بقر عید اور ہمارے بیچ چوبیس گھنٹے رہ گئے۔ عالم اسلام میں دوہی مذہبی تہوار ایسے ہیں جو مشرق سے مغرب سے ایک ہی طرح ایک ہی انداز میں منائے جاتے ہیں۔عید الفطر اور عید قربان۔ان دونوں دنوں میں سورج مشرق بعید کے جزیروں پر طلوع ہوتا ہے اور سفر کرتا بر اعظم امریکہ تک پہنچتا ہے تو اسے ایک ہی جیسے منظر دکھائی دیتے ہیں۔بقر عید کے دنوں میں اس تہوا رکے علاوہ کوئی گہما گہمی نظر نہیں آتی۔ گلیوں محلوں میں بھی بس یہی زور شور ہوتا ہے۔بلکہ بقرعید پر تو کپڑوں اور جوتوں وغیرہ کی خریداری تو بھی ثانوی ہوجاتی ہے۔
نصف صدی میں بقر عید میں کیا کچھ بدل چکا اور اور کیا کیا وہی کچھ ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ عید قرباں آج کے بچوں کے لیے بھی کم و بیش اسی طرح ہے جیسے ہمارے بچپن میں ہوا کرتی تھی۔زمانے کے فرق سے کافی چیزیں تبدیل ہوگئیں‘قیمتیں بھی کہاں سے کہاں پہنچ گئیں۔نمود و نمائش کا عنصر بھی قربانی میں پہلے سے کہیں بڑھ چڑھ کر حصے دار بن گیا۔ لیکن بنیادی چیزیں وہی ہیں۔ بچوں کی بنیادی خوشیاں بھی وہی ہیں۔
بچوں کو عید کا کیا پتا ہوتا ہے ؟یہ کیا ہے اور کیوں ہے ؟ لیکن عیدوں کا سب سے زیادہ انتظار بچوں ہی کو ہوتا ہے۔نئے کپڑے‘ نئے جوتے‘ دوست‘ سہیلیاں‘ چٹخارے‘ اور ذائقے۔عید الفطر پر عیدی بھی۔ بقر عید پر عیدی تو نہیں لیکن پیسے ضرور ملتے تھے۔چلو پیسے ملنے چاہئیں‘چاہے کسی حوالے سے ملیں۔بقر عید پر ذائقوں میں کئی طرح کے گوشت کی خوشبو بھی شامل ہوجاتی تھی۔بقر عید پر بکروں کی خوشی کا تو حساب ہی مت پوچھیے۔مہینوں پہلے سے انتظار لگنے لگتا تھا۔فرض قربانی کے علاوہ میرے والد جناب زکی کیفی ایک نفلی قربانی بھی کیا کرتے تھے۔نیلا گنبد والے گھر میں جب بکرے آتے جو عموماً تین ہوا کرتے تھے تو ہم بہن بھائی ان کے کوئی اچھے سے نام رکھ کر اپنا اپنا بکرا طے کرلیا کرتے تھے۔بہت سے گھروں میں یہ روایت بھی تھی کہ وہ سارا سال بکرا یا مینڈھا پالتے اور عید پر قربان کرتے تھے۔اندرونِ شہر میں ایسے بہت سے گھرانے تھے اور میں نے پرانی دلّی میں بھی یہ رواج بہت دیکھا۔قربانی کے جانوروں کی خریداری تو بہترین اور خوشگوار ترین مہمات میں سے ہوتی تھی۔کچھ بڑے ہوئے تو والد صاحب کے ساتھ خود بھی خریداری کے لیے جانے لگے اور اس کے قصے مہینوں تک سنائے جاتے رہتے۔ہمارے قریب ترین چوبرجی کوارٹرز اور چوبرجی چوک میں بکروں کی کافی تعداد ہوتی تھی سو زیادہ خریداری وہیں سے کی جاتی۔ بچوں کا جوش و خروش دیدنی ہوتا تھا۔بکرے کا ریٹ اس زمانے میں شاید تین چار ہزار روپے ہوا کرتا تھا جو اَب افسانوی سی بات لگتی ہے۔قربانی کے جانور ں کی آوازوں سے سب گھر بھرجاتے تو ہر گھر کے بچوں کا دوستوں کو اپنے جانور دکھانے اور ان کے دیکھنے جانا بھی دستور تھا۔ بکروں کو چرانے کے لیے لے جانا بھی ایک مزیدار کام تھا۔یہ سب روایات نسل در نسل بچوں میں آج بھی اسی طرح جاری ہیں۔ اب جہاں گلشن راوی کی پھیلی ہوئی آبادی ہے‘ وہاں کھیت اور کچے راستے تھے۔ہم اپنے گھر کی بلند چھت سے دیکھتے تو دور دریائے راوی ایک چاندی کی لکیر کی طرح نظر آتا تھا۔ایک گروہ کی صورت میں سمن آباد موڑ سے سب اپنے اپنے جانور لے کر نکلتے تو نالے کے پار گلشن راوی میں داخل ہوتے ہی کھیت شروع ہوجاتے۔خریداری سے عید تک کے دو تین دن بکروں کی باقاعدہ ہوا خوری اور چہل قدمی کرائی جاتی۔عید کے دن قصائی کی دستیابی آج کل کی طرح ہی ایک مہم جوئی سے کم نہ ہوتی۔ یہ مرحلہ طے ہوتا اور بکروں کو قبلہ رخ لٹایا جاتا تو بچوں کی آنکھوں میں آنسو ہوتے۔یہ آنسوبھی منتقل ہوتے ہوتے آج کے بچوں کی آنکھوں میں آپہنچے ہیں۔
لیکن آنسو تو اب بڑوں کی آنکھوں میں بھی ہیں۔ فرض قربانی ہر سال پہلے سے زیادہ قربانی مانگتی ہے۔ بچھڑا اور گائے ایک لاکھ سے کم میں ہرگزنہیں۔ گائے کا حصہ 18ہزار سے کم میں نہیں اور درمیانی جسامت کا بکرا چالیس ہزار سے کم میں نہیں و علیٰ ہذا القیاس۔قصائی اول تو کسی بھی قیمت پر دستیاب ہوجائے اور وقت پر دھوکا نہ دے تو بڑی بات ہے۔مل جائے تو چھوٹے جانور کا پانچ سے سات ہزار‘گائے کا دس ہزار مانگ لیتاہے۔ویسے تو زندگی میں کبھی ایسا سال یاد نہیں جس میں مہنگائی پچھلے سال سے زیادہ نہ ہوئی ہو لیکن اس عہدِ حکومت میں سب ریکارڈ ٹوٹے ہیں کہ کسی بھی چیز کا کوئی بھی نرخ سن کر حیرانی نہیں ہوتی۔ صرف پریشانی ہوتی ہے۔ اور پریشان ہونے سے مہنگائی کم نہیں ہوتی اس لیے خلاصہ یہ کہ قہرِ درویش بجانِ درویش۔ایسے حالات میں مدرسوں‘مسجدوں میں گائے کی حصے داری کا جو نظام ہے‘وہ لوگوں کے لیے بہت بڑی آسانی ہے۔ ممکنہ حد تک کم رقم میں اپنا حصہ شامل کرکے آپ باقی ذمہ داریوں سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ حکومت کی کون کون سی ذمہ داری کا رونا رویے۔ پاکستان لائیو سٹاک کے لیے بہت حوالوں سے بہترین ملک ہے۔چارے کی بہتات‘زمین کی موجودگی‘جانوروں کی طلب‘گوشت کی برآمد‘ چمڑے کی انڈسٹری۔ کون سا عنصر ہے جو تجارتی لحاظ سے مانع ہے ؟ایسا کیوں نہیں ہو سکتا تھا کہ ہر صوبے کی بے آباد زمینوں میں لائیو سٹاک فارمز بنائے جاتے ‘جس سے ان زمینوں کا بھی مصرف نکل آتا اور سارے سال زرمبادلہ بھی کمایا جاسکتا۔اچھا اگر حکومت کے لیے یہ کام خود مشکل ہے تو کم مدت کی سستی لیز پر لوگوں کوزمین فراہم کرکے انہیں موقع دے کہ بے روزگار کچھ کام کرسکیں۔بکر وال ایک بہت بڑا قبیلہ ہے جس کا روزگار ہی یہ ہے۔ پھر مال مویشی پالنا ہمارے گاؤں دیہات کے خمیر میں ہے۔
زمانے کی رو اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے۔اب بڑے شہروں میں نئے نظام بھی تشکیل پا رہے ہیں‘آن لائن جانوروں کی خریداری کے ڈھیروں ڈھیر ادارے وجود میں آچکے ہیں۔سوشل میڈیا پر آج کل ہر دوسرا تیسرا اشتہار اسی کا ہے۔بکروں‘بھیڑوں اور بچھڑوں کے بڑے فارمز بھی اپنی خصوصیات بتا رہے ہیں۔ اسی طرح ایسے کچھ ادارے بھی بڑے شہروں میں موجود ہیں جن میں جانور کی خریداری سے لے کر قربانی کے بنے بنائے صاف ستھرے گوشت تک ہر ذمہ داری ان کی ہے۔ آپ بس اپنے حصے کا گوشت جاکر لے آئیں۔ میں لاہور کے ایک معروف ادارے کے ذریعے دو بار اس تجربے سے گزرا۔ایک سال تجربہ بس ٹھیک رہا دوسری بار خراب۔مجھ سمیت اس تجربے کا حصہ بننے والے لوگوں کا احساس تھا کہ خود قربانی کے مقابلے میں یہاں گوشت کی مقدار کم محسوس ہوتی ہے اور ناقص اور بو دار گوشت کی بھی شکایت ہے؛چنانچہ جب تک ان نئے نظاموں اور نئے اداروں پر لوگوں کا اعتماد نہیں بنتا‘یہ عبوری دور ہی رہے گا۔
لیکن یہ محسوس ہوتا ہے کہ گلی محلوں میں پچھلے زمانوں کی نسبت قربانی کی آلائشوں اورگندگی میں کمی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ حکومتی اقدامات بھی ہیں اور لوگوں کا نسبتاً باشعور ہونا بھی۔ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر پرانا لاہور اب نئی آبادیوں میں منتقل ہوچکا ہے۔ نئی آبادیاں کشادہ اور ان میں اس طرح کی گنجائشیں زیادہ ہیں۔ ورنہ آلائشیں ٹھکانے لگانا ایک باقاعدہ کام ہوا کرتا تھا۔پاکستان او رہندوستان میں قربانیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ بیرونی ممالک بہت سے پاکستانی وہاں قربانی مہنگی اور دشوار طلب ہونے کی وجہ سے پاکستان کو ترجیح دیتے ہیں۔پچھلے سال مجھے شرارت سوجھی تو فیس بک پر پوسٹ لگائی کہ معاف کیجیے‘ کچھ مصرعے لکھنے تھے لیکن الٹ پلٹ ہوگئے ہیں قربانی کے دنوں میں‘مثلاً ''لیکن اتنا تو ہوا کچھ گوشت پہچانے گئے‘‘،''غالب ندیم گوشت سے آتی ہے بوئے گوشت‘‘۔'' از کجا می آید ایں آواز ِگوشت‘‘۔بس پھر نہ پوچھیے‘کیا کیا عظیم مصرعے لگائے گئے اس پوسٹ پر۔ لیکن یہ پڑھنے کے لیے آپ کو اس پوسٹ پر آنا ہوگا۔چلیے بھئی !چھٹی کے دنوں میں یہی سہی۔