہیں ایسے کسی عہدے کے لیے نامزد کیا جائے تو میں کبھی اور کسی حالت میں انہیں ووٹ دینے پر راضی نہ ہوں جبکہ پارٹی ڈسپلن اس کا تقاضا کرتا ہو بلکہ اس سے روگردانی پر غداری اور بے وفائی کے لیبل لگتے ہوں‘ تو اس صورت میں راستہ کیا ہے؟ کیا پارٹی سے الگ ہوجانا اور رکنیت سے استعفیٰ دے دینا؟ کتنے ہوں گے جو اس آزمائش پر پورے اتر سکتے ہیں؟ لیکن اس وقت تو آزمائش خان صاحب کی ہے۔ وہ اپنے ارکان اسمبلی اور اپنے حامیوں کو کتنا باندھ کر رکھ سکتے ہیں؟ ہو گا یا نہیں ہوگا۔ سوال یہی تو ہے۔