"SUC" (space) message & send to 7575

ساتواں موسم …(1)

لاہور وہ شہر ہے جس میں چاروں موسم ٹوٹ کر آتے ہیں۔ گرمی، سردی، برسات، بہار۔ پانچویں اور چھٹے موسم ''موسمِ و صل‘‘ اور ''موسمِ ہجر‘‘ کا ٹوٹ کر آنا ان چاروں سے الگ ہے۔ ''گزرا ہوا موسم‘‘ ان سب پر حاکم موسم ہے جو سارا سال ان سب موسموں پر جب چاہے برس پڑتا ہے۔ اس کو بھی مستقل موسموں میں ساتویں موسم کے طور پرشمار کرلیا جائے تو کیا حرج ہے۔
اپریل کا اختتام ہے اور موسمِ گرما کا آغاز۔ دنیا کے سردوگرم کا مزاج بدلنے اور موسم آگے پیچھے کھسکنے کے باوجود لاہور میں موسموں کی شدت کم و بیش باقی ہے۔ ایسے شہر کی آب و ہوا پسندیدہ اور صحت بخش خیال کی جاتی ہے۔ لطیف اور شاعرانہ مزاج کے شہنشاہ جہانگیر اور اس کی محبوب ملکہ نورجہاں کو یہ شہر یونہی تو پسند نہیں تھا۔ 8نومبر 1627 کو اٹھاون سالہ جہانگیر کا آخری وقت آیا تو راجوری کشمیر میں آنکھیں موندیں اور راوی کے مشرقی کنارے پر شاہدرہ کے باغِ دل کشا میں آ سویا۔ اٹھارہ سال خاموشی سے گزارنے کے بعد 17دسمبر 1645 کو ملکہ بھی اس سے آملی۔ اعتمادالدولہ مرزا غیاث بیگ کی بیٹی مہر النسا‘ نورجہاں بیگم نے کسی اور شہر کے لیے تو یہ کبھی نہ کہا تھا کہ
لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم
جاں دادہ ایم جنتِ دیگر خریدہ ایم
خیر یہ تو وہ دور تھا جب سبک خرام دریائے راوی قلعے کی دیوار کے پاس سے گزرتا تھا۔ سرسبز باغات دریا کے دونوں کناروں پر لہلہاتے تھے۔ گھاٹ اور پنگھٹ آباد ہوتے تھے‘ اور وقت ایک نرم رَو ندی کی طرح راستہ بناتا جاتا تھا۔ شہزادہ کامران کی بارہ دری ایک جزیرے کی طرح دریا کے بیچوں بیچ اسی طرح اپنے مکینوں کا انتظار کرتی جیسے جے پور کا پانی میں گھرا ''جل محل‘‘۔ دہلی سے لاہور آنے والی راہگزر پر شہر سے کافی پہلے، باغبان پورہ اور مغل پورہ سے بھی پہلے امرا اور رؤسا کی جاگیریں اور باغات شروع ہوجاتے۔ اس زمانے کے فارم ہاؤسز۔ موسمِ گرما کے لیے خاص طور پر گوشۂ عافیت۔ خیر یہ تو پونے چار سو سال کی مسافت ہے۔ اتنا دور کیوں جائیں ابھی چالیس پچاس سال پہلے کے لاہور میں اور آج کے لاہور میں بھی گرمیاں بہت بدل چکی ہیں۔ ایک ہی زمین کے ٹکڑے پر کتنے دور، کتنے ہی زمانے گزر جاتے ہیں۔ سبک خرام راوی رواں رہتا ہے۔ بس دیکھتا جاتا، محفوظ کرتا جاتا اور بیان کرتا جاتا ہے۔ ایک ثقہ اور دیانتدار راوی کا کام ہے بھی تو یہی۔
دریائے راوی اور لاہور۔ خشکی اور پانی کے دو پہلو بہ پہلو ٹکڑے۔ ایک دوسرے کی رفاقت میں اس طرح زندگی بسر کرتے چلے آئے ہیں جیسے ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہوں۔ جیسے ان کا ملاپ ازلی ابدی ہو۔ راوی اور لاہور کے نام بھی، ایک روایت کے مطابق، ایک ہی منبع سے پھوٹتے ہیں۔ ویدوں میں راوی کا نام ''ایراوتی‘‘ بتایا گیا ہے۔ اس کے کنارے بسے ہوئے شہر کو ''ایراوت یاور‘‘ کہا گیا۔ سنسکرت سے نکلی ہوئی زبانوں میں''ر‘‘ اور ''ل‘‘ ایک دوسرے سے عام طور پر بدل جاتے ہیں۔ سو اس شہر کا نام ''لاوا ور‘‘ پڑ گیا۔ یاقوت الحموی نامی مؤرخ اسے ''لاہاور‘‘، البیرونی ''لوہاور‘‘ اور امیر خسرو ''لہا نور‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ غزنوی عہد کے مشہور شاعرخواجہ مسعود سعد سلمان لاہوری، جن کی جائے پیدائش بھی لاہور تھی، کمال نادرِ روزگار شخص تھے۔ مسعود سعد سلمان پر آزمائش آئی اور وہ لاہور سے دور داخل زنداں ہوئے تو اس کے فراق میں کہا:
اے آں کہ باغِ طبعِ من آراستہ تو را/بے لالہ و بنفشہ و سوسن چگونہ ای
(اے لاہور! اے میرے دل کا باغ آراستہ کرنے والے۔ لالہ اور بنفشہ اور سوسن کے بغیر تم کیسے ہو)
یاد آیا پروفیسر ڈاکٹر انجم طاہرہ نے ''لاہور در شعر فارسی‘‘ کے نام سے ایک قیمتی دستاویز جمع کی ہے‘ جس میں 72 فارسی گو شعرا کے سینکڑوں وہ اشعار شامل ہیں جو لاہور کی مدح و توصیف میں ہیں۔ ایسا فخر تو کسی کسی شہر کو نصیب ہوتا ہے‘ یہ الگ مقام گریہ ہے کہ ایسی نادر دستاویزات کو پڑھنے والے اور جاننے والے بس گنے چنے ہی ہیں۔
کیسا عجیب شہر ہے جو چن چن کر نادر و نایاب صاحب کمال لوگوں کو اپنے دامن میں اس طرح بھرتا ہے جیسے موتی بھرے جاتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو پورب سے پچھم تک متنوع اور رنگا رنگ بستیوں، زبانوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھتے ہیں، اس طرح لاہور میں ضم ہوئے جیسے ندیاں، نالے، چشمے اور جھرنے دریائے راوی میں آکر ملتے اور ایک رنگ میں ضم ہوتے رہے ہیں۔ ان کی آبائی بستیوں کی کشش اپنی اپنی جگہ مسلّم، لیکن لاہور نے انہیں پھر کبھی اپنے حلقۂ کشش سے نکلنے نہیں دیا۔ اقبال کتنی بڑی مثال ہیں۔ پھر ان کی پہچان اقبال لاہوری کے نام سے ہی ہوتی رہی اور یہی چلی آتی ہے۔ کاندھلہ کے احسان دانش ہوں، سیالکوٹ کے فیض احمد فیض، یا انگہ کے احمد ندیم قاسمی‘ سب یہیں کی مٹی سے رزق اٹھاتے رہے اور یہیں کی مٹی کا رزق ہوئے۔ اور یہ تو صرف چند شاعروں کی بات ہے۔ ہر شعبے میں یہی مثالیں ملیں گی۔
خیر بات گرمی اور لاہور کی ہورہی تھی۔ اپریل کو ٹی ایس ایلیٹ نے ظالم ترین مہینہ قرار دیا تو اس کی مرضی لیکن اگر حتمی رائے دینے سے پیشتر اہلِ لاہور سے مشاورت کرلی جاتی تو مئی جون کے مقابلے میں اپریل فرشتہ نظر آتا۔ خیر ایلیٹ نے تو اپریل کی بات جس حوالے سے کی وہ بالکل الگ تھی‘ لیکن لاہور میں مئی جون کی بھوبھل میں بجھی ہوئی گرمی اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ اب جب اپریل کا اختتام ہے اور گرما اپنی پُھُنکتی پھونکیں مار کر اپنے آنے کی خبریں دے چکا ہے لاہوری اپنی خیر منا رہے ہیں۔ پاکستان کے دوسرے اور دنیا کے 26ویں بڑے شہر لاہور نے کیا کیا ادوار دیکھے ہیں۔ میں اور میری عمر کے لوگ ہی اپنے مشاہدات رقم کریں توآج کے مقابلے میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ ایسا لگے گا کہ یہ دو لاہور ہیں۔ ایک پچاس سال پرانا اور ایک لمحۂ موجود میں سانس لیتا ہوا۔ تو جب محض پچاس سال میں یہ فرق پڑتا ہے تو صدیوں کا فرق آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ گزشتہ سو سال باقی صدیوں کے مقابلے میں بہت تغیر پسند، بہت تیز رفتار اور بہت انقلاب آفریں ثابت ہوئے ہیں۔
ذہن لاہور کے قریبی ماضی کی طرف لوٹتا ہے۔ ایک متوسط گھرانے کے فرد کا ماضی۔ کسی اور جگہ، کسی اور گھرانے کے مشاہدات کچھ الگ ہو سکتے ہیں‘ لیکن بالکل الگ نہیں۔ یاد کرنے پر وہ مہ و سال اس طرح سمٹ جاتے ہیں جیسے کھڑکی پر پڑا ہوا گہرے رنگ کا دبیز پردہ سمیٹ کر ایک طرف کردیا جائے اور آنکھوں کے اُس پار، کھڑکی کے اُدھر مئی جون کی دوپہر روشن ہوجائے۔ وہ دوپہر جب گرمیاں ہمارے لیے دراصل سرگرمیاں تھیں۔ ان سرگرمیوں میں بہت ہی اہم اور ناگزیر مصروفیات ہوتی تھیں‘ جن میں کھیروں اور ککڑیوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانا، امبیوں اور فالسوں پر نمک مرچ لگا کر دو آتشہ بنانا، '' شہتوت جلیبا‘‘ کے گھلتے رسیلے ذائقے کا نشہ کرنا، کہانیاں پڑھتے ہوئے آئس کریم والے کی آواز پر کان لگائے رکھنا وغیرہ شامل تھے۔ آئس کریم والا سفید رنگ کی ہتھ ریڑھی کھینچتا ہوا دو بجے دوپہر کے بعد گزرتا تھا لیکن سچ یہ ہے کہ وہ ہتھ ریڑھی کم اور بچوں کے دل زیادہ کھینچتا تھا۔ اس ریڑھی کے دیسی ریفریجریٹر بکس میں شاید عمروعیار کی زنبیل تھی جس میں سے خزانے نکلتے ہی چلے آتے تھے۔ وہ خزانے جن کے نکلتے ہی گرم دوپہریں ایک دم ٹھنڈی اور میٹھی ہوجاتی تھیں۔ کھوئے والی قلفی ایک اور ایسی طلسماتی چیز تھی جو دوپہر سرد کرنے پر قادر تھی۔ اگرچہ یہ جادوئی چیزیں ہر روز میسر آنا ممکن نہیں تھا‘ لیکن جس خوش قسمت دوپہر کو اور جس خوش نصیب بچے کو یہ مل جاتیں وہ دن ایک مستی میں گزارتا تھا۔ جن کو نہ ملتیں وہ بھی کوئی مستی ڈھونڈ ہی لیتے کہ مستی صرف آئس کریم کی محتاج نہیں تھی۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں