مجھے اپنی زندگی میں کوئی وقت ایسا یاد نہیں جب دنیا بھر میں آنسو اتنے افراط سے بہے ہوں، جانے والوں کے لیے شعر اتنے تواتر سے کہے گئے ہوں اور تعزیتی لفظ اتنی فراوانی سے استعمال ہوئے ہوں۔ یہ بھی یاد نہیں کہ کبھی جانے والے اتنی تیزی سے گئے ہوں۔ عالمی جنگوں میں‘ جو ہم سے بہت پہلے گزر چکی تھیں، دنیا کا کچھ حصہ تو محفوظ و مامون تھا۔ اللہ کا شکر ہے ہم اس دور میں پیدا ہوئے جب طاعون یعنی کالی موت جیسی مہلک وبائی بیماری بھی قصۂ پارینہ ہو چکی تھی۔ چیچک، ہیضہ وغیرہ جو بستیاں اجاڑ دینے کے لیے خاص شہرت رکھتی تھیں، بھولی بسری ہو چکی تھیں۔ ہم نے یہ سب کچھ نہیں دیکھا۔ ہم نے تو کووڈ19 کی یلغار دیکھی، جس سے بادشاہ، سپاہی، کسان، سوداگر، کاریگر، امیر، غریب کوئی محفوظ نہیں۔ جب گھر گھر سے بین کی آوازیں آرہی ہوں، بستی بستی خوف کے چنگل میں ہو، دشمن کا علم ہو لیکن اسے کوئی فصیل روک نہ سکتی ہو۔ ایک دوسرے کے جانی دشمن ملکوں میں دونوں طرف وہ کہرام بپا ہوکہ ایک دوسرے پر رحم آنے لگے، تو لفظ، شعر اور آنسو کیا کریں؟ ایسے قتل عام ہو تو سفاک لشکر کیا کرتے تھے، ایسی عالمگیر تباہی تو ہلاکو اور چنگیز کے حصے میں بھی نہیں آئی کہ ان کے لشکر بہرحال دنیا کے ہر ملک میں بیک وقت موجود نہیں ہوتے تھے۔
2020 ختم ہوا تھا تو اس امید کے ساتھ کہ اگلے سال میں تباہی کی یہ صورتحال نہیں ہوگی‘2021 میں ویکسین کی دستیابی سمیت بہت سے عوامل ایسے ہوں گے جو اس سال کو گزرے ہوئے سال سے بہتر بنا دیں گے‘ لیکن 2021 کے مئی تک آتے آتے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ سال پچھلے سال سے بھی زیادہ سفاک اور مہلک ہے۔ ہر صبح ایک نئی بری خبر لے کر طلوع ہوتی ہے اور ہر شام کئی پیاروں کو منوں مٹی کے سپرد کرکے جاتی ہے۔
ہر روز صبح دم کوئی آئنہ ٹوٹنا
اس خواب میں بچے گا ہمارا تمہارا کیا؟
اگر کوئی گھرانہ اور اس کے قریبی لوگ اس آشوب میں بچ گئے ہوں تو حیرت ہوگی ورنہ ہر طرف یہی کہرام ہے۔ میں اور میرا گھرانہ خود دو بار اس کی لہروں کی زد میں آچکے ہیں۔ اللہ نے کرم فرمایا اور دونوں بار اس الجھیڑے سے نکل آئے۔ پہلی بار 2020 میں اس کی زد میں آئے اور گھر کے دو افراد کے علاوہ مجھ سمیت سب کو کووڈ سے گزرنا پڑا۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اس نے اپنی سخت گرفت میں نہیں لیا۔ کچھ دن معمولی بخار، معمولی کھانسی رہی‘ سونگھنے اور ذائقے کی حسیں بھی بحال رہیں۔ دوائیں ڈاکٹرز کے مشورے سے لیتا رہا۔ چودہ پندرہ دن میں اصل بیماری ختم ہوگئی لیکن جسمانی کمزوری مہینوں تک رہی۔ اسی طرح گھر کے دیگر افراد بھی، اگرچہ پندرہ بیس دن کے اندر اس سے نکل آئے لیکن جس نے اس وبا کے چنگل میں پندرہ بیس دن بھی گزارے ہوں، اسے وہ دن مہینوں طویل لگتے ہیں‘ لیکن میری بیگم اس کی لپیٹ میں کافی زیادہ آگئیں۔ ان کے پھیپھڑوں پر شدید اثرات تھے، اس لیے ڈاکٹر کے مشورے سے دن میں دو تین بار تیز انجکشنز ڈرپ کے ساتھ لگانے پڑتے تھے۔ ان کاآکسیجن لیول الحمدللہ پوری مدت میں ٹھیک رہا، کبھی کبھی ڈراپ ہونے لگتا تھا تو تیمارداروں کے دل بھی ڈوبنے لگتے تھے۔ آکسیجن سلنڈر کا بندوبست بھی گھر پر کرلیا تھا۔ اللہ کا شکر ہے اس کی نوبت ایک آدھ بار کے سوا، نہیں آئی۔ قریب قریب ایک ماہ اس پریشانی میں گزرا لیکن مالک نے بہت فضل کیا کہ ہم سب اس سے باہر آگئے؛ تاہم کمزوری نے بہت دیر تعاقب کیا۔ کمزوری بھی معمولی نہیں‘ پلکیں اٹھانا بھی گراں محسوس ہوتا تھا‘ اور یہ حالت سب کی تھی۔
یہ بات تو گزشتہ سال کی تھی۔ اس سال دوسری لہر نے تمام تر ممکنہ احتیاطی تدابیر کے باوجود پھر گھر کا رخ کیا۔ جو افراد پچھلے سال اس کی زد میں آئے تھے، ان میں کچھ دوبارہ اس کا شکار ہوئے۔ گویا وہ تھیوری بھی ختم ہوگئی کہ جو ایک بار کووڈ19 سے صحت یاب ہو چکا ہو، اسے یہ بیماری دوبارہ نہیں دبوچتی۔ خد کا شکر ہے کہ میں اور میری بیگم محفوظ رہے۔ شاید یہ وجہ بھی ہوکہ اس دوران ویکسین لگو اچکے تھے تاہم دیگر افراد باری باری اس کا شکار ہوئے۔ وہ بھی جو پچھلے سال اسے بھگت چکے تھے۔ اللہ کا کرم ہے کہ اب سب کی طبیعتیں بہتر ہیں۔ کچھ صحت یابی کے آخری مراحل میں ہیں، تاہم صحت کی مکمل بحالی میں وقت لگے گا۔ ایک اور تھیوری جو ڈاکٹرز بھی شدومد سے بیان کیا کرتے تھے، بظاہر غلط ثابت ہوتی دیکھی کہ چھوٹے بچوں پر اس کے اثرات نہیں ہوتے۔ ایک دو بچے، انہی دنوں میں، غالباً اسی کا شکار ہوئے لیکن جلد صحتیاب ہوگئے۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ گلے کی خرابی، پیٹ کی خرابی وغیرہ سے جو بخار ہوا کرتے تھے، ان کی طرف اب دھیان جانا ہی ختم ہوگیا۔ ڈاکٹرز بھی شروع ہی سے علاج کووڈ19 کا شروع کردیتے ہیں چنانچہ ہر بچے‘ بڑے‘ بوڑھے کو اس ٹیسٹ سے گزارنا ہی بے سود لگتا ہے۔
بتانا یہ تھاکہ میں اپنے گھرانے سمیت اس منجدھارسے دو بار گزرنے والوں میں ہوں۔ اسی لیے مناسب سمجھتا ہوں کہ اپنا تجربہ اور مشاہدہ آپ کے سامنے رکھوں۔ ممکن ہے بہت سے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ احتیاطی تدابیر‘ جو ڈاکٹرز بتاتے ہیں‘ ان پر تو لازمی عمل کرنا ضروری ہے۔ پھر بھی ہر ممکن احتیاط کے باوجود وائرس کیلئے رخنے نکل ہی آتے ہیں۔ اس لیے ان پر عمل کے ساتھ ساتھ پہلی بات تو یہ کہ کسی ایسے اچھے فیملی ڈاکٹر سے رابطہ رہنا ضروری ہے جو آڑے وقت میں آن لائن مشورہ دے سکتا ہو اور دستیاب ہو۔ امیونٹی یعنی قوت مدافعت بڑھانے کیلئے جو دیسی ٹوٹکے یا ڈاکٹرز کی تجاویز بتائی جاتی ہیں، ان میں سے انتخاب کرکے عمل کرنا چاہیے کہ بہرحال یہ مفید ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس بیماری کو ہرگز معمولی نہ سمجھیں۔ بیماری کے دنوں میں اوکسی میٹر (آکسیجن لیول بتانے کا آلہ) لازماً گھر میں رکھیں۔ اگرچہ اکثر لوگوں کو اس بیماری میں بھوک نہیں لگتی تاہم کھانا پینا بہت ضروری ہے چاہے طبیعت پر جبر کرکے ہی کھایا جائے۔ وائرس اگر پھیپھڑوں تک پہنچ جائے تو پھر بہت تیزی سے پھیلتا ہے اس لیے ایکسرے کی ضرورت پڑے تو فوراً کروائیں بلکہ کووڈ ٹیسٹ سے بھی پہلے، اگر ڈاکٹر ضروری سمجھتا ہو۔ ایمرجنسی کی صورت میں آکسیجن سلنڈر یا آکسیجن بنانے کی مشین، آکسیجن کنسنٹریٹر (Oxygen Concentrator) گھر میں رکھیے۔ چونکہ یہ مشین بجلی سے چلتی ہے اور بجلی جانے کی صورت میں کام نہیں کرتی اس لیے سلنڈر بہتر ہوگا۔ ایمرجنسی کی صورت میں گاڑی کے سفر میں بیمار کے لیے ایک چھوٹا سلنڈر بھی ضروری ہے۔ بیماری اپنا خوف ساتھ لے کر آتی ہے جو دوسری بیماری ہے۔ اس لیے ہر ممکن کوشش ضرور کیجیے لیکن خوف کو اعصاب پر طاری نہ ہونے دیجیے۔ یاد رکھیے کہ اس مرض سے صحتیابی کی شرح بہت زیادہ ہے۔
سب سے اہم بات جو ہم سب کو پتہ ہوتی ہے لیکن دھیان ادھر سے بار بار ہٹ جاتا ہے اس لیے بار بار دھیان دلانے کی ضرورت ہوتی ہے، اس مالک کی طرف رجوع کرنا ہے جس کے اذن کے بغیر ہر دوا اور ہر ویکسین بے کار ہے۔ زندگی کے ہر مرحلے پر اس دوست کی شدید ضرورت ہوتی ہے جس کا نام اللہ ہے اور بیماری میں تو اس سے بڑھ کر سکون کی صورت کوئی نہیں۔ اس لیے دعاؤں کا اہتمام رکھیے۔ سمجھ رکھیے کہ یہ ہر احتیاطی تدبیر اور ہر دوا کے ساتھ لازمی ہے کہ ان میں اثر ڈالنے والا وہی ہے۔ حال کچھ بھی ہو بات یہی ہے کہ
میں تیرے در سے جو اٹھوں تو کس کے گھر جاؤں؟
مجھے زندگی بھر میں کوئی وقت ایسا یاد نہیں جب دنیا بھر میں آنسو اتنے افراط سے بہے ہوں، جانے والوں کیلئے شعر اتنے تواتر سے کہے گئے ہوں اور تعزیتی لفظ اتنی فراوانی سے استعمال ہوئے ہوں۔
لفظ اور شعر اور آنسو سارے ختم ہوئے
کیسے کیسے جان سے پیارے ختم ہوئے