بات پرانی ہے بلکہ خاصی پرانی۔مشہور عالمی شہرت یافتہ جاپانی پہلوان انتونیو انوکی کی کشتی بھولو پہلوان کے گھرانے کے پہلوان اکرم عرف اکی سے مقرر ہو گئی۔ کیوں طے ہوئی جبکہ فن الگ الگ تھے، یہ سمجھ نہیں آئی؟ انوکی فری سٹائل ریسلنگ کا پہلوان تھا جبکہ اپنے پہلوان دیسی طرز کی کشتی کے ماہر۔ دونوں کشتیوں کے طریقے، قاعدے اور ضابطے بھی الگ الگ تھے۔ خیر کشتی ہوئی تو کچھ دیر کی پنجہ آزمائی کے بعد انوکی نے اکی کا بازو اپنے مشہور انوکی لاک میں پھنسا لیا۔ انہوں نے نکلنے کیلئے زور لگایا اور اسی زور آزمائی میں ان کے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ بعد میں ایک ٹی وی نمائندے نے پاکستانی پہلوان کا انٹرویو کیا جن کا تکیہ کلام تھا‘ سمجھ آئی۔ ہر جملے یا دو جملوں کے بعد پہلوان یہ تکیہ کلام فٹ کرتا تھا۔ انٹرویو کا اختتام کچھ اس طرح تھا: میں زور لایا تے مری بازو ٹٹ گئی‘ سمجھ آئی؟ (میں نے زور لگایا تو میرا بازو ٹوٹ گیا‘ سمجھ آئی؟) انٹرویو کرنے والے نے پوچھا: جناب! آپ کو سمجھ آئی؟ بولے: ہاں جی‘ سمجھ آئی۔
کل بازار سودا سلف لینے گیا اور آٹے دال کا بھاؤ پتا چلا تو مجھے بھی سمجھ آئی۔ ایسی ہولناک مہنگائی کبھی دیکھی نہ تھی‘ بلکہ درست جملہ یوں ہوگا کہ ایسی ہولناک مہنگائی کبھی اپنے ہاتھوں خریدی نہ تھی۔ کس کس چیز کی بات کریں کہ کوکنگ آئل سے لے کر مرغی کے گوشت تک ہر چیز مائل پرواز ہے اور پرواز بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور جو ہاتھ بلند کرکے انہیں پکڑنا چاہے تب بھی ممکن نہیں۔ کس کس چیز کی تاویل کی جائے۔ دسمبر‘ جنوری میں انڈے ڈھائی سو روپے درجن ہوئے تو تاویل تھی کہ سردیوں کی وجہ سے طلب زیادہ ہے اور انڈے دینے والی مرغیوں کا فلاک پولٹری فارمرز نے اس لیے اس سیزن میں نہیں ڈالا تھا کہ پچھلے سیزن میں قیمت اچھی نہیں ملی تھی۔ نیا فلاک آئے گا تو قیمت کم ہوجائے گی۔ مرغی کے گوشت مہنگا ہونے کی بھی ایسی ہی تاویل تھی۔ چینی، آٹا، سبزیاں، دیگر اشیائے خورونوش کم و بیش سب کا یہی حال ہے۔ کم قیمت بازار اور یوٹیلٹی سٹورز عملاً بیکار ہیں کہ ہر ایک وہاں پہنچ نہیں سکتا۔ پہنچ جائے تو تمام چیزیں ایک جگہ نہیں مل پاتیں۔ سو ٹکریں مارکر دوبارہ اسی بازار کا رخ کرنا ہوتا ہے جس پر نفرین بھیج کر ادھر گئے تھے۔ پھر یہ جملہ یاد آتا ہے: سمجھ آئی؟
کبھی آپ نے ایسا شخص دیکھا ہے جو زور زور سے کسی کامیابی پر ہنس رہا ہو اور اسی دوران، اسی لمحے اس پر سکتہ طاری ہو جائے؟ پی ٹی آئی کے حامیوں کا یہی حال ہوا۔ ابھی وہ حکومت سنبھالنے کی خوشی ہی منا رہے تھے کہ ان پر سکتہ سا طاری ہوگیا۔ سمجھ آئی؟ ہم جیسے عمران خان کے سپورٹرز، جو اگرچہ کسی خوش فہمی کا شکار نہیں تھے، لیکن یہ ضرور سمجھتے تھے کہ خان صاحب بڑی تبدیلی کی صلاحیت رکھتے ہیں (یہ توقع پہلے بھی بے بنیاد نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے) مہنگائی کی صورتحال دیکھ کر ہمیں بھی یہی کہنا پڑتا ہے کہ ہاں جی‘ سمجھ آئی۔
حکومت کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے بہت سے معیار ہوتے ہیں۔آپ باقی سب معیاروں کو چھوڑ دیں‘ صرف مہنگائی کو ہی لے لیجئے کہ فی الحال اس تحریر میں یہی مقصود ہے۔ اس وقت ہر شعبے سے جو چیخیں بلند ہورہی ہیں، کیا انہیں سننے کیلئے آلۂ سماعت لگانا پڑتا ہے؟ کون سا بازار اور کون سی مارکیٹ ہے جس میں لوگ بقا کی جنگ نہیں لڑ رہے‘ اور وہ بھی ایسے عالم میں جب کورونا نے لوگوں کا نکلنا محال کیا ہوا ہے اور بازار سرد پڑے ہیں۔ یہ سرد بازاری ویسے تو پی ٹی آئی کی حکومت کے آتے ہی طاری ہوگئی تھی کہ سامنے ایک سمندر نظر آنے لگا تھا جسے عبور کرنا لازمی ہو۔ ڈالر کی قیمت کچھ ہی دنوں میں لمبی چھلانگیں لگاکر لگ بھگ 170 تک پہنچی تو وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ ہر وہ چیز جو ڈالر اور درآمد سے وابستہ تھی وہ ڈالر کی قیمت سے بھی اوپر نکل گئی اور اسی کی آڑ میں وہ چیزیں بھی جن کا تعلق ڈالر سے سرے سے تھا ہی نہیں۔ اب ڈالر بتدریج نیچے آکر 157 پر ہے لیکن اب کسی چیز کی قیمت کم ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں۔
کاروبار کی دنیا میں میرا تعلق اس شعبے سے ہے جو اس لحاظ سے تو بہت خوش قسمت شعبہ ہے کہ اس میں علم سے وابستگی رہتی ہے یعنی کتاب کی دنیا۔ کتاب کی وہ دنیا جو ایک طرف کاغذ اور اشاعت کے دیگر ضروری وسائل سے جڑی ہوئی ہے‘ دوسری طرف مصنفین اور قارئین سے‘ لیکن اس لحاظ سے یہ بدقسمت شعبہ ہے کہ ایک عشرے سے اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے۔ انٹرنیٹ، مفت بے اجازت پی ڈی ایف، کتابوں کی جعلی اشاعت جیسے سنگین مسائل کا سامنا کرتے ہوئے اسے کووڈ19 سے مقابلہ پیش آگیا۔ ابھی اس سے نہیں نکلے تھے کہ ڈالر کی وجہ سے حقیقی اور مصنوعی مہنگائی نے اسے تباہ کرکے رکھ دیا۔ وہ چند چیزیں جو کسی کتاب کی اشاعت اور ترسیل کے لیے مختلف مراحل میں لازمی ہیں، انہیں ایک نظر دیکھیے۔ ٹریسنگ پیپر یا بٹر پیپر، کتاب کا کاغذ، چھپائی کی روشنائی، وہ پلیٹس جس سے مشینوں پر کاغذ چھپتا ہے، جلد کے لیے گتہ‘ لیمی نیشن، کتاب پیکنگ کا مختلف سامان اور بالآخر کتاب کی ترسیل کے لیے کارٹن وغیرہ۔ میں اس میں ان کارکنوں کی تنخواہوں کی بات شامل نہیں کر رہا جو ہر مرحلے میں کتاب کی تیاری کا کام کرتے ہیں اور لاگت کی کمی بیشی پر نمایاں اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان میں کون سی چیز ہے جس میں اس ڈھائی تین برسوں میں ہوشربا اضافہ نہیں ہوا؟ میں یہاں اضافے کے لفظ کے ساتھ ہوشربا کا لفظ استعمال کر رہا ہوں جو بالکل حقیقت ہے۔ کیا کسی عام آدمی کو، جو اس شعبے سے نہیں لیکن کتاب سے دلچسپی رکھتا ہے، یہ اندازہ ہے کہ کتابی سائز کا درمیانے گرام کا امپورٹڈ آفسٹ کاغذ اس وقت 5 ہزار روپے رم کے لگ بھگ پہنچ چکا ہے۔ کیا کسی کو خبر ہے کہ ملکی پیپر ملوں کا وہ کاغذ جو معیار میں قابل اطمینان ہرگز نہیں، 23 سو روپے کے قریب ہے۔ کیا کسی کو پتا ہے کہ جلد کے گتے کا بنڈل 13 سو روپے کے لگ بھگ بک رہا ہے۔ باقی چیزیں طوالت کے خیال سے چھوڑ رہا ہوں لیکن ہر روز کسی چیز کی قیمت میں بے تحاشا اضافے کی خبر روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔ یہ جان رکھیے کہ یہ اضافے، یہ اعداد آخری نہیں، صرف آج کی صورتحال بیان کرتے ہیں۔ یہ تفصیل کسی کیلئے دلچسپی کی چیز نہ ہو لیکن اس شعبے اور متعلقہ شعبوں کیلئے اہم ہے کہ ان کا دارومدار اسی کاروبار پر ہے۔کوئی لگام ڈالنے والا نہیں بے مہار گھوڑوں کو۔ کوئی قابو کرنے والا نہیں ان جنوں کو جو اپنے مالکوں کو ہڑپ کرنے کی تاک میں ہیں۔ ملکی پیپر ملوں کا حال یہ ہے کہ معیار کم سے کمتر اور نرخ بالاتر۔ یہ تو الگ رہا، اشاعت کے اس شعبے کی بھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا تعلق نہ درآمد سے ہے، نہ ڈالر سے لیکن وہ اسی آڑ میں مسلسل مہنگی ہورہی ہیں اور آپ جس سے شکایت کریں گے وہ آپ کو اپنے مسائل اور اپنی کہانیاں سنا کر لاجواب کردے گا۔ ہر شخص جو ظالم نظر آتا ہے، قریب سے دیکھو اور اس کی بات سنو تو لگے گا یہ مظلوم ترین شخص ہے۔
بات صرف کتاب کی بھی نہیں، زندہ رہنے کیلئے ہر ضروری شعبے کی ہے۔ اقبال عظیم نے کہا تھا نا: ؎
آدمی اس زندگی سے بچ کے جائے بھی کہاں
مے کشی بھی جرم ہے اور خود کشی بھی جرم ہے
مہنگائی کے انوکی لاک سے بازو کیسے چھڑائیں، ہڈی کیسے بچائیں۔ کچھ سمجھ نہیں آتی۔ کچھ سمجھ آتی ہے تو یہ بات کہ سمجھ آئی؟